انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم، ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق، دُنیا بَھر میں نفرت انگیز سیاست میں واضح طور پر اضافہ ہوا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر پریشان کُن ریاستی رویّوں کی وجہ سے پھیلنے والی یہ نفرت انگیز سیاست ہی اقلیّتوں کے خلاف امتیازی سلوک میں اضافے کا سبب بنی۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، 2017ء کے دوران اہم بین الاقوامی سیاسی شخصیات نے اپنے فیصلوں کے ذریعے سماجی نفرت اور خوف کے ماحول کو تقویّت دی۔ مذکورہ رپورٹ میں دُنیا کے تقریباً 160ممالک میں انسانی حقوق کی مجموعی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا، جس کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ گزشتہ برس 27ممالک میں انسانی حقوق کے 312فعال کارکنوں کو قتل کیا گیا۔ اگر تاریخِ انسانی پر نظر دوڑائی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ نفرت و حسد جیسے منفی جذبات انسانی جبلّت میں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر بابائے آدم کے فرزند، قابیل نے اپنے بھائی، ہابیل کو حسد کی بنا ہی پر قتل کیا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حسد کس قدر خطرناک جذبہ ہے۔ حسد، نفرت کی مختلف وجوہ میں سے محض ایک وجہ ہے، جب کہ اکثر خوف بھی اس جذبے کو ہوا دیتا ہے، جس کی بنیاد عموماً جہالت ہوتی ہے۔ بہ غور جائزہ لیا جائے، تو عموماً متعصّب افراد بے بنیاد باتوں کی جانب تیزی سے مائل ہوتے ہیں اور اپنی سوچ سے ہم آہنگ نہ ہونے والے حقائق کو نظر انداز یا توڑ مروڑ کر پیش کرتے یا پھر غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ متعصّبانہ سوچ کا ماخذ انسان کا ذاتی پس منظر ہوتا ہے، جو بہت سے متعصّبانہ نظریات کا ذمّے دار ہوتا ہے۔ پس ماندہ ممالک کے علاوہ ترقّی یافتہ ممالک میں بھی ایسے افراد موجود ہیں کہ جو خود سے الگ طبقات و مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو اچّھا نہیں سمجھتے اور یہ متعصّبانہ سوچ بعض اوقات ناخوش گوار واقعات کا سبب بنتی ہے۔ متعصّبانہ سوچ رکھنے والے افراد دوسری نسل یا ثقافت سے تعلق رکھنے والے افراد کو نا پسندیدہ عادات کا مالک سمجھتے ہیں اور جب یہ تعصّب کسی قوم یانسل میں سرایت کر جائے، تو بہت خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ قومیت، رنگ، نسل، ثقافت، مذہب یا زبان کی بنا پر خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے کی سوچ تعصّب اور نفرت کا باعث بن سکتی ہے۔ بیسویں صدی کے دوران اس قسم کے تعصّب کا بڑی شدّت سے اظہار کیا گیا۔ یاد رہے کہ نفرت یا تعصّب کا تعلق صرف جِلد کی رنگت یا قومیت سے نہیں، بلکہ ذاتی مفادات اور غیر منصفانہ تقسیم بھی نفرت کو ہوا دینے کے لیے کافی ہے۔ نیز، انسانی جارحیت کی حیاتیاتی وجوہ بھی ہو سکتی ہیں۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چُکی ہے کہ جارحیت کی بعض اقسام کا سبب اعصابی ریشوں سے رِسنے والے مادے، سیرو ٹونن کی کمی ہو سکتی ہے، جب کہ ایک اور نظریے کے مطابق، جارحیت ہماری ساخت اور فطرت کا حصّہ ہے۔ فلاسفہ کے استاد، سقراط کے بہ قول، کسی انسان کو لاحق بد ترین بیماری دلائل سے نفرت ہے۔
عام الفاظ میں نفرت سے مُراد ایسا رویّہ ہے کہ جس میں کسی فرد، نسلی و مذہبی گروہ، طبقے یا سماجی اکائی کو زبان، تحریر اور بعض اوقات متشددانہ طریقوں سے ایذا پہنچانا، نیست و نابود کرنا یا زندگی کے حق سے محروم کرنا شامل ہے۔ اگر نفسیاتی طور پر جائزہ لیا جائے، تو نفرت کرنے اور سہنے والے میں جو قدرِ مشترک ہوتی ہے، وہ خوف ہے۔ یعنی دونوں ہی اس بات سے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ اگر مخالف اُس پر غالب آگیا، تو اس کا کیا بنے گا؟ اسی خوف کی بنا پر وہ ایک دوسرے کے وجود تک سے خطرہ محسوس کرتے ہیں اور بعض اوقات ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں۔
ابتدائے آفرینش ہی سے انسانی سماج میں طاقت و غلبے کو خوف کی علامت اور ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی روایت قائم ہے۔ ہر طاقت ور، کم زور کا استحصال کرتا ہے اور طبقاتی سماج میں یہ کشمکش زیادہ واضح نظر آتی ہے۔ اسی باعث سوشلزم کے پیروکاروں نے یہاں تک کہہ دیا تھاکہ سماج میں طبقات اور اونچ نیچ کا تصوّر ہی ختم کر دیا جائے۔ جاگیر دارانہ نظام اور صنعتی ادوار میں وسائل پر چند افراد کی اجارہ داری نے دُنیا میں طبقاتی کشمکش کو پروان چڑھایا، جب کہ کوئی بھی مذہب یا نظریہ ،نفرت کو انسانی فلاح کا موجب قرار نہیں دیتا اور اس کے مقابلے میں رواداری، مساوات، انصاف، عدل، فلاح اور ہم دردی کا پرچار کرتا نظر آتا ہے۔ نیز، کوئی بھی مذہب یا نظریہ اچّھائی کے مقابلے میں بُرائی کی تبلیغ سے اجتناب اور محبّت کی تلقین کرتا ہے۔
انسان دوستی خالصتاً سماجی فلسفہ ہے اور تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ مختلف صورتوں میں زندگی کے مختلف شعبوں میں سرایت کرتے ہوئے ارتقا کے عمل سے گزرتا رہا ہے، جس کے عناصر مذاہب، فلسفے، معاشرتی علوم، نفسیات، مصوّری، ادب، اخلاقی روایات، سماجی اقدار، قانون اور آئین میں جداگانہ حیثیت سے نظر آتے ہیں۔ یہ عناصر انسانیت کی بھلائی اور آسودگی کی خاطر ہمہ وقت پروان چڑھتے رہتے ہیں اور اپنے مجموعی نتائج سے انسانی شعور کے ارتقا کو جاری و ساری رکھتے ہیں۔ اس فلسفے کے بنیادی اصول سچ سے قُربت رکھتے ہیں۔ یہ زمانۂ قدیم میں بھی مناسب تھا اور مستقبل میں بھی مناسب ہو گا۔ نئے نئے معاشی و سیاسی نظام آتے جاتے رہیں گے اور اقوام، حکومتیں اور تہذیبیں عروج و زوال پاتی رہیں گی، لیکن انسان دوستی کا متروک ہونا بہت مشکل ہے۔
انسان دوستی کے تصوّرات کو جس طرح فلسفے نے نِت نئے تجربات و نظریات سے گزار کر خالص بنانے کی سعی کی ہے، اسی طرح مذاہبِ عالم نے بھی انسان دوستی کے عناصر اور تصوّر کو روحانی اور اعتقادی سطح پر برتنے اور عام کرنے کی کوشش کی ہے۔ مذہب میں انسان دوستی اپنے فکری زاویوں میں انسانیت، مذہبی آزادی اور انتخاب کی آزادی پر یقین رکھتی ہے اور اس کے فروغ سے ایک دوسرے کے عقائد و مذاہب کے احترام و تقدّس کے ساتھ روا داری اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو سکتی ہے، جس کے لیے عالم گیر اخلاقی اقدار پہلی سیڑھی ہیں ۔ ہر چند کہ سیکولر انسان دوستی اور مذہبی انسان دوستی کے اغراض و مقاصد، نظریات و طریقۂ کار میں واضح فرق پایا جاتا ہے، لیکن مذاہبِ عالم اور انسان دوستی کی بنیادی اساس اس وقت ایک ہو جاتے ہیں کہ جب دونوں کی کارکردگی اور نتائج میں انسانی فلاح و بہبود کی غرض پوشیدہ ہوتی ہے۔
ہرچند کہ یورپ میں انسان دوستی اور مذہبی انسان دوستی کے نظریات و مباحث نشاۃِ ثانیہ کے بعد کُھل کر سامنے آئے، مگر مذاہبِ عالم میں ابتداہی سےانسان دوستی کے مختلف عناصر پائے جاتے ہیں۔ آج بھی ایران اور بھارت میں زرتشت مت کے کم و بیش ایک لاکھ20ہزار پیروکار موجود ہیں۔ زرتشت زندگی کو خوش گوار بنانے کے لیے انسان کی جسمانی و ذہنی صلاحیتوں میں اضافے کا درس دیتے ہیں اور رہبانیت کی بہ جائے تمدّن اختیار کرنے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسی طرح زرتشت مت کے اخلاقی فضائل میں محنت اور جفا کشی کو بھی اعلیٰ مقام حاصل ہے اور اس مذہب کے بانی جسمانی طہارت کے ساتھ خیالات و نظریات کی پاکیزگی کو بھی لازمی قرار دیتے ہیں۔ نیز، مستحق و نادار افراد کی مدد کی خصوصی ہدایت کرتے ہیں، چاہے وہ کسی دوسرے مذہب ہی سے کیوں نہ تعلق رکھتا ہو۔ انسان دوستی کے تناظر میں اس کی چند اہم تعلیمات ملا حظہ ہوں،’’ اے راست بازو! اپنا تزکیہ کرو ۔ دُنیا میں بسنے والا ہر انسان پاکیزگی حاصل کر سکتا ہے، خصوصاً جب وہ اچّھے خیالات، الفاظ اور اعمال کے ذریعے خود کو پاکیزہ کرلے۔‘‘ فلسفۂ انسان دوستی کے حوالے سے زرتشت مت کی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسان دوستی کوئی نیا تصوّر نہیں، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں ارتقاء کا عمل جاری و ساری ہے۔
اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول، حضرت محمدﷺ نے انسان دوستی پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اور قرآنِ پا ک میں بھی کئی مقامات پر انسانوں سے بھلائی کی تلقین کی گئی ہے۔ چند فرامینِ نبویﷺ ملاحظہ ہوں۔ ’’لوگوں میں اچھا وہ ہے، جو لوگوں کو نفع پہنچائے ۔‘‘’’جو اپنے لیے پسند کرتے ہو ، وہ اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرو ۔’’ تم میں اچھا شخص وہ ہے، جس سے اس کے گھر والے یا پڑوسی خوش ہوں۔‘‘جب کہ قرآن پاک میں ایک مقام پر فرمایا گیا، ترجمہ:’’ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔‘‘ تہذیبی اعتبار سے خود کو ترقّی یافتہ کہلوانے والوں نے اپنے ہاں سے نسل پرستی کے خاتمے کے لیے 19ویں صدی کا انتظار کیا، جب کہ آقائے دو جہاں، حضرت محمدﷺ نے آج سے 14سو برس قبل حجۃ الوداع کے موقعے پر یہ اعلان کیا تھا کہ ’’ کسی گورے کو کسی کالے پر او رکسی کالے کو کسی گورے پر ، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فو قیت حاصل نہیں، سوائے تقویٰ کے۔‘‘ پوری دُنیا میں سیاہ فاموں کے ساتھ رنگ و نسل کی بنیاد پر گزشتہ صدی تک روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کے خلاف کی جانے والی جدوجہد کے نتیجے میںرونما ہونے والی مثبت تبدیلی نے انسانی سوچ کو اُس اعلیٰ و ارفع درجے پر پہنچادیا کہ اس حوالے سے روا رکھی جانے والی سوچ فرسودہ اور ناقابلِ عمل ٹھہری۔ پھر گزشتہ صدی ہی میں مذہبی و معاشی بنیادوں پر جرمنی کی نازی فوج کی جانب سے یہودیوں کی نسل کُشی کی نہ صرف مذمّت کی گئی، بلکہ اسے انسانیت سوز مظالم گردانا گیا۔ نیز، جنوبی افریقا کے عوام نے اپنی نسل پرست حکومت کو بالآخر نیلسن منڈیلا کی قیادت میں شکستِ فاش دی، جب کہ رواں صدی میں برما کے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کُشی اور اُن کی جبری نقل مکانی انسانیت کے چہرے پر بد نما داغ ہے۔ علاوہ ازیں، دُنیا کے مختلف حصّوں، بالخصوص شام میں متحارب گروہوں کے درمیان لڑائی کی وجہ سے جنم لینے والے انسانی المیوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ ہے کہ وسائل اور اختیار پر قبضے کی خاطر انسان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے حوالے سے سوچ بچار کی جائے اور عالمی سطح پر ایسے اقدامات کیے جائیں کہ جن سے انسان کی مشکلات میں کمی آئے اور یہ دُنیا امن کا گہوارہ کہلانے کے قابل بن جائے ۔ اس سلسلے میں ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور مذہبی رواداری پر یقین رکھنے والے اور معاشرے کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے والے دانش وَروں سے استفادہ کرنا چاہیے۔