• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 بشارت حمید

مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں، اگر ایک پہیہ تو اپنا کام درست کر رہا ہو اور دوسرے میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو گاڑی چلنے کی بجائے گھسٹنے لگتی ہے اور اگر اس خرابی کاجلد کوئی حل نہ نکالا جائے تو بالآخریہ گاڑی گھسٹتے گھسٹتے رک جاتی ہے۔ یہ دو پہیوں والی گاڑی ہمارے معاشرے میں خاندان کا ادارہ ہے جو ایک مرداور عورت کی شادی کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔

ہمارے دین نے مرد کو معاش کے معاملات کی ذمہ داری سونپی ہے۔ گھر کے اخراجات کے لیے مرد کما کر لائے اور اپنے بیوی بچوں کی کفالت کرے۔ عورت کو گھر کے اندرونی معاملات کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، جن میں اپنے شوہر کے مال اور عزت کی حفاظت اور بچوں کی پرورش اور دیگر امور شامل ہیں۔

عورت دن ،رات کی پرواہ کیے بغیر چوبیس گھنٹے گھر کے کاموں کی دیکھ بھال کرتی ہے، اسے نہ اپنی نیند کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ آرام کا خیال۔ کبھی گھر کی صفائی ستھرائی کا ٹینشن ، کبھی کپڑوں کی دھلائی اور استری کرنے کا جھنجٹ، کبھی بچوں کو سنبھالنا اور کبھی کھانا پکانا۔ سردی ہو یا گرمی روزانہ چولہےکے پاس کھڑی ہو کر سب کی فرمائشیں پوری کرنے میں مگن رہتی ہے۔ کسی کو دال پسند ہے تو کسی کو پلاؤ، کوئی سبزی نہیں کھاتا اور کوئی گوشت نہیں کھاتا، وہ سب کو راضی کرنے میں لگی رہتی ہے۔کہیں کوئی سالن میں نمک کم رہ گیا تو سب منہ بسورنے لگتے ہیں، اگر اچھا کھانا بن گیا تو گھر والے اس کی تعریف کرنا ہی بھول جاتے ہیں ۔اس ناقدری ملازمت میں نہ کوئی چھٹی کا تصور ہے اور نہ کوئی ویک اینڈ۔ سارا دن کام کاج کے بعد تھک ہار کے سوئی ہو اور چھوٹا بچہ جاگ جائے تو بچے کے ابا اتنے بھی اہل نہیں کہ اسے دوبارہ سلا ہی سکیں، اس کے لئے بھی ماں ہی کو اٹھنا پڑتا ہے۔ گھر میں کوئی بیمار ہے تو اسے دوائی دینا بھی عورت کی ذمہ داری ہے، ہر کسی کو کھانا پیش کرنا اور بعد میں سب برتن سمیٹنا اور دھو نا بھی اسی کے ذمے ہے اور یہ ساری پریکٹس دن میں تین بار نہیں تو کم از کم ہر گھر میں دو بار تو ضرور ہوتی ہے۔

گھرمیں کوئی مہمان آ نے والا ہو تواس کے آنے سے پہلے گھر کی صفائی کرنا اور اس کے لیے اسپیشل کھانے بنانا بھی اس کی ذمے داری ہے،جن ماؤں کے بچےا سکول جاتے ہیں وہ گھر کے دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ بچوں کو ہوم ورک بھی کرواتی ہیں، غرض صبح سے رات ہو جاتی ہے اور اس بیچاری عورت کے کام ختم نہیں ہوتےجو وہ صرف اپنے شوہر کے تعریف کے چند جملے سننے کی چاہت میں کرتی چلی جاتی ہے لیکن شوہر صاحب چونکہ مرد ٹھہرے اور وہ مرد ہی کیا جو بیوی کی تعریف کرے ،بس رعب جھاڑنا شروع کر دیتے ہیں جو خاتون تعریف کی امید میں بیٹھی ہوتی ہے اسے الٹا وضاحتیں دینا پڑ جاتی ہیں۔یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس قسم کے مردوں کو اگر ایک دن خواتین والے یہ سب کام کرنے پڑ جائیں تو کانوں کو ہاتھ لگا لیں۔

سب گھروں میں ایسا نہیں ہوتا بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی خواتین کا بہت خیال رکھتے ہیں اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دلجوئی میں بھی کسر نہیں چھوڑتے ۔ عورت بھی ایک جیتی جاگتی انسان ہے، اس کے بھی جذبات و احساسات ہیں، اسے بھی آرام کی، محبت اور توجہ کی ضرورت ہے، جس مرد نے نکاح کے وقت اس کا ہاتھ ساری زندگی کے لیے تھامنے کا عہد کیا ہے، اب یہ اس کی ذمہ داری ہےجو اپنے والدین اور سب رشتہ دار چھوڑ کر آگئی ہے اور اگر وہی اس کی قدر نہیں کرے گا تو یہ اس پر ظلم ہوگا۔ مرد کو چاہیے کہ اس کا ہر طرح سے خیال رکھے۔ 

تازہ ترین