گزشتہ دنوں خیبر میڈیکل کالج میں مردان سے تعلق رکھنے والے طالب علم تسنیم انجم نے پنکھے سے لٹک کر خودکشی کرلی، خودکشی سے قبل نوٹ لکھ کر اپنی آخری خواہش کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ، ’’میرے جسمانی اعضاء عطیہء کر دیئے جائیں‘‘۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، گزشتہ برس اکتوبر میں فیصل آباد کی نجی جامعہ میں زیر تعلیم کیمیکل انجینئرنگ کے طالب علم سیف اللہ جمالی نے بار بار امتحانات میں ناکامی سے دل برداشتہ ہوکر یونیورسٹی کے گیٹ کے سامنے خود کو گولی مارلی تھی، بعدازاں انکشاف ہوا کہ امتحانات میں ناکام ہونے کی وجہ پروفیسر کے ساتھ ذاتی دشمنی تھی، لیکن اس کے باوجود سیف اللہ نے اپنے آخری خط میں والدین اور اساتذہ سے اپنے اقدام کی معافی مانگی اور اپنی موت کی ذمہ داری بھی خود لی، ابھی اس واقعے کی گونج کم نہ ہوئی تھی کہ نومبر 2018ء میں لاہور کی نجی یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس کی ایک طالبہ روشن فروغ نے ذہنی دباؤ کے پیشِ نظر جامعہ کی چوتھی منزل سے کود کر خودکشی کرلی۔ خودکشی سے قبل سوشل میڈیا پیغام کے ذریعے آخری خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، ’’اگر کبھی میں خودکشی کرلوں تو مجھے ہمیشہ ایک خوش وخرم اور ہنس مکھ لڑکی کے طور پر یاد رکھا جائے‘‘۔
خودکشی کرنے والے ان طلباء میں ایک بات جو مشترک تھی، وہ ان کی حساس طبعیت تھی، شاید یہ ان کی طبعیت کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ ’’ذہنی دباؤ‘‘ کا شکار ہوگئے تھے۔ ناقابل برداشت اعصابی دباؤ کے باعث یہ سنگین قدم اُٹھانے پر مجبور ہوگئے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 15 سے 29 برس کے نوجوانوں میں 9.1 فیصد خودکشی کا رجحان پایا جاتا ہے، یہ نوجوان عمومی طور پر ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ گھریلو ناچاقیاں، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، معاشرتی نا ہمواریاں، ذہنی انتشار، مایوسیاں، یہ ہمارے معاشرے کے وہ تمام عناصر ہیں، جو نوجوانوں میں ذہنی الجھنوں کا سبب بن رہے ہیں، جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2030 تک نوجوانوں میں ’’ڈیپریشن‘‘ سب سے بڑا مرض ہوگا۔ 10 سے 15 فیصد خودکشی کرنے والے نوجوان ذہنی امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ پریشان کُن بات یہ ہے کہ تمام بیماریوں میں ذہنی امراض کی شرح 16 فیصد ہے، جب کہ دن بہ دن اس کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس میں مبتلا ہونے والے افراد کی بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو ممکنہ طور پر نسلِ نو تباہی کے گور کِنارے پر ہوگی۔
ماہرینِ ذہنی امراض کے مطابق، ماضی کے مقابلے اب ذہنی صحت کو زیادہ خطرات لاحق ہیں، کیوں کہ اس تیز رفتار دور میں زندگی کی رفتار بھی بہت تیز ہوگئی ہے۔ اب لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں ہے، جو شخص بدلتے دور کے ساتھ خود کو تبدیل نہیں کرتا اس کے لیے زندگی انتہائی مشکل ہو جاتی ہے۔ 20 ویں صدی کے ہنر مند افراد 21 ویں صدی میں نہیں چل سکتے، اگر وہ پرانی باتوں کے ساتھ زندگی گزارنے کی کوشش کریں گے تو ان کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ اب ’’ورچوئل دنیا‘‘ کا دور ہے، جس میں رابطے تیز ہیں، منٹوں میں کوئی بھی بات ایک خاندان سے نکل کر پوری دنیا تک پھیل جاتی ہے۔ لہٰذا اب خود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ ذہنی تناؤ کے بڑھتے ہوئے مسائل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ اپنے مسائل شرمندگی کے باعث چھپاتے ہیں، دوستوں یا عزیزو اقارب تک سے شیئر نہیں کرتے جب کہ ان کی مشکلات شیئر کرنے سے کم ہو سکتی ہیں۔ اب طلباء ذہنی تناؤ سے بچاو کے لیے منشیات کا استعمال بھی کررہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ، معاشرے نے منشیات کے عادی افراد کو ’’new normal‘‘ کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ نوجوانوں میں ذہنی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی جسمانی سرگرمیاں کم ہیں۔ وہ وزرش نہیں کرتے اس لیے سست زندگی گزار رہے ہیں۔ اسمارٹ فون اور کھانے پینے کا استعمال بڑھ گیا ہے جس سے ان کی جسمانی صحت خراب ہو رہی ہے، جس کا اثر ذہنی صحت پر بھی مرتب ہو رہا ہے، لہٰذا انہیں اپنی صحت پر توجہ دینا ہوگی۔
اعصابی تناؤ کی ایک وجہ گھر کا ماحول بھی ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں اور بچوں میں ڈیپریشن بڑھ رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ، گھریلو ناچاقیاں یا گھریلو جھگڑے زیادہ اذیت ناک ہوتے ہیں تو غلط نہ ہوگا، کیوں کہ ان کے باعث ذہنی تناؤ کے خطرات لاحق ہوتے ہیں، اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ، افراد خانہ کو لڑائی کے بعد ایک ہی جگہ رہنا ہوتا ہے اور صلح سے پہلے تک کے دورانیہ میں ایک دوسرے کو نظر انداز کرنا، خاموشی یا اس طرح کا کوئی اور عمل ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔ آج کے دور میں نوجوانوں کو زندگی گزارنے کیلئے ’’ایگزیکٹیو اسکلز‘‘ دینے کی ضرورت ہے، مگر موجودہ تعلیمی نظام بالخصوص رٹا لگانے کا رجحان انہیں سہل پسند بنا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب ایسے طالب علم عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر کچھ خودکشی کرلیتے ہیں، کچھ غلط راہ پر چل پڑتے ہیں اور کچھ نشہ کرنے لگتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں مسائل کا انبار لگا ہوا ہے جس کے باعث ذہنی بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر وقت رہتے صحت پر توجہ دی جائے تو بیماریوں سے بچا سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق، صحت مند وہ ہے جو نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی تندرست ہو۔ ہمارے ہاں جسمانی صحت کا خیال تو رکھا جاتا ہے مگر ذہنی صحت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی، کیونکہ انہیں اس بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ ذہنی بیماریوں کے علاج کے لئے سائیکاٹرسٹ ہیں مگر نہ صرف ہمارے ملک بلکہ امریکا اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی لوگ ان کے پاس جانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ صرف پاگل افراد ہی سائیکاٹرسٹ سے رجوع کرتے ہیں، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
ماہرین ذہنی امراض کا کہنا ہے کہ، تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں نوجوانوں کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے جن کی وجہ سے ان میں ذہنی دباؤ و دیگر بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ عصر حاضر میں ٹیکنالوجی کا درست استعمال نوجوانوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ انہیں دنیا سے قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے تو ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال کرنا ہوگا، میڈیکل سائنس کے مطابق، انٹرنیٹ اور سیلفی ایڈیکشن بھی ذہنی بیماریاں ہیں، جن کا علاج ضروری ہے۔ دور حاضر میں سوشل میڈیا بھی ذہنی تناؤ کا سبب بن رہا ہے۔ بلاشبہ اس کے باعث نوجوانوں میں سوچنے سمجھنے اور باخبر رہنے کی صلاحیت بڑھ گئی ہے، وہ ہر معاملے پر ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں جو مثبت بھی ہے اور منفی بھی، نیز ان میں عدم برداشت کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔
اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ضروری ہے نسل نو کی تربیت بہتر انداز سے کی جائے، والدین اور اساتذہ کو ان عوامل پر توجہ دینی چاہیے جن سے نوجوانوں کے رویوں اور سوچ میں تبدیلی لائی جاسکے۔ ایسا ماحول بنائیں کہ وہ مثبت انداز میں سیکھیں اور منفی اثرات سے دور رہیں۔ اکثر والدین بچوں کو گھر سے باہر کھیلنے سے منع کرتے ہیں، کیونکہ انھیں ماحول محفوظ نہیں لگتا اور گھر میں ان کے لیے آسانیاں پیدا کرکے انہیں سہل پسند بنا دیتے ہیں جو بعدازاں بچوں کے لیے ہی نقصان دہ ہوتا ہے، کیوں کہ جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ان میں وہ صلاحیتیں نہیں ہوتیں کہ مشکلات کا سامنا کرسکیں۔ اگر نوجوانوں کو بھی ضرورت سے زیادہ پابندیوں میں رکھا جائے تو ممکن ہے کہ وہ باغی ہوجائیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ان پر کسی بھی قسم کی پابندیاں نہ لگائی جائیں، انہیں شعور دیں تاکہ وہ خود اپنا اچھا اور بُرا سوچ سکیں۔ والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی سوچیں کہ وہ بچوں اور نوجوانوں کی تربیت پر خصوصی توجہ کس طرح دیں کہ وہ منفی عناصر کے اثرات سے دور رہیں۔ تعلیمی اداروں میں ’’0 پیریڈ‘‘ لازمی قرار دیا جائے جس میں مختلف اہم موضوعات پر خصوصی لیکچرز دیے جائیں۔ میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ لیکن بچوں اور نوجوانوں کے لیے معیاری اور تخلیقی مودا کا فقدان ہے، اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ذہنی صحت کے حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانا ضروری ہے تاکہ نوجوانوں میں شعور بیدار کیا جاسکے۔ بچے اور بڑے سب ہی دماغی مسائل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں جن کی نوعیت مختلف ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں طالب علموں کی کاؤنسلنگ کے لیے سائیکاٹرسٹ کا تقرر کیاجائے۔ ذہنی بیماریوں کے مریض سماجی تعصب کا شکار ہوتے ہیں کہ، وہ دیگر لوگوں سے مختلف نظر آتے ہیں، وہ کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتے یا وہ معاشرے کے کارآمد افراد نہیں بن سکتے۔ ہمیں ان سوچوں کو ختم کرکے اپنے مسائل پر بات کرنی چاہے تاکہ ان کا بہتر اور موئثر حل تلاش کیا جاسکے۔ ہمارا المیہ ہے کہ جب تک کوئی بڑا مسئلہ نہ ہو، توجہ نہیں دی جاتی۔ ہمیں علاج کے بجائے احتیاط کی جانب بڑھنا چاہیے اور کسی بھی ممکنہ چیلنج کے حوالے سے پیشگی اقدامات کرنے چاہئیں۔ والدین، تعلیمی ادارے، معاشرہ اور حکومت اہم ستون ہیں جن کے آپس کے تعاون سے مسائل کا خاتمہ ممکن ہے۔ کمیونٹی سروسز کو تعلیمی اداروں میں لازمی قرار دیا جائے۔ طلباء کو سماجی خدمت کے پراجیکٹس دیے جائیں اور ڈگری کو ان سے مشروط کیا جائے۔ جو طلباء کمیونٹی سروسنگ نہ کریں، انہیں ڈگری جاری نہ کی جائے۔ ایسا کرنے سے ان میں احساس ذمہ داری اور خدمت کا جذبہ جبکہ معاشرے میں سدھار پیدا ہو گا۔ ذہنی صحت کے حوالے سے حکومتی سطح پر جامع پالیسی ترتیب دینی چاہیے اور اس میں ماہرین کی رائے کو شامل کیا جائے۔