• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک پَل 365دِنوں کی مسافت طے کرتا نئے سال کی دہلیز تو پار کرلیتا ہے، لیکن اس کا سفر ختم نہیں ہوتا۔ صدیوں سے یہ سفر جاری ہے اور جاری رہے گا۔ سالِ رفتہ چوں کہ مُلک میں سیاسی تبدیلی کا سال تھا، لہٰذا رات 8بجے سے رات گئے تک کے پرائم ٹائم میں پاکستان کے ہر نیوز چینل پر سیاسی موضوعات پر مبنی ٹاک شوز کا غلبہ رہا۔ ہر میڈیا ہائوس نے ریٹنگ کی دوڑ میں سبقت لے جانے کے لیے حالاتِ حاضرہ پر دسترس رکھنے والے نام وَر اینکرز کے ذریعے سیاسی ’’ملاکھڑوں‘‘ کا خُوب اہتمام کیا۔ حالاتِ حاضرہ کے ان پروگرامز میں سال ہائے گزشتہ کی طرح 2018ء میں بھی پاکستان کے سب سے مقبول و معتبر چینل، ’’جیو نیوز‘‘ سے نشر ہونا والا پروگرام ’’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ اپنے منفرد موضوعات، تحقیقی خبروں اور ماہرانہ تجزیوں کے باعث ناظرین میں مقبول اور ریٹنگ میں سرِفہرست رہا، خصوصاً ڈی جی نیب، لاہور، شہزاد سلیم کے حوالے سے نشر کیے گئے ایک پروگرام کو تو غیرمعمولی پزیرائی ملی، جس پر قومی اسمبلی میں بھی گرما گرم بحث ہوئی اور بعدازاں چیئرمین نیب نے بھی نوٹس لیا۔ پھر سچ کی تلاش کا سفر ’’کیپٹل ٹاک‘‘ کی صورت سال بَھر ناظرین کی توجّہ کا مرکز رہا۔ گو کہ مذکورہ پروگرام کے میزبان، حامد میر کی غیرحاضری کے دوران یہ ذمّے داری نیوزاینکر ،محمد جنیدنے انجام دی۔ تاہم، انہوں نے بھی پیشہ ورانہ مہارت اور نہایت جانفشانی کے ساتھ پروگرام کا سحر ٹوٹنے سے بچائے رکھا۔ دوسری جانب ’’آپس کی بات‘‘ کے ایک پروگرام میں پاکستان تحریکِ انصاف کے ترجمان، نعیم الحق اور سابق وفاقی وزیر، دانیال عزیز کے درمیان ’’آپس کی بات‘‘ اس درجہ آپس میں ہوئی کہ دونوں دست و گریباں ہوگئے۔ نعیم الحق کے دانیال عزیز کو لگائے گئے تھپٹر کی بازگشت سیاسی و سماجی حلقوں سمیت اسمبلی میں بھی تادیر سُنی گئی۔ سلیم صافی کے ’’جرگہ‘‘ کے کئی پروگرامز نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے،جو سوشل میڈیا پر شیئر ہوئے، تو زبانِ زدِعام بھی رہے۔ غیر روایتی تجزیہ نگار، حسن نثار کے تلخ، لیکن حقیقت پر مبنی تبصروں کے پروگرام ’’میرے مطابق‘‘ کی کڑوی کسیلی، لیکن فائدہ مند گولی بھی مسلسل نگلی جاتی رہی۔ لاحاصل مکالموں کی بجائے مختصر، بامقصد اور نتیجہ خیز گفتگو پر مبنی پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ ریٹنگ کی دوڑ میں نمایاں رہا۔ دیگر ٹاک شوز میں نیا پاکستان، الیونتھ آور، آف دی ریکارڈ، نائٹ ایڈیشن، نیوز بیٹ، دُنیا کامران خان کے ساتھ، حرفِ راز، نیوز آئیز، لیکن، کھرا سچ، کل تک، مقابل، تکرار اور بریکنگ نیوز وغیرہ بھی ناظرین میں خاصے مقبول رہے۔ کھیلوں کی خبروں، تجزئیوں اور تبصروں پر مبنی ’’جیو نیوز‘‘ کا پروگرام ’’اسکور‘‘ اور ایک اور نجی چینل سے نشر ہونے والا پروگرام ’’اسپورٹس ایکشن‘‘ کھیلوں کے شائقین، خصوصاً کرکٹ لوورز میں بے حد سراہا گیا۔ جرائم کی دُنیا اور انویسٹی گیشنز پر مبنی پروگرامز سرِعام، میری کہانی، میری زبانی، کرائم سین اور ذمّے دار کون وغیرہ بھی ناظرین کی دِل چسپی کا محور و مرکز رہے، جب کہ دیگر چینلز کے اسی قسم کے پروگرامز کچھ زیادہ مقبولیت حاصل نہ کرسکے۔ انٹرٹینمنٹ شوز کی بات کی جائے، تو 2018ء میں بھی ناظرین کو سارا سال مختلف چینلز پر کم و بیش ایک ہی انداز کے پروگرامز دیکھنے کو ملے۔ تاہم، سیاسی تنائو سے بے زار عوام نے تفریح کی تلاش میں ان ہی پر گزارہ کیا۔ ریٹنگ کے اعتبار سے جیو نیوز کا ’’خبرناک‘‘ نمبر وَن رہا، تو حسبِ حال، مذاق رات، خبردار نمبر ٹو اور سیاسی تھیٹر، جوک در جوک اور ڈارلنگ تیسرے نمبر پر رہے۔

مارننگ شوز تمام تر تنقید کے باوجود اپنی روش پر قائم رہے۔ فروری 2018ء میں نون لیگ کی، پنجاب اسمبلی کی رکن، نگہت شیخ نے نجی چینلز پر نشر ہونے والے مارننگ شوز پر پابندی کی قرارداد پیش کی، مگر کوئی خاطر خواہ پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی، ہاں یہ ضرور ہوا کہ بعض چینلز نے ذاتی وجوہ کی بنا پر یہ شوز بند کردیئے۔ یوں تو مارننگ شوز کے کئی موضوعات سوشل میڈیا کی سخت تنقید کی زد میں رہے، مگر ان میں سے ’’چاکلیٹی دلہن‘‘ کا شو، جس میں اچھی خاصی خوب رُو لڑکیوں کے چہروں کو سیاہ میک اپ کیے گئے، سخت ناپسند کیا گیا۔ 2018ء میں بھی جیو نیوز کا نیوز بیسڈ شو ’’جیو پاکستان‘‘ اپنی میزبان جوڑی، ہما امیر اور عبداللہ سلطان کی دِل چسپ و مہذّب نوک جھونک کے ساتھ ریٹنگ کی دوڑ میں سرِفہرست رہا۔ اسی طرح ایک دوسرے نجی چینل سے نشر ہونے والا اسی طرز کا ایک شو ’’صُبح سے آگے‘‘ بھی ناظرین کی توجّہ حاصل کرنے میں کام یاب رہا، جب کہ ’’نیوز کیفے‘‘ نامی شو بھی سنجیدہ و بردبار ناظرین میں پسند کیا گیا۔

بدقسمتی سے گزشتہ سال بھی بچّوں کے لیے کوئی خاص تفریحی، اصلاحی، تعلیمی یا سبق آموز پروگرام شروع نہیں ہوسکا۔ تاہم، کارٹون پروگرامز کے ضمن میں غیر اخلاقی مناظر کی شکایات موصول ہونے پر پیمرا نے بعض چینلز کو پابند کیا کہ وہ اپنے پروگرام پیمرا قوانین اور الیکٹرانک میڈیا، ضابطۂ اخلاق 2015ء کے مطابق ترتیب دیں۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات، فواد چوہدری نے پی ٹی وی کی سیاسی سینسر شپ ختم کرنے کا اعلان کیا، تو اکتوبر میں سپریم کورٹ نے پاکستانی ٹی وی چینلز پر بھارتی مواد نشر کرنے پر پابندی عاید کردی۔

اب ذکر ذرا رمضان ٹرانس میشنز کا۔ مئی 2018ء میں چیف جسٹس، اسلام آباد ہائی کورٹ، شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ ’’رمضان المبارک کے مقدّس مہینے میں سحر و افطار کے دوران جاری ٹرانس میشن میں اچھل کود اور دھمال نہیں چلنے دیں گے، پانچ وقت اذان نشر کی جائے گی۔ نیز، اسلامی موضوعات پر پی ایچ ڈی اسکالرز سے کم قابلیت کے حامل افراد تبصرے نہیں کریں گے۔‘‘ اس عدالتی حکم پر کس چینل نے کس حد تک عمل کیا، یہ تو ناظرین دیکھ ہی چُکے ہوں گے۔ بہرحال، ’’جیو‘‘ نے 2018ء کی رمضان ٹرانس میشن، بنام ’’اتحاد رمضان‘‘ رابعہ انعم اور سمیع خان کی میزبانی کے ساتھ، عدالتی حکم کی پاس داری کرتے ہوئے نہایت باوقار انداز میں نشر کرنے کی کوشش کی، جب کہ دیگر چینلز نے نُورِ رمضان، عشقِ رمضان، شانِ رمضان، عہدِ رمضان اور محبّت ہے رمضان کے ناموں سے پروگرام کیے۔ الیکشن 2018ء ٹرانس میشن کے لیے بھی تمام چینلز نے غیرمعمولی اہتمام کیا، مگر اس ضمن میں بھی ’’جیو نیوز‘‘ نے خاصی بُردباری اور پیشہ ورانہ ذمّے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب سے پہلے نتائج موصول ہونے کے باوجود الیکشن کمیٹی کی جانب سے متعین کردہ وقت سے قبل کسی انتخابی نتیجے کا اعلان نہیں کیا۔ جب کہ بعض چینلز کو خلاف ورزی پر’’ اظہارِ وجوہ ‘‘کے نوٹس وصول کرنا پڑے۔ ’’جیو نیوز‘‘ کے لیے سال کی ایک بہت اچھی خبر یہ بھی رہی کہ 5ویں ’’سالانہ ایشین ویورز ٹیلی ویژن ایوارڈ‘‘ کی اُردو نیوز چینل کیٹگری میں ’’چینل آف دی ایئر‘‘ کا ایوارڈ اس کے حصّے آیا۔

بلاشبہ، پاکستانی ڈرامے ناظرین کو یوں اپنے سحر میں جکڑتے ہیں کہ اسکرین پر چلنے والا سین حقیقی معلوم ہوتا ہے۔ تب ہی تو 2018ء کے چند ایک ڈراموں کے مختلف سینز کے دوران کئی آنکھیں اشک بار ہوئیں۔ گرچہ 2017ء میں ناظرین ایک چینل سے 8بجے نشر ہونے والے ڈراموں کا دورانیہ دو گھنٹے تک بڑھائے جانے پر بوریت کا شکار ہوئے تھے، مگر 2018ء میں یہ انداز مقبول ہوگیا۔ قارئین کی آراء سے مرتّب کی جانے والی ایک فہرست کے مطابق سال کے دس بہترین ڈراموں میں دسویں نمبر پر نام وَر رائٹر، ہاشم ندیم کا تحریر کردہ ڈراما ’’وصال‘‘ تھا، جس کی ہدایات علی حسن نے دیں۔ نویں نمبر پر جیو چینل سے نشر ہونے والا ڈراما ’’گھر، تتلی کا پر‘‘ رہا، جسے ثمرہ بخاری نے تحریر کیا۔ آٹھویں نمبر پر ڈرامے ’’سیپ‘‘ نے جگہ بنائی، جس کی لکھاری بھی ثمرہ بخاری ہی تھیں۔ ساتویں نمبر پر ڈراما ’’بے دردی‘‘ تھا، جسے شگفتہ بھٹّی نے تحریر کیا اور اپنے اچھوتے موضوع کے سبب پسند بھی کیا گیا۔ چھٹے نمبر پر عدیل رزاق کا تحریر کردہ ڈراما ’’پکار‘‘ اور محسن علی کا تحریر کردہ ڈراما ’’ایسی ہے تنہائی‘‘ رہا۔ پانچویں نمبر پر ’’نُورالعین‘‘ نے جگہ بنائی، جس کے لکھاری ایڈیسن ادریس مش ہیں، تو عمدہ ہدایت کاری سرمد سلطان کھوسٹ کی تھی۔ چوتھے نمبر پر جس ڈرامے نے جگہ بنائی، وہ سیما اکرم چوہدری کے قلم سے لکھا ایک ہلکا پھلکا ڈراما ’’سُنو چندا‘‘ تھا۔ تیسرے نمبر پر ڈراما ’’لشکارا‘‘ رہا، جو ظفر معراج کی تخلیق، تو کاشف نثار کی عمدہ ہدایت کاری کے باعث خاصا پسند کیا گیا۔ دوسرے نمبر پر’’ زینب قتل کیس‘‘ کے تناظر میں لکھا گیا ڈراما ’’میری گڑیا‘‘ رہا، جسے رادین شاہ نے تحریر کیا، تو ہدایت کاری علی حسن کی تھی۔ ڈرامے کی پوری کاسٹ نے اپنے اپنے کردار بڑی خُوبی و عُمدگی سے نبھائے، مگر ثانیہ سعید کی اداکاری کا تو کوئی جواب ہی نہ تھا۔ اوّل نمبر کی بات کی جائے، تو اسماء نبیل کا تحریر کردہ، جیو چینل سے نشر ہونے والا ڈراما ’’خانی‘‘، ایک شاہ کار فیملی ڈراما ’’آنگن‘‘ اور سال کی آخری سہ ماہی میں نشر ہونے والا ڈراما ’’دِل موم کا دیا‘‘ تینوں ہی اس پیمانے پر پورے اُترتے نظر آئے۔

گزشتہ برس بعض ڈراموں کے ٹائٹل سونگز بھی ناظرین میں بے حد مقبول ہوئے، جن میں سرِفہرست معروف گلوکار راحت فتح علی خان کی آواز میں ’’خانی‘‘ ڈرامے کا ٹائٹل سونگ ’’قیامت‘‘ رہا، پھر راحت ہی کی آواز میں ڈراما ’’سیپ‘‘ کا ’’سبحان ہے، وہ خالق‘‘ اور ’’کوئی چاند رکھ‘‘ کا ’’خواہش میری آتش بنی‘‘ سراہے گئے، جب کہ دیگر میں ’’دِل موم کا دیا‘‘ کا ’’جیسے آسمان‘‘، نُورالعین کا ’’دِل کو بھولے رستے‘‘،’’آخری اسٹیشن‘‘ کا ’’مجھے جینے کا حق چاہیے‘‘ اور ’’بیلا پور کی ڈائن‘‘ کا ’’اِک عُمر کا سفر‘‘ رہے۔ علاوہ ازیں، ہارر ڈراموں میں سایا، بیلاپور کی ڈائن کو پسند کیا گیا، تو کامیڈی ڈرامے، ہم سب عجیب سے ہیں، گھر جمائی، باجی ارشاد، نمک پارے، آنٹی پارلر والی، بیوی سے بیوی تک بھی دیکھے گئے۔ ہر سال کی طرح مختلف چینلز کے بینر تلے کچھ فلمیں بھی ریلیز ہوئیں، جن میں فلم ’’دی ڈونکی کنگ‘‘ بازی لے گئی۔ ڈراما انڈسٹری کے لیے 2018ء اسی اعتبار سے بھی منفرد رہا کہ پچھلے کچھ عرصے سے جو بھارتی طرز پر روایتی ڈرامے نشر کیے جارہے تھے، اُن کا سحر ٹوٹ گیا اور امسال زیادہ تر سماجی مسائل پر ڈرامے نشر ہوئے۔ مثلاً آنگن، میری گڑیا، خانی، بے دردی، ایسی ہے تنہائی، آخری اسٹیشن، پکار، قربان اور اب دیکھ خدا کیا کرتا ہے وغیرہ۔ نیز، چینلز کی بَھرمار، ڈراموں کے ازدحام میں ٹاپ ٹین ڈراموں کے علاوہ بھی کئی ڈراموں نے ناظرین کی خاصی توجّہ سمیٹی، جن میں سلسلے، تعبیر، ایک تھی رانیہ، خاموشی، خسارا، کیفِ بہاراں، ہارا دِل، ٹھیس، سودائی، رُوبر عشق تھا، میرا خدا جانے، دے اجازت، خود غرض اور وہ میرا دِل تھا وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ تادمِ تحریر نشر ہونے والوں میں بلا، رومیو ویڈز ہیر، رانجھا رانجھا کردی، حیوان، کوئی چاند رکھ، باندی، بابا جانی، ببّن خالہ کی بیٹیاں، محبّت زندگی ہے اور نو لکھا دیکھے اور پسند کیے جارہے ہیں۔

اب ذکر ذرا اُن ڈراموں کا بھی ہوجائے، جو سوشل میڈیا پر خاصی تنقید کا نشانہ بنے، اُن میں رادین شاہ کا تحریر کردہ ڈراما ’’نباہ‘‘ شامل ہے، جو پی ٹی وی کے مشہور ڈرامے ’’آج‘‘ کا چربہ تھا۔ پھرلکھاری شگفتہ بھّٹی نے دعویٰ کیا کہ ان کا تحریر کردہ ڈراما ’’بے دردی‘‘ ایڈز کے موضوع پر پہلا ڈراما ہے، مگر سوشل میڈیا پر ان کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’پی ٹی وی سے نشر ہونے والے مقبول ڈرامے ’’تھوڑی سی زندگی‘‘ کا بھی مرکزی خیال یہی تھا‘‘۔ ایک اور چینل سے نشر ہونے والے دو ڈرامے ’’زَن مرید‘‘ اور ’’کیسی عورت ہوں مَیں‘‘ خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم پر مبنی تھے اور ہیروئن بھی ایک ہی (نادیہ خان) تھیں، تو ابتدا کی چند اقساط نشر ہونے کے بعد لوگ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آئے کہ ’’آخر، ایسے موضوعات پر ڈرامے بننا کب بند ہوں گے۔‘‘ ظفر معراج کا تحریر کردہ ڈراما ’’لشکارا‘‘ بلاشبہ ہر اعتبار سے ایک مکمل ڈراما تھا، مگر آخری چار اقساط میں وقت کی تبدیلی کے باعث ریٹنگ کی دوڑ میں کچھ پیچھے رہ گیا۔ 

تازہ ترین