کشادہ پیشانی، بڑی بڑی روشن آنکھوں والی خوش ادا، خوش مزاج عائشہ جہانگیر شوبز انڈسٹری میں نرما کے نام سے معروف ہوئیں۔ نرما نے اپنے کیریئر کا آغاز 1996ء میں بیک وقت تین شعبوں ماڈلنگ، فلم اور ٹی وی انڈسٹری میں کام سے کیا۔ان کی سُپر ہٹ اُردوفلموں میں’’ لاج‘‘،’’ شرارت‘‘،’’ قرض‘‘،’’ بہرام ڈاکو‘‘، ’’ڈریم گرل‘‘ اور پنجابی میں’’ بابل دا ویڑا ‘‘شامل ہیں۔ ڈراموں کا تذکرہ کیا جائے، تو 1998ء میں مسئلہ کشمیر کے تناظر میں بننے والا ڈراما ’’لاگ‘‘ اور2007ء میں’’ سرکار صاحب‘‘ وغیرہ ناظرین میں خاصےمقبول ہوئے۔ابھی وہ شہرت کی منازل طے کر ہی رہی تھیں کہ اچانک شوبز سے کنارہ کش ہوگئیں۔ اسی عرصے میں ان کا ایک اسکینڈل منظرِعام پر آیا اور کئی گرما گرم خبریں بھی گردش میں رہیں۔ کبھی ایک معروف گلوکار سے شادی کا شوشا چھوڑا گیا، تو کبھی بھائی کی جانب سے تشدّد کا نشانہ بنائے جانے کی باتیں ہوئیں۔ ان خبروں کی کیا حقیقت ہے اور عین عروج میں وہ شوبز سے کیوں دُور ہو گئیں، یہی نہیں اور بھی بہت کچھ جاننے کے لیے گزشتہ دِنوں ہم نے جنگ، سنڈے میگزین کے معروف سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے نرما سے تفصیلی بات چیت کی، جو قارئین کی نذر ہے۔
س:خاندان، جائے پیدایش، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟
ج: میرا تعلق ایک مغل پٹھان خاندان سے ہے۔ والد جہانگیر حسین خان کویت کی ایک معروف کمپنی میں ڈائریکٹر تھے، جب کہ والدہ شمیم اختر گھریلو خاتون ہیں۔ ویسے تو ہمارا آبائی شہر ’’لاہور ‘‘ ہے، لیکن مَیں 24فروری کو کویت میں پیدا ہوئی۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی، پھر والد کے انتقال کے بعد ہم لاہور آگئے۔ گرچہ ہماری فیملی خاصی روشن خیال ہے، لیکن والدین نے دینی اور دنیاوی تعلیم و تربیت پر یک ساں فوکس رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں نے صرف سات برس کی عُمر میں قرآنِ پاک مکمل کیا۔
س:بہن، بھائیوں کی تعداد، آپ کا نمبر کون سا ہے؟
ج:مَیں چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں۔ مجھ سے بڑے دو بھائی ہیں۔ بڑے بھائی کا نام شکیل ہے۔ انہوں نے بمشکل میٹرک کیا۔ آج کل گٹار سیکھ رہے ہیں۔ ان کے بعد عقیل بھائی، شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا ہیں، جب کہ مجھ سے چھوٹا ایک بھائی عادل ملازمت کررہا ہے اور احمد ابھی زیرِتعلیم ہے۔
س:بچپن میں شرارتی تھیں یامزاج میں سنجیدگی کا عنصر غالب تھا؟
ج:نہ تو زیادہ شرارتی تھی، نہ ہی بہت سنجیدہ۔ بس ایک عام سی بچّی تھی۔
س:لائق طالبہ تھیں یا…؟
ج:میرا شمار جینئس طلبہ میں کیا جاتا تھا۔ بچپن ہی سے غیر معمولی ذہانت کی حامل تھی۔
س:آپ کا اصل نام عائشہ ہے، مگر شہرت نرما کے نام سے حاصل کی، یہ نام کس کا دیا ہوا ہے اور اہلِ خانہ کس نام سے پکارتے ہیں؟
ج:نرما نام معروف اداکار، پروڈیوسر اعجاز درّانی نے رکھا، جب کہ اہلِ خانہ عاشی اور دوست احباب ایش کہہ کر پکارتے ہیں۔
س:فرماں بردار بیٹی ہیں یا خود سَر اور کس کی زیادہ لاڈلی ہیں؟
ج:فرماں بردار ہونے کے ساتھ خاندان بَھر کی لاڈلی ہوں، خصوصاً پَردادی کی تو آنکھ کا تارا تھی۔ یوں کہہ لیں کہ وہ میری پہلی سہیلی تھیں، جن سے مَیں اپنے دِل کی سب باتیں کرتی تھی۔
س:فیلڈ میں کیسے آمد ہوئی، اپنے شوبز کے سفر سے متعلق کچھ بتائیں؟
ج:جب ہم لاہور شفٹ ہوئے، تو سیّد نور اور اقبال کاشمیری کی بیٹیوں سے میری دوستی ہوگئی۔ پھر اُن ہی کے گھر اعجاز درّانی سے ملاقات ہوئی۔ جس کے بعد پہلی فلم بازی گر سائن کی اور ساتھ ہی ماڈلنگ شروع کر دی اور اسی برس ٹی وی ڈرامے ’’رنجش‘‘ میں بھی کام کیا۔ یوں 1996ء میں تین مختلف شعبوں میں قسمت آزمائی اور خُوب کام یابی سمیٹی۔ رہی بات اس پورے سفر کی، تو جیسے ایک بچّہ جب ڈزنی لینڈ جاتا ہے اور خُوب انجوائے کرتا ہے، تو میرا یہ سفر بھی ایڈوینچر سے بَھر پور رہا۔
س:کسی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
ج:ابتدا میں تایا ابّو سے بڑی مشکل سے اجازت ملی تھی، مگر جب انڈسٹری میں قدم رکھ دیا، تو پھر قسمت کی دیوی یوں مہربان ہوئی کہ کسی مشکل کو راہ میں حائل نہ ہونے دیا۔
س:زندگی کی پہلی کمائی ہاتھ آئی، تو کیا کیا؟
ج:مجھے پہلے کمرشل کے 65ہزار روپے، پہلی فلم کےپانچ لاکھ اور ڈرامے کا 3سے4لاکھ روپے کا چیک ملا تھا۔ یہ ساری رقم بشمول چیک والدہ کے ہاتھ پر رکھ دی تھی۔ بعدازاں، اہلِ خانہ کے ساتھ دعوت اُڑائی اور خُوب شاپنگ بھی کی۔
س:پہلی بار پرفارم کیا، تو دِل کی کیا حالت تھی؟
ج:قطعاً کوئی گھبراہٹ محسوس نہیں ہوئی تھی۔ مجھے تو لگتا ہے، کیمرا میری پہلی محبّت ہے۔ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس کا سامنا کیا تھا۔
س:اپنا کون سا کردار، رُوپ سب سے اچھا لگتا ہے؟
ج: 1999ء میں معروف گلوکار، سجاد علی کی ہدایت کاری میں میر ی فلم ’’ایک اور لَو اسٹوری‘‘ ریلیز ہوئی، مجھے اُس میں اپنا کردار بہت پسند ہے۔
س:آپ اپنے دَور کی کام یاب اداکارہ ہیں، پھر شوبز سے کنارہ کشی کیوں اختیار کی، کہیں2012ء میں جو اسکینڈل منظرِ عام پر آیا، وہ تو وجہ نہیں بنا؟
ج: مَیں نے گریجویشن کے لیے کنگز کالج، لندن میں داخلہ لیا تھا، جس کی وجہ سے وقتی طور پر شوبز سے کنارہ کشی اختیار کی، مگر ابھی پہلا سیمسٹر ہی دیا تھا کہ والدہ شدید علیل ہوگئیں اور مَیں واپس پاکستان آگئی۔ جس کے بعد تعلیمی سلسلہ برقرار نہ رہ سکا کہ والدہ کے بعد شیزوفرینک بھائی کی بھی تیمار داری کی ذمّے داری مجھ ہی پر تھی۔ اب وہ لاہور کے ایک اچھے سینٹر میں زیرِ علاج ہے۔ رہی بات اسکینڈل کی، تو یہ خبر مخالفین نے اُڑائی تھی، جس میں کوئی صداقت نہیں۔
س: لندن کی کوئی حسین یاد؟
ج: لندن میں میری ملاقات ایک معروف پروڈیوسر سے ہوئی، جنھوں نے انجلینا جولی کو متعارف کروایا تھا۔ مَیں نے اُن سے اپنا تعارف کروایا، تو انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اتنی کم عُمر لڑکی سُپر اسٹار ہوسکتی ہے۔ وہ پاکستان میں سجاد علی اور شہزاد گل کو جانتے تھے۔ پھر ان ہی کے کہنے پر شہزاد گل سے بات کروائی، تب کہیں جاکر انہیں یقین آیا کہ مَیں پاکستان کی سُپر اسٹار ہوں۔
س: گلوکار دلیر مہدی کے ایک ویڈیو سونگ کے لیے بھی منتخب ہوئیں، مگر کام نہیں کیا، اس حوالے سے کچھ بتائیں؟
ج: لندن میں ایک کنسرٹ کے دوران دلیر مہدی سے ملاقات ہوئی، تو انہوں نے مجھے اپنے ایک ویڈیو سونگ کی آفر کی، مگر پھر پاک، بھارت کشیدگی کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔
س: آپ والد کو ’’ڈارلنگ ڈیڈ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتی تھیں، تو باپ بیٹی کی کچھ یادیں شیئر کریں؟
ج: میرا ڈیڈ سے بالکل دوستوں والا رشتہ تھا۔ ان کے ساتھ ٹینس بہت شوق سے کھیلتی تھا۔ چوں کہ اکلوتی تھی، تو اُن کی بے حد چہیتی بھی تھی۔ انہوں نے مجھے کبھی نہیں ڈانٹا۔ بھائیوں کو بھی اپنی کوئی بات منوانی ہوتی، تو مجھ ہی سے کہتے۔ ڈیڈ مجھ سے فرمایش کر کے تلاوت سُنا کرتے تھے۔ اب اُن کے انتقال کے بعد تو زندگی بالکل روکھی پھیکی سی ہو گئی ہے۔
س:سُنا ہے کہ آپ عاطف اسلم اور رنبیر کپور سے شادی کی خواہش مند تھیں؟
ج: اصل میں صحافیوں نے بار بار شادی کا سوال کر کے پریشان کر دیا تھا، تو بس ان سے جان چھڑوانے کے لیے کہہ دیا کہ عاطف اسلم یا پھر رنبیر کپور سے شادی کروں گی۔ حالاں کہ دِل میں ایسی کوئی خواہش کبھی نہیں تھی۔
س: 2017ءمیں ایک خبر گردش میں رہی کہ آپ کے بھائی نے گھر میں خرچ نہ دینے پر آپ کو تشدّد کا نشانہ بنایا اور گھر سے نکال دیا، جس کے بعد آپ نے اپنی ایک دوست کے گھر رہایش اختیار کی، تو وہ کیا ماجرا ہے؟
ج: جیسا کہ مَیں نے آپ کو بتایا کہ میرا ایک بھائی شیزوفرینیا کا مریض ہے، تو وہ کبھی کبھی جنونی کیفیت میں آجاتا ہے اور یہ ایسی ہی ایک کیفیت کا واقعہ ہے، جسے میڈیا نے خُوب مرچ مسالا لگا کر پیش کیا۔
س: آپ کو لکس انٹر نیشنل کی جانب سے ’’پاکستانی لکس پرپل گرل‘‘ منتخب کیا گیا، دیگر اعزازات کی بھی کچھ تفصیل بتائیں؟
ج: 2004ء میں لکس انٹر نیشنل کی جانب سے دو ملینئیم کلرز کا اعلان ہوا۔ گولڈن رنگ کے لیے بھارتی اداکارہ ایشوریارائے اور پرپل کے لیے مجھے منتخب کیا گیا۔ علاوہ ازیں، پاکستانی فلم قرض کے لیے بیسٹ ایکٹریس کا ایوارڈ ملا، جب کہ ایک ڈرامےکو جس کی کاسٹ میں، مَیں بھی شامل تھی، بیسٹ ڈرامے کا ایوارڈ بھی ملا۔ نیز، کچھ اور نیشنل ایوارڈز کے لیے بھی نام زدگی ہوئی۔
س:شوبز میں واپسی کے بعد آپ مختلف ڈائریکٹرز سے رابطے میں ہیں، پرستار آپ کو بڑی اسکرین پر دیکھیں گے یا کسی ڈرامے میں؟
ج: ڈراموں کی تو بےشمار آفرز ہیں، مگر اب میرا اس طرف رجحان نہیں۔ فلموں کے لیے بھی مَیں کسی انٹرنیشنل پراجیکٹ کو ترجیح دوں گی۔ ابھی حال ہی میں ایک پروڈیوسر نےرابطہ کیا ہے، شاید اُن کی فلم سائن کرلوں۔
س: لوکل اسٹیج پر بھی پرفارم کیا، تو یہ بھی شوق ہے یا…؟
ج: لوکل اسٹیج میری ترجیح نہیں، مَیں نے بس اس کے معیار میں بہتری کے لیے پرفارم کیا تھا۔
س: اگر کسی شو کی میزبانی کی آفر آئی، تو قبول کر لیں گی؟
ج: عام ٹاک شوز، مارننگ شوز سے ہٹ کر کسی شو کی میزبانی کی آفر آئی، تو ضرور قبول کر لوں گی۔
س:آپ کو ملبوسات کے حوالے سے بھی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیا ایسا ہی ہے؟
ج: نہیں نہیں ایسا بالکل نہیں ہے۔ میرے تمام ملبوسات مُلکی اور غیر مُلکی ڈیزائنرز ڈیزائن کرتے ہیں، جن پر کبھی کوئی تنقید نہیں ہوئی۔
س:زندگی سے کیا سیکھا؟
ج:کر بھلا، ہو بھلا۔
س:اگر اس فیلڈ سے وابستہ نہ ہوتیں…؟
ج: ڈیڈ کی خواہش تھی کہ مَیں نیوروسرجن بنوں، تو یقیناً آج شعبۂ طب سے وابستہ ہوتی۔
س: خود کو کس عُمر کا تصوّر کرتی ہیں؟
ج: جس عُمر کی ہوں، اُسی کا تصوّر کرتی ہوں۔
س:دِل کش مُسکراہٹ کا راز کیا ہے؟
ج: دِل میں کوئی میل نہ ہو، تو مُسکراہٹ دِل کش اور معصومیت سے بَھرپور ہوتی ہے۔
س:زندگی کا یادگار ترین لمحہ؟
ج: ابھی اُس لمحے کا انتظار ہے۔
س: شادی کے بارے میں بھی کچھ بتائیں؟
ج: اس بارے میں زیادہ سوچتی نہیں۔جب وقت آئے گا، تو ہو جائے گی۔
س: تنہائی پسند ہیں یا ہجوم میں گِھرے رہنا اچھا لگتا ہے؟
ج: مجھے تنہائی میں اپنے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا ہے۔ عموماً جب تنہا ہوتی ہوں، تو اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتی ہوں۔
س: کھانا پکانا، سینے پرونے کا شوق ہے؟
ج: بسکٹس،کیکس مزے دار بنا لیتی ہوں۔ سینے پرونے کا کوئی شوق نہیں۔
س:موسم اور رنگ کون سا بھاتا ہے؟
ج: بہار، برف باری اور رم جھم پسند ہے، جب کہ سُرخ سیاہ، سفید اور نیلا رنگ بہت بھاتا ہے۔
س: جیولری، میک اَپ میں کیا پسند ہے؟
ج: گولڈ سے الرجک ہوں۔ اس لیے پلاٹینیم اور ڈائمنڈ ہی پسند ہے، جب کہ میک اپ میں مسکارا اور لپ گلوس کا استعمال اچھا لگتا ہے۔
س:موسیقی کا شوق کس حد تک ہے؟
ج: یوں کہہ لیں کہ میری زندگی کا آدھا حصّہ موسیقی ہے، مگر خود گنگناتی تک نہیں۔
س: گھر کا کوئی ایک حصّہ، جہاں بیٹھ کر بہت سُکون ملتا ہو؟
ج: لائبریری میں مطالعہ کرکے بہت سُکون ملتا ہے۔
س: کس طرح کی کتابیں پڑھتی ہیں؟
ج: بچپن میں علّامہ اقبال اور غالب کو بہت پڑھا۔ اب مُلکی اور غیر مُلکی ادیبوں کو پڑھ رہی ہوں۔
س: کس بات پر غصّہ آتا ہے اور ردِّعمل کیا ہوتا ہے؟
ج: جب کوئی جھوٹ بولے، تو شدید غصّہ آتا ہے، مگر بحث کرنے کی بجائے، خاموش ہو جاتی ہوں۔
س: اگر فیس بُک، انسٹاگرام اور موبائل فون کو زندگی سے نکال دیا جائے؟
ج: ارے بھئی، کیوں نکال دیا جائے، یہی تو دُنیا بَھر سے رابطے کا بہترین ذریعہ ہیں۔
س: گھر سے نکلتے ہوئے کون سی تین چیزیں لازماً ساتھ ہوتی ہیں؟
ج: موبائل فون، اے ٹی ایم کارڈ اور ہینڈ بیگ۔
س: اگر آپ کے پرس کی تلاشی لی جائے تو…؟
ج: اے ٹی ایم کارڈ، چابیاں، چاکلیٹس، کینڈیز اور میک اپ کا کچھ سامان نکلے گا۔
س: شاپنگ یا پھر کسی اور کام کے لیے گھر سے نکلتی ہیں، تو لوگوں کا کیسا ریسپانس ہوتا ہے؟
ج: زیادہ تر خواتین ٹکٹکی باندھ کر دیکھے جاتی ہیں۔
س: آپ کی کوئی انفرادیت، اپنی شخصیت کو ایک جملے میں بیان کر دیں؟
ج: میری انفرادیت مُنہ پر سچ بولنا ہے، جب کہ میری شخصیت کا خاصّہ میری دھیمی آواز اور نیچی نظریں ہیں۔
س: پرستاروں کے لیے کو ئی پیغام؟
ج: آپ سب کی محبّتوں اور دُعاؤں کا شکریہ۔ ہمارا یہ ساتھ تادیر قائم رہے گا۔