ہر سال یکم دسمبر کو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ایڈز سے آگاہی اور اس سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جا تا ہے۔ ایڈ ز کا عالمی دن دنیا میں پہلی مرتبہ 1987ء میں منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد عوام الناس کو اس مہلک اور خطرناک مرض کے بارے میں شعور دینا ہے۔ یونیسیف کے مطابق، 2017ء میں 18بچے فی گھنٹہ کے حساب سے ایڈز کے مرض میں مبتلا ہوئے۔
نوعمر لڑکیوں میں ایڈز
اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ معلومات کی کمی اور جنسی تشدد کے باعث نوجوانوں بالخصوص نوعمر لڑکیوں میں ایچ آئی وی وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور ہر تیسرے منٹ میں15سے 19برس کی ایک لڑکی ’ایچ آئی وی‘ کا نشانہ بن رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بلوغت میں جنسی تعلقات، جبراً جنسی عمل، غربت اور حفاظتی تدابیر کا علم نہ ہونا ہے۔
یونیسف کی سربراہ ہینریٹا ایچ فور کا کہنا ہے کہ معاشرے کے کمزور اور پسماندہ افراد زیادہ تر ایچ آئی وی سے متاثر ہوتے ہیں، جس کا مرکزی ہدف خاص طور پر نوجوان لڑکیاں بنتی ہیں۔
ایڈز (AIDS) کیا ہے؟
ایڈز Acquired Immune Defficiency Syndrome) AIDS) ایک ایسی بیماری ہے جوHuman Immunodeficiency Virus) HIV)کے ذریعے پھیلتی ہے اور جسم میں جاکردفاعی نظام کو ختم کردیتی ہے۔ اگر ایچ آئی وی کا بروقت علاج کے ذریعے خاتمہ نہ کیا جائےتو اس کے نتیجے میں اگلے مرحلے میں وہ شخص ایڈز کا شکارہوسکتا ہے۔
ایچ آئی وی جسم کیساتھ کیا کرتا ہے؟
ایچ آئی وی انسان کے مدافعتی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے۔ مدافعتی نظام متعدی امراض کے خلاف لڑتا ہے اور بیمار ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔ ایچ آئی وی اس نظام کو کمزور کرتا ہے، جس کے بعد یہ کمزور نظام انسان کو بیماریوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ اگر متاثرہ شخص ایچ آئی وی کیلئے ادویات نہیں لیتا تو وہ ایڈز کا شکار ہوسکتا ہے۔
ایچ آئی وی کی تشخیص
صرف خون کے ٹیسٹ کے ذریعے ہی ایچ آئی وی کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ ٹیسٹ کا نتیجہ منفی آنے کا مطلب ایچ آئی وی کا نہ ہونا ہے جبکہ ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آنے کا مطلب اس شخص کے خون میں ایچ آئی وی کا موجود ہونا ہے۔ لوگوں کو علم نہیں ہوتا کہ انہیں ایچ آئی وی ہے۔ لیکن جب پہلی بار کسی کو ایچ آئی وی لاحق ہوتا ہے تواسے درج ذیل مسائل پیش آ سکتے ہیں۔
•سر میں درد، بخار، تھکاوٹ، سوجے ہوئے غدود، خراب گلا، سرخ دھبے، پٹھوں اور جوڑوں کا درد، منہ میں زخم، جنسی اعضا پر زخم، رات کو پسینہ چھوٹنا اور دست وغیرہ۔ تاہم یہ علامات نزلے، شدید زکام یا دیگر بیماری کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں۔ اگر کسی کو اپنے خون میں ایچ آئی وی کا خدشہ ہو تو اسے کسی ڈاکٹر سے رابطہ کرکے فی الفور ٹیسٹ کروانا چاہیے۔
ایچ آئی وی کیسے نہیں لگتا
گلے لگنے سے، کھانسی یا چھینکنے سے، مل کر خوراک یا مشروب پینے سے، ایسی خوراک کھانے سے جو کسی ایچ آئی وی زدہ شخص نے تیا ر کی ہو، صاف خون کے انتقال اور دیگر طبی عمل کروانے سے، وہی ٹوائلٹ یا شاور استعمال کرنے سے جو ایچ آئی وی زدہ شخص نے استعمال کیا ہو، حشرات یا جانوروں کے کاٹنے سے، ایچ آئی وی زدہ شخص سے روزمرہ واسطے سے اور سوئمنگ پول یا جم کے ذریعے۔
ایچ آئی وی لگنے کے اسباب
جنسی تعلقات:ایچ آئی وی کا وائرس ایک تندرست انسان کے جسم میں خلاف وضع فطری افعال کے نتیجہ میں داخل ہوسکتاہے۔ جنسی اختلاط میں ایچ آئی وی کے شکار فرد سے یہ وائرس دوسرے فرد میں منتقل ہو سکتا ہے۔ یہ وائرس جسم میں داخل ہونے کے بعد قوتِ مدافعت کے نظام کو مفلوج کردینے کے علاوہ اگر کوئی اورپُرانی بیماری موجود ہوتو اس کو بھی ہوا دیتے ہیں۔
انتقالِ خون: وائرس مریض کے خون میں ہر وقت موجود ہوتاہے ۔وہ لوگ جو بیمار ہونے پر اگر کسی ایڈز کے مرض میں مبتلا فرد کا خون لیں تو وہ بھی اس مرض کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ہسپتالوں میں غیر تصدیق شدہ خون کی فروخت بھی اس مرض کاسبب بنتی ہے۔
منشیات کے ٹیکے:نشے کے عادی افراد ٹیکے کے ذریعے بھی نشہ کرتے ہیں، انکے ٹیکہ لگانے کی سرنج اور سوئیاں گندی اور غیر محفوظ ہوتی ہیں۔ ایک ہی سرنج کا کئی بار استعمال کرنے سے یہ وائرس جسم میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر ایک ہی سرنج سے ٹیکے لگانے میں ایڈز کا ایک بھی مریض آجائے تو یہ بیماری سب میں پھیل جاتی ہے۔ ناک، کان چھیدنے والے اوزار، دانتوں کے علاج میں استعمال ہونے والے آلات، حجام کے آلات اور سرجری کے لیے استعمال ہونے والے آلات کے ذریعے بھی یہ متاثرہ شخص سے دوسرے فرد میں منتقل ہوسکتا ہے۔
وراثت:جس عورت کو ایڈز ہو تو اس کا پیدا ہونے والا بچہ بھی ایڈز میں مبتلا ہوسکتا ہے ۔
لاعلمی:مرض سے متعلق مناسب معلومات کا نہ ہونا اس کے پھیلنے کی ایک اہم وجہ ہے ۔ پاکستان میں ایڈز کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کردہ ادارے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق 1986ء سے اب تک پاکستان میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ 33ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔ پاکستان میں یہ صورتِ حال اس لیے بھی تشویش ناک ہے کیونکہ مغربی دنیا میں ایڈز کم ہو رہا ہے، جب کہ پاکستان میں تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق جب تک ایڈز اور ایچ آئی وی کی سنگینی کے بارے میں بڑے پیمانے پر عوام کو آگہی فراہم نہیں کی جائے گی، اس وقت تک اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔
ایڈز کا علاج
ایچ آئی وی سے مکمل شفا نہیں ہوسکتی لیکن ادویات کے ذریعے اس کو قابو میں رکھناممکن ہے۔ ادویات سے وائرس کی تعداد خون میں اس قدر کم ہو جاتی ہے کہ انہیں خوردبین کے ذریعے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ اسے’ناقابل سراغ وائرل لوڈ‘ کہتے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایچ آئی وی سے بیمار نہیں ہونگے اور نارمل لمبی زندگی گزاریں گے۔ اگر آپ مناسب طور پر ادویات لیتے رہیں تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ سے کسی اور کو بھی ایچ آئی وی منتقل نہیں ہوگا۔