سانگھڑ، صوبہ سندھ کا اہم ترین ضلع ہے جس کی حدود مشرقی سمت میں بھارت سے جا کرملتی ہیں۔صدیوں قبل ضلع سانگھڑ جب ایک چھوٹا سا دیہات تھا، یہاں ’’مائی سنگھار‘‘ نامی ایک نیک و پرہیز گار مچھیرن خاتون رہتی تھی، جس سے لوگ دعا کروانے آتے تھے۔ اس علاقے کو اس کے نام سے موسوم کرکے ’’سنگھار ‘‘ رکھا گیا جو بعد میں سانگھڑکے نام سے شہرت اختیار کرگیا۔ یہاں بارہ سو سالہ قدیم منصورہ شہر کے کھنڈرات اور قدیم تقریباً تین صدیوں پرانا قبرستان، شہداد جو قبوبھی واقع ہیں۔ اس ضلع کی وجہ شہرت وادی مہران کی رومانوی داستان ’’سوہنی مہینوال‘‘کی کردار، سوہنی کامزاربھی ہے جو شہداد پور کی تحصیل میں واقع ہےجب کہ یہ حر مجاہدین کا بھی گڑھ ہے۔
ضلع سانگھڑ کا آخری گائوں (قصبہ) ہتگو جوکہ تعلقہ کھپرو میں واقع ہے یہ معروف سرحدی قصبہ وسیع تر ریگستانی علاقے پر پھیلا ہوا ہے جس کا آخری سرا پاک بھارت سرحد پر ختم ہوتا ہے۔ یہی وہ تاریخی ضلع ہے جو حروں کے روحانی پیشوا حضرت پیر پگارا کا ’’دارالسلطنت ‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ اس ضلع کی مجموعی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب 22لاکھ سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ امن و امان کی مجموعی صورت حال عام طور سے بہتر رہتی ہے لیکن کبھی کبھار ناخوش گوار واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں جب کہ اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیںبھی عام ہیں۔ ضلع میں سکیورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے اور اسے سیف سٹی بنانے کے لیے پولیس کے محکمے کو جدید آلات و دیگرضروری سازوسامان سے لیس کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ لیکن اس کے برعکس محکمہ پولیس کے حالات بعض علاقوں میں انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ سانگھڑ ضلع میں مجموعی طور پر 20پولیس اسٹیشنز قائم ہیں۔ روزنامہ جنگ کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق حکومت سندھ کی جانب سے مختلف ادوار میں اب تک 18پولیس اسٹیشنز نئی عمارتوں میں قائم کیےگئے ہیں، لیکن اس کے باوجود آج بھی دو پولیس اسٹیشن پی ایس چٹیاریوں اور پی ایس شاہ پور چاکر،صوبائی حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔یہ دونوں تھانے انتہائی مخدوش حالت میں ہیں اور کسی وقت بھی یہ عمارتیں منہدم ہوکر کثیر جانی نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔
شاہ پور چاکر جوکہ تعلقہ شہداد پور کی ٹاؤن کمیٹی ہے اس شہر کی مجموعی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چار لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور اتنی کثیر آبادی کے شہر میں گزشتہ 72سالوں سے صرف ایک پولیس اسٹیشن کام کررہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مقامی آبادی کے اس دیرینہ مطالبے کو مدنظر رکھتےہوئے اس ٹائون کمیٹی کو تعلقہ کا درجہ دے دیا جاتا کیوں کہ لوگوں کو اپنے ضروری کام نمٹانے کے لئے تعلقہ ہیڈ کوارٹر ،شہداد پور یا ضلعی ہیڈ کوارٹر سانگھڑ کے چکر لگاناپڑتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پولیس اسٹیشن شاہ پور چاکر کی عمارت جوکہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق غیر منقسم ہندوستان میں برطانوی سرکارنے 1918ء میں تعمیر کرائی تھی، ایک صدی سے زائد عرصےسے موسمی شدت کا مقابلہ کرتے ہوئے اس کی عمارت شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اس عمارت کے کئی حصے اس حد تک مخدوش ہوچکے ہیں کہ کسی وقت بھی منہدم ہوکر کثیر جانی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔پولیس ذرائع کے مطابق تھانے کی اس قدیم ترین عمارت میں نہ تو سرکاری اسلحہ خانہ ہے اور نہ ہی محفوظ مال خانہ ۔ بارش کے زمانے میں تھانے کے عملے کو سخت پریشانیوں کا سامنا رہتا ہے۔موسلادھار بارش ہوتی ہے تو تھانے کی عمارت میں پانی داخل ہوجاتا ہے جس کے بعد وہ تالاب کا منظر پیش کرتی ہے۔ پولیس اہل کاروں کو تمام ضروری سرکاری ریکارڈ سمیت جملہ سرکاری اسلحہ او رمال خانے کا تمام امانتی سامان پانی سے بچانے کے لیے قریبی گھروں میں منتقل کرنا پڑتاہے جو پولیس قوانین اورقواعد و ضوابط کی بھی خلاف ورزی ہونے کے علاوہ شہر کے امن و امان کے لیے بھی خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ بارش کا پانی تھانے کی عمارت میں داخل ہونے کے باعث نہ صرف اسلحہ خانہ اور مال خانہ زیر آب آجاتے ہیں بلکہ بلڈنگ میں ایس ایچ اوکے دفتر سمیت پورا پولیس اسٹیشن متاثر ہوتا ہے۔تھانے کی ساری عمارت سوئمنگ پول یا تالاب کا منظر پیش کرتی ہے۔تھانے کی حدود میں واقع پولیس لائن کے کوارٹرز بھی بارش سے متاثر ہوتے ہیں اور پولیس اہل کاروں کو مجبوراًاپنے اہل خانہ سمیت محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پولیس اسٹیشن کی اس قدیم عمارت کا نہ تو کوئی مین گیٹ ہے اور نہ ہی محفوظ بائونڈری وال۔ لہٰذا بارش کے پانی کے عمارت میں داخل ہونے کے بعد کئی ہفتے تک تھانے کا نظام درہم برہم رہتا ہے۔اس کے علاوہ سکیورٹی کے ناکافی انتظامات، سماج دشمن عناصر اور دہشت گردو ں کے لیے بھی سازگار ہیں، وہ کسی بھی وقت بے لگام ہوکر تھانے پردھاوا بولسکتے ہیں۔
دوسرے پولیس اسٹیشن چٹیاریوں کو بھی انہی حالات کا سامنا ہے۔ اس کی عمارت بھی انتہائی بوسیدہ اور مخدوش حالت میں ہے۔ جگہ جگہ سے اس کا پلاستر جھڑ رہا ہے ،کئی جگہ سے اینٹیں اکھڑ گئی ہیں جس کی وجہ سے مذکورہ عمارت اس قدرخطرناک ہوچکی ہے کہ کسی بھی وقت زمین بوس ہوکرسائلین و پولیس عملے کی قیمتی جانوں کے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ تھانے کا عملہ انتہائی خوف و ہراس کے عالم میں اپنے فرائض کی انجام دہی کرتا ہے۔ اہلوں و افسران پر ہر وقت خوف و ہراس کی کیفیت طاری رہتی ہے۔ بعض پولیس افسران کا یہ بھی کہنا ہے کہعوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اہلکاروں کے لیے بھی چین و سکون ضروری ہے لیکن جب انہیں ذہنی سکون میسر نہ ہو تو یہ کیسے اپنے فرائضخوش اسلوبی کے ساتھ ادا کریں گے؟ پولیس اسٹیشنچٹیاریوں میں اس وقت ایک انسپکٹر، ایک سب انسپکٹر، پانچ اے ایس آئیز، آٹھ ہیڈ کانسٹیبل اور ایک لیڈی ایل پی سی سمیت 81کانسٹیبل دو موبائل پولیس گاڑیوں کی مدد سےشہر کے امن کی بحالی کے لیے کوشاں رہتے ہیںجب کہ تھانے کی عمارت میں واقع اسٹیشن ہاؤس آفیسر کا دفتر،احاطے میں ان کارہائشی بنگلہ، ہیڈ محررکادفتر،، اسلحہ خانہ، مال خانہ، لاک اپ، اور پانچ فیملی کوارٹرز موجود ہیں او ران تمام کی حالت زبوں حالی کا شکار ہے۔
چٹیاریوں اور شاہ پور چاکر کی سیاسی و سماجی تنظیمیں اس سلسلے میں عرصے دراز سے مذکورہ تھانوںی کی حالت زار بہتر بنانے کا مطالبہ کررہی ہیں لیکن اس پر اب تک شنوائی نہیں ہوسکی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سندھ اور پولیس کے اعلیٰ حکام پولیس اہل کاروں کو کسی بھی ناخوش گوار صورت حال اور جانی نقصان سے بچانے کے لیے فوری طور سے اقدامات کریں اور ددونوں تھانوں کی عمارتوں کو نئی بلڈنگوں میں منتقل کیا جائے۔