میں ،ڈیرہ غازی خان چار چھ مرتبہ گیاہوں۔دوچار بار مشاعرہ بازی کے چکر میں گیا تھا ،ایک مرتبہ ڈاکٹر شاہینہ نجیب کھوسہ کی دعوت پر پی ٹی آئی کی ایک تقریب میں شرکت کی تھی ،ایک آدھ بار ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ اور ایمان قیصرانی سے ملا مگر ڈیرہ غازی خان سے میری وہ ملاقات مسلسل جاری و ساری رہی ،جس کا آغاز نوجوانی میں ہوا تھا ۔میں گورنمنٹ کالج میانوالی سے بس فارغ ہوا ہی تھا کہ ڈاکٹر طاہرتونسوی کا وہاں تبادلہ ہو گیا ،وہ ڈی جی خان کی تحصیل تونسہ کے رہنے والے تھے ،بہت معروف تنقید نگار اور شاعر تھے،بس پھردوتین سال اُن کی ہمراہی میں گزر گئے ،وہ آج کل مستقلا ً ملتان میں مقیم ہیں ،یہ ڈی جی خان سے میراپہلا علمی و ادبی تعارف تھا ۔انہی دنوں محسن نقوی میانوالی آئے ، اُن کے ساتھ تعلق قائم ہو گیا پھر اقبال سوکڑی کی سرائیکی شاعری نے مجھے حیرت میں مبتلا کردیا ،وہ آج بھی مجھے اپنے دل کے بہت قریب لگتے ہیں ۔انہی دنوں سرائیکی زبان کے ایک اوربڑےشاعر عزیز شاہد سے بھی تعلق استوار ہوا ،احسن واہگہ سے دوستی ہوئی ،میں نے سرائیکی زبان اور صوبے کےلئے اُن سے مل کر خاصا کام کیا ،یہ سارے مراسم ایک طرح ڈی جی خان سے میری محبت کی کہانیاں تھیں ۔اس محبت میں آموں کے وہ باغات بھی شامل ہیں جنہوں نے ہمیشہ مجھے اپنی مٹھاس سے سیراب رکھا۔
پھر میں آوارہ گردی کرتے کرتے کہیں برطانیہ کی دھند میں کھوگیا مگر ڈی جی خان کسی نے کسی شکل میں میرے ساتھ رہا ،یورپ میں بھی ڈی جی خان کےکئی خوبصورت دوست ملے۔اب جب واپس لاہور آیا ہوں تو پھرمجھے ڈی جی خان نے اپنے حصار میں لے لیا ،پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر سے دوستی ہوگئی جو اورینٹل کالج کے سربراہ ہیں اور اپنی ذات میں علم وادب کا ایک گہوارہ ہیں ،ایک محبت بھرا تعلق ڈاکٹر نیاز احمد سے بن گیا جو پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں ، جنہوں نے تقریباً چالیس سال بعد پنجاب یونیورسٹی کو پہلی بار درس و تدریس کی حقیقی شاہراہ پر گامزن کیا ہے۔الحمرا لاہور کے موجودہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر اطہر علی خان سے روشنی اور خوشبو آنے لگی ۔پھر ایک دن معلوم ہوا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بنا دئیےگئے ہیں اُن کا تعلق بھی ڈیرہ غازی خان سے ہے اور ابھی تھوڑی دیر پہلے ڈی جی خان کے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھایا ہے ،میں نے ایک دوست سے کھوسہ صاحب کے بارے میں بہت باتیں سن رکھی ہیں ۔سو ان کے نام سے مجھے ایک انسیت سی محسوس ہوتی ہے ،آصف سعیدکھوسہ ،سردار فیض محمد کھوسہ ایڈوکیٹ کے بیٹے ہیں جوایوب خان کے دور میں میونسپل کمیٹی ڈیرہ غازی خان کے چیئرمین ہوا کرتے تھے ۔بعد میں لاہور شفٹ ہو گئے اور یہیں وکالت کرنے لگے ۔ان کے نانا غلام رسول شوق ڈی جی خان کے معروف ماہر تعلیم تھے ۔سابق چیف سیکرٹری ناصر محمود کھوسہ ان کے بھائی ہیں ۔سابق گورنر پنجاب لطیف خان کھوسہ ان کے ماموں زاد بھائی ہیں ۔پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا اور وہیں انگلش کے لیکچرار ہو گئے۔انگریزی لٹریچر سے انہیں بہت شغف ہے ۔اُن کے فیصلوں سے بھی اِس بات کا پتہ چلتا ہے ۔سرائیکی شاعری کو بھی بہت پسند کرتے ہیں ۔گم گو ہیں ، خود کم بولتے ہیں فیصلے زیادہ ۔جسٹس نسیم حسن شاہ کے داماد ہیں ۔ نسیم حسن شاہ کےکسی زمانے میں شریف فیملی کے ساتھ بڑے اچھے مراسم تھے ۔عجیب اتفاق ہے کہ انہوں نے نواز شریف کے حق میں ایک تاریخی فیصلہ دیا تھااور ان کے داماد آصف سعید کھوسہ نے نواز شریف کے خلاف ایک تاریخی فیصلہ دیا ہے ۔یہ بھی ایک تاریخی بات ہے کہ کل جہاں سسر بیٹھا کرتے تھے آج وہاں داماد کرسی نشین ہیں ۔سابق سیکرٹری پانی و بجلی شاہد رفیع بھی نسیم حسن شاہ کے داماد ہیں جنہیں نیب نے بابر اعوان اور راجہ پرویز اشرف کے ساتھ نندی پور کیس میں ملزم نامزد کیا ہے۔
ڈیرہ غازی خان سے میرے تعلق میں سرائیکی زبان و تہذیب کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔میری جوانی کے دور میں سرائیکی صوبے کی تحریک بھی جواں تھی ۔اُس زمانے میں ڈسٹرکٹ کونسل میانوالی نے سرائیکی صوبے کے قیام کی قرارداد منظور کی تھی ۔یہ اِس حوالے سے کسی بھی سطح پر منظورکی جانے والی پہلی قرار داد تھی ۔سوچتا ہوں کہ عمران خان وزیر اعظم ہیں اُن کا تعلق بھی میانوالی سے ہے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ملتان سے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدارڈیرہ غازی خان سے ہیں اور چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ بھی ۔چیف جسٹس پنجاب ہائی کورٹ سید یاور علی ترنڈہ محمد پناہ کے رہنے والے ہیں ۔اگر اب بھی سرائیکی صوبہ نہیں بنتا تو پھر شاید ہی کبھی بن سکے ۔سرائیکی صوبہ روہی تھل اور دامان کے تین صحرائوں پر پھیلا ہوا ہے ۔دامان ،صوبہ پختون خوا میں واقع ہے اسے سرائیکی صوبے میں شامل کرنا ابھی تو بالکل ممکن نہیں لگتا۔روہی یعنی بہاول پور اورملتان کے حالات خاصے بہتر ہیں ۔