• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ ساہیوال نے نئے پاکستان کو بے نقاب کر دیا ہے۔ کرائسٹ چرچ کے ملزم کو ایک دن کے اندر عدالت میں پیش کر کے انصاف کا عمل شروع کر دیا گیا لیکن ساٹھ دن گزر نے کے باوجود ساہیوال میں قتل کردہ پاکستانی شہری آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ یہ نیا نہیں بلکہ جبر کا پاکستان ہے۔ یہ فیصلہ کس نے کیا کہ اُن چار پاکستانیوں کو اب زندہ رہنے کا حق نہیں؟ یہ فیصلہ کس نے کیا کہ خلیل اور اسکے خاندان کو بغیر تحقیق، بغیر شواہد اور بغیر عدالتی حکم قتل کر دیا جائے؟ وزیر قانون پنجاب نے چار پاکستانیوں کے براہ راست بہیمانہ قتل کو Collateral Damage قرار دیکر قوم کی توہین کی۔ فاضل وزیر یہ بھول گئے کہ انگریزی کی یہ اصطلاح بڑے پیمانے پر کی گئی ہوائی بمباری میں استعمال ہوتی ہے اور پہلی بار امریکی حکومت نے عراقی شہریوں کے بلاجواز قتل پر استعمال کی تھی۔

پنجاب کے وزیر قانون قوم کو یہ بھی بتا چکے ہیں کہ ساہیوال کا سانحہ سی ٹی ڈی اور ایجنسیوں کا ’’جوائنٹ آپریشن‘‘ تھا لہٰذا وفاقی حکومت ساہیوال سے آنکھیں نہیں چرا سکتی۔ بطور وزیر داخلہ، وزیراعظم انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے براہ راست ذمہ دار ہیں اور ریکارڈ پر یہ کہتے ہوئے موجود ہیں کہ پولیس از خود ایکشن نہیں کرتی، حکم کے بغیر از خود گولیاں نہیں مارتی۔ اب جبکہ وزیراعظم، وزیر داخلہ بھی ہیں تو انکا اپنا سوال پھندا بن کر انکے سامنے کھڑا ہے۔ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت ملی بھگت سے اس سانحہ کو دبانے کی قبیح کوشش کر رہی ہیں۔ جن ہاتھوں پر تیرہ سالہ اریبہ کا لہو موجود ہے وہ حکومت کو معلوم ہیں۔ لیکن قاتلوں کی تفتیش کی ذمہ داری ان کے اپنے محکمے کے حوالے کردی گئی۔

سانحہ ساہیوال کی جے آئی ٹی اس اندوہناک واقعہ پر کاغذ کا پردہ ڈالنے کی مذموم کوشش ہے۔ تمام ذمہ داری پانچ اہلکاروں پر ڈال دی گئی اور افسروں کو چھوڑ دیا گیا حالانکہ آرڈر تو اوپر سے ہی آیا ہو گا۔ سوال آج بھی بے شمار ہیں۔ حکم دینے والے کی شناخت کے علاوہ یہ بھی جواب دینا پڑے گا کہ وہ سرکاری اہلکار جنہوں نے گولیاں ماریں وہ سویلین کپڑوں میں ملبوس کیوں تھے؟ مقتولین کی گاڑی سے سامان نکالنا دیر بعد یاد کیوں آیا؟ تین بچوں کو پہلے پٹرول پمپ پر بے یارو مددگار اور ہر لحاظ سے لاوارث کیوں چھوڑا گیا؟ اور پھر انہیں وہاں سے اسپتال لے جانے کا حکم کس نے دیا؟ کیا دو کروڑ روپے کی امداد کسی بھی طرح ان چار جانوں کا مداوا ہو سکتی ہے؟ انتظامی دیوالیہ پن میں غرق حکومت سے یہ سوال تشنئہ جواب رہیں گے۔

حکومت نے شہریوں کے قتل کے ساتھ معاشرے میں انصاف کے ادراک کو بھی پامال کیا ہے۔ سی ٹی ڈی کے ڈی آئی جی کو چند ہفتے معطل رکھنے کے بعد اسی عہدے پر بحال کردیا گیا اور آئی جی پنجاب سے انکی ذمہ داری پر ایک منٹ بھی پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔ یاد رہے کہ حکومتی پارٹی کے مزاج کے خلاف جانے پر پنجاب میں آئی جی کی بارہا تبدیلی، اسلام آباد اور خیبر پختونخوا کے آئی جی کی تبدیلی اور ڈی پی او پاکپتن کی تبدیلی نے سیاسی تبدیلی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے لیکن سانحہ ساہیوال کے مظلوم خاندان کی داد رسی کیلئے حکومت نے طفل تسلیوں کے سوا کچھ نہ کیا۔ مولانا سمیع الحق کے قاتلوں کا سراغ ہمیں وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کے بعد ملنا تھا، نہیں ملا۔ ایس پی طاہر داوڑ کے اغوا کاروں اور قاتلوں کا سراغ وزیراعظم کے دورہ چین کے بعد ملنا تھا، نہیں ملا اور سانحہ ساہیوال کے قاتلوں کا سراغ وزیراعظم کے دورہ قطر کے بعد ملنا تھا، نہیں ملا۔ سانحہ ساہیوال ہمارے ملک کے اسلامی جمہوریہ ہونے پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ ساہیوال پر سڑک کنارے پڑی خون آلود مٹی پر ماڈل ٹاؤن کی چادر ڈال کر چھپایا نہیں جا سکتا۔ راؤ انوار کا نام لیکر تیرہ سالہ اریبہ کو گولیاں مارنے والے کو چھپایا نہیں جا سکتا۔

ساہیوال کے پٹرول پمپ پر خون سے لت پت تین یتیم بچوں کی تصویر آج بھی پوری قوم سے انصاف مانگ رہی ہے۔ اس سانحہ سے چند ہفتے پہلے ضلع ایبٹ آباد میں ننھی فریال کی مسخ شدہ لاش آج بھی ریاست مدینہ کے داعیوں سے انصاف مانگ رہی ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے وسط سے ایس پی طاہر داوڑ کے اغوا اور قتل کو پانچ ماہ ہونے کو ہیں۔ ان کا خاندان انصاف مانگ رہا ہے۔ پنجاب کے کسی ذمہ دار سے شکایت عبث ہے ۔ لیڈر آف دی اپوزیشن شہباز شریف نے درست طور پہ سانحہ ساہیوال پر وزیراعلیٰ پنجاب نہیں بلکہ وزیراعظم پاکستان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ حکومت کے فکری دیوالیہ پن نے پاکستان کو معاشی دیوالیہ پن کے دہانے پر تو لاکھڑا کیا ہی ہے لیکن ساہیوال سانحہ نے ان کی غیر انسانی بے حسی کو بھی قوم کے سامنے افشا کر دیا ہے۔ حکومت اپنی ذمہ داری سے مفرور ہے لیکن ایک دن یہ ناحق بہنے والا خون کہیں نعرہ بن کر، کہیں پتھر بن کر اور کہیں شعلہ بن کر اٹھے گا، جیسے ساحر نے کہا تھا:

تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا

آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے

(صاحب مضمون رکن قومی اسمبلی ہیں اور پاکستان کے وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور وزیر تجارت کی ذمہ داریاں ادا کرچکے ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین