• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل بچوں کے ہاتھ میں پیدائش کے بعد سے ہی اسمارٹ فون، ٹیبلیٹ اور انٹرنیٹ سے چلنے والی دیگر الیکٹرانک ڈیوائس آجاتی ہیں۔ والدین کی اکثریت خود ہی بچوں کو ان چیزوں کی طرف راغب کرتی ہے اورجب وہ اس سے چپک جاتے ہیں تو بعد میں یہی والدین پریشان ہوتے ہیں کہ مبادا کہیں بچے کی آنکھوں کی بینائی متاثر نہ ہوجائے۔ حالانکہ اسکرین کا زیادہ تر سامنے رہنا صرف بینائی کو ہی نہیں بلکہ دماغ کے افعال او ر اس کی نشوونما کو بھی متاثر کر سکتاہے۔

امریکا کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے ریسرچرز حال ہی میں اس موضوع پر The Adolescent Brain Cognitive Development سے ابتدائی اعدادو شمار پر بنیاد کردہ ایک اسٹڈی سامنے لائے ہیں ۔ اس اسٹڈی میں امریکا میں 21مقامات پر موجود9 سے10سال کے11ہزار بچے شامل تھے، جس کے دو بڑے نتائج یہ سامنے آئے۔

٭جو بچے دن میں سات گھنٹے سے زیادہ اسمارٹ فون، ٹیبلیٹ یا ویڈیو گیم کھیلتے تھے ان کا ایم آرآئی اسکین کیا گیا تو کچھ بچوں کے دماغ میں واضح فرق پایا گیا۔

٭وہ بچے جو دن میں دو گھنٹے سے زیادہ وقت اسکرین کے سامنے گزارتے تھے ، ان کے سوچنے سمجھنے اور لینگویج ٹیسٹ میں کم تر اسکور دیکھنے میں آیا۔

دماغ کو اسکین کرنے سے پتہ چلا کہ جو بچے بہت زیاد ہ اسکرین دیکھتے تھے ان کے دماغ کی جھلی (کارٹیکس ) قبل از وقت پتلی ہو چکی تھی۔ دماغی افعال میں اس جھلی کا کام سینسز(Senses)سے مختلف اقسام کی معلومات پر کام کرنا ہوتاہے۔

کیا اسکرین ٹائم کو اس خرابی کا الزام دیا جاسکتاہے ؟

مشی گن کے چلڈرن ہسپتا ل کے ایڈولسینٹ میڈیسن فزیشن ڈاکٹر ایلن سیلکی کا کہناہےکہ اس اسٹڈی سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک وقت میں دو چیزیں ایک ساتھ ہو رہی تھیں لیکن یہ کہنا مشکل ہےکہ وہ ایک دوسرے کو متاثر کررہی تھیں۔ مثال کے طور پر اسکرین کے سامنے بہت زیادہ وقت گزارنے والے بچوں کی تعلیمی کارکردگی کم ہو جاتی ہے لیکن ایسا بھی ہوسکتاہے کہ جن بچوں کو کچھ مخصوص ٹاسک پورے کرنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہو، ہوسکتاہے کہ وہ کسی نہ کسی وجہ سے اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارتے ہوں۔

کچھ بچوں کے دماغی اسکین کے بعد یہ فرق سامنے آیا تو سوال یہی پیدا ہو اکہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے دماغ کی جھلی متاثر ہو رہی تھی یا جھلی متاثر ہونے کی وجہ سے بچہ اسکرین کی طرف زیادہ مائل ہورہا تھا۔

اس سوال کا جواب آئندہ چند برس میں سامنے آجائے گا، اس کے علاوہ بھی مزید سوالوں کے جواب ملنے کی امید ہے۔ ماہرین کے مطابق نہ صرف یہ پتہ چل جائے گا کہ بچے کتنا وقت اسکرین کے سامنے گزارتے ہیں بلکہ ان کے اثرات بھی مزید واضح ہوجائیں گے، جس سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا آسان ہو جائےگا۔ یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ اسکرین کے سامنے وقت گزارنے کو نشے یا علت کا نام دیا جاسکتاہے یا نہیں۔

اسکرین کے سامنے زیادہ تر بیٹھے رہنے سے بچوں کے دماغ میں تبدیلی آنے کے مسئلہ سے قطع نظر ماہرین مختلف اسٹڈیز کے ذریعے یہ معلوم کرچکے ہیںکہ اس عادت سے بچوں میں موٹاپے اور نیند کی خرابی جیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں کیونکہ جوں جوں نت نئی چیزیں جیسے کہ فیس بک، انسٹا گرام، اسنیپ چاٹ اورگیمز کی دیگر ایپس سامنے آرہی ہیں بچوں کے اسکرین ٹائم کادورانیہ بڑھتا جارہاہے۔ خاص طور پر رات میں موبائل فون کو تکتے رہنے سے نیند کی خرابی اور ڈپریشن کا عارضہ عام ہوتا جارہاہےا ور ماہرین اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ کہیں الیکٹرونک ڈیوائسز لوگوں کے دماغ کو پگھلا نہ دیں۔

دی جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق موبائل فون کے استعمال سے بچوں کی دماغی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں، ساتھ ہی ان کو بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ اگرچہ برین کینسر سے متعلق ڈیٹا ابھی تصدیق شدہ نہیں ہے، تاہم سائنسدانوں نے دریافت کیاہے کہ بچے اگر موبائل فون استعمال کرتے ہیں تو اس سے بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے، مزید یہ کہ ان کے رویّوں کے مسائل بھی سامنے آسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ کلاس روم میں بھی ان کا موڈ اور قابلیت متاثر ہوسکتی ہے، خصوصاً اگر وہ وقفے کے دوران موبائل فون استعمال کریں۔ والدین بچوں کو موبائل فون اسکول لے جانے کی اجازت دے دیتے ہیں، جس میں وہ گیم کھیلتے ہیں، سوشل میڈیا اور چیٹنگ ایپس پردوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں، یہاں تک کہ پڑھائی کے دوران بھی وہ ایک دوسرے کو ٹیکسٹ میسیج بھیج رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اہم لیکچر پر دھیان نہیں دے پاتے اور یوں پڑھائی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

تازہ ترین