پروفیسر نوشابہ قدوائی
حالی نے کیا خوب کہا ہے کہ
کھیتوں کو دے لو پانی اب بہہ رہی ہے گنگا
کچھ کرلو جوانوں اٹھتی جوانیاں ہیں
مذکورہ بالا مصرعہ نوجوانوں کو تو مستقبل کی فکر سے آگاہی حاصل کرنے کو کہہ رہا ہے،لیکن اس کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی جھنجھوڑ رہا ہے، جب بچے کالج کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں، تو ان کی ذمے داری سے بری الذّمہ ہونے کے بہ جائے ان پر زیادہ دھیان دینا چاہیے۔اپنے بچوں کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے ان کی رہنمائی کریں، لیکن اس بات کابھی خیال رکھیں،کہ اب وہ بچے نہیں ہیں، انہیں سختی سے نہیں پیار ، محبت اور دوست بن کے سمجھانا چاہیے۔ اس طرح رہنمائی کریں کہ، ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو، خود اعتمادی کو ٹھیس نہ پہنچے اس انداز سے سفر ترقی کی طرف گامزن ہوکہ مستقبل خود بہ خود روشن ہوجائے۔نوجوانو!سوچو ،سمجھو جوانی کے وقت کے ہر لمحے کی قدرکرو ،آج اگر تم محنت کے پودے کی آب یاری کرو گے، تو کل یہی پودا ایک ایسا تناور درخت بن جائے گا ،جس کی چھائوں میں آپ کے لیے ترقی کی راہ ہم وار ہو جائے گی۔اپنے ذہن کو دعوت ِفکر دیں،اگر آج علم حاصل کرنے پہ دھیان نہیں دیں گے،اسے زحمت سمجھیں گے، سڑکوں پر بغیر سائیلنسر موٹر سائیکل چلاتے دنداناتے گھومیں گے، تو کل آپ کا مستقبل روشن نہیں بلکہ تاریکیوں میں گُم نظر آئے گا۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی قوم کے نوجوان اپنی تمام تر صلاحیتیںبروئے کار لاتے ہیںتو،اس قوم کو کبھی کشکول نہیں اُٹھانا پڑتا ، وہ قوم ترقی کی منازل طے کرتی ہے، جس کی نسل نوقابل اور محنتی ہو۔یاد رکھیں جوانی کا سورج جلد غروب ہوجاتا ہے، اسی لیے چھتوں پر چڑھ کر پتنگ بازی کرنے کے بہ جائے ،اپنے ہاتھوں میں قلم تھام لیں، یہی قلم کل تلوار بن جائے گا ، جس کے بَل پر آپ دنیا فتح کر سکتےہیں۔ بڑھاپے میں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہوگی وقت کا پنچھی اڑتے اڑتے کہیں دور چلا جائے گا اور آپ کی آواز ایک سودائی کی آواز بن جائے گی۔
دوسری جانب والدین کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ جب تک وہ جوان اولاد پر بھرپور دھیان نہیں دیں گے، تب تک اُن کی پرورش میں خامیاں رہیں گی، وہ کبھی کام یاب انسان نہیں بن سکیں گے۔ جوانوں کی اڑان اُس وقت بلند ہوتی ہے، جب والدین ان کو حوصلہ ،سہارا دیتے اور ہمت افزائی کرتے ہیں۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں بلکہ یہ بات درست ہے کہ اگر کھیتوں کو بروقت پانی نہ دیا جائے ،تو کھیتی سو کھ جاتی ہے، زمین بنجر اور ویران ہوجاتی ہے اور امیدوں پر پانی ضرور پھر جاتا ہے ۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ نسل نو ضرور سوچے کہ انہیں کیا، کیوں ، کب اور کیسے کرنا ہے ۔ اپنی سوچ میںمثبت تبدیلی پیدا کریں،اگر آج محنت کریں گے،تو کل اس کا ثمر حاصل کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔آج کل کے نوجوان جو ٹی وی، کمپیوٹرز اور موبائل میں وقت ضائع کررہے ہیں، ان سے مثبت کام لیں۔ یہ ملک بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔ اس کی حفاظت کرنا اور اِسے مستحکم بنانے میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔نوجوان دوستو! اگر گھر میں کوئی پریشانی آئے، تو گھر چھوڑ کر نہیں جایا جاتا، بلکہ گھر میںرہتے ہوئے اس پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ویسے ہی اپنے ملک سے کسی دوسرے ملک جانے کے بہ جائے اپنی صلاحیتوں کو اپنےہی ملک پر لگادو۔