• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدّثر اعجاز، لاہور

اگر آپ کا بچّہ تیرہ سے اُنیس سال کے درمیان ہے، تو وہ اپنی عُمر کے حسین، مگر اہم ترین دَور سے گزر رہا ہے۔اس عُمر میں زیادہ تر بچّے تنہا رہنا پسند کرتے ہیں۔ خود پسندی، غصّہ اور ہر معاملے میں بحث کرنا ان کا وتیرہ بن جاتا ہے۔نیز، خاندانی رسم و رواج کا مذاق اُڑانے کے ساتھ اپنے ہی کچھ اصول بھی وضع کرلیتے ہیں۔چوں کہ اس دوران جسمانی تبدیلیوں کے ساتھ، اُن کے عمومی رویّوں اور روزمرّہ معمولات میں بھی کئی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں،تو والدین کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان کے اور اولاد کے درمیان ایک خلیج بننا شروع ہو گئی ہے۔ ایسے میں پریشان ہونے یا گھبرانے کی بجائےبچّوں کی عادات، رویّوں اور دماغی ساخت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

عُمر تین بنیادی ادوار بچپن، جوانی اور بڑھاپے پر مشتمل ہوتی ہے۔ ڈیڑھ دو صدی قبل کے بچّے، بچپن کے بعد سیدھا جوانی میں قدم رکھتے تھے۔ سنِ بلوغت تک پہنچتے ہی اُن کا بچپن ختم ہوجاتا تھا اور اُن پر بالغان کی تمام ذمّے داریاں عاید کردی جاتی تھیں، لیکن گزشتہ صدی سے عُمر کے ان ادوار میں ایک نئی اصطلاح ’’ٹین ایج‘‘ کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ٹین ایجنگ کی اصطلاح سب سے پہلے انیسویں صدی میں یورپ میں صنعتی انقلاب کے دوران استعمال کی گئی،تب صنعتوں اور کارخانوں میں کام کے لیے افرادی قوّت کی بہت مانگ تھی اور لوگ اپنے نوعُمر بچّوںکو اسکولز، کالجز کی بجائے فیکٹریوں میں کام کی غرض سے بھیجنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ مگر جب اسکولز میں حاضری کم اور مزدوروں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا،تو معاشرتی سدھار کے لیے اسکول وکالج کے معیار کو مزید بہتر کرنے کے ساتھ والدین کو بھی پابند کیا گیا کہ وہ اپنے نوعُمر بچّوں کو تعلیمی اداروں میں داخل کروائیں اور اُن کی تربیت پربھی خاص توجّہ دیں۔ڈاکٹر فرانسس جنسن کے مطابق،’’ٹین ایجرکا جسم بظاہرایک نوجوان انسان کی طرح مکمل نظر آتا ہے، مگر اس کا دماغ تکمیل کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے۔چوں کہ دماغ کا وہ حصّہ جہاں جذبات اور احساسات جنم لیتے ہیں، نو عُمری میں مکمل ہوجاتا ہے، لیکن جذبات پر قابو پانے والا نظام بیس سے پچیس سال کی عُمر میں مکمل ہوتا ہے،تویہی وجہ ہے کہ عُمر کے اس حصّے میں اپنی عادات، جذبات اور احساسات پر قابو رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ‘‘ لہٰذا والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچّوں کی عادات اور مسائل نہ صرف سمجھنے کی کوشش کریں، بلکہ ان کے حل میں اُن کی ہر ممکن مدد بھی کریں۔ یہ عمومی مسائل ہر معاشرے میں کسی حد تک مختلف تو ہوسکتے ہیں، لیکن بہرحال موجود ضرور ہیں۔مثلاً:

موبائل، انٹرنیٹ کا استعمال: ایک تحقیق کے مطابق آج دُنیا بَھر میں صرف آٹھ فی صد ٹین ایجرزکو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں اور ان میں بھی زیادہ ترایشیائی اور افریقی ہیں۔ موبائل اور انٹرنیٹ کا استعمال کوئی غلط بات نہیں، لیکن زیادہ اور بے جا استعمال خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ویسے توموبائل سِم کارڈ اٹھارہ سال کی عُمر کے بعد جاری کیا جاتا ہے لیکن مشاہدے میں ہے کہ اکثر کم عُمر بچّے اہلِ خانہ میں سے کسی بھی فرد کے شناختی کارڈ پر سِم خریدلیتے ہیں،لہٰذا اہلِ خانہ خصوصاً والدین ایسا کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ کیا یہ انتہائی ضروری ہے یا ضرورت پڑنے پرکسی بڑے کاموبائل استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ جس کمرے میں بچّے انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں، کوشش کریں کہ اُس کا دروازہ کُھلا رہے۔ کئی گھروں میں رات کو مخصوص وقت میںانٹر نیٹ بند کر دیا جاتا ہے،لہٰذا سب کی مشاورت سےایسا کوئی ٹائم ٹیبل بھی ترتیب دیا جاسکتا ہے۔اورسب سے اہم یہ کہ گھر کے بڑےخود بھی انٹرنیٹ اور موبائل فون ضرورت کی حد تک استعمال کریں، تاکہ بچّے بھی اُن سے اثر لیں۔

شدید غصّہ، خطروں سے کھیلنا: اس عُمر کے بچّوں کے لیے خود کو مشکل میں ڈالنا اور خطروں کا سامنا کرنا دِل چسپی کا باعث ہوتا ہے۔یالے اسکول آف میڈیسن، امریکاکی ایک تحقیق کے مطابق ٹین ایجر خطروں میں اس لیے کودتے ہیں ،تاکہ وہ کوئی بڑا معرکہ اپنے نام کرکے دوسروں کو متاثر کر سکیں۔حالاں کہ وہ جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، مگر پھر بھی بےدھڑک کسی بھی خطرے میں کود پڑتے ہیں۔ماہرِ تعلیم، جینیفر ملر کے مطابق خطرات کا مقابلہ کرنا ہمیشہ نقصان دہ نہیں ہوتا ہے، بس درست سمت کا تعین ضروری ہے،لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچّوں میں چاہے لڑکا ہو یا لڑکی مختلف کھیلوں کا رجحان پیدا کریں۔ اور کچھ نہیں، تو کم از کم بچّے کُھلے میدان یا پارک میں جا کر کچھ دیر جاگنگ ہی کر لیں۔اس سے نہ صرف جسمانی اور دماغی صحت پر مثبت اثرات مرتّب ہوں گے، بلکہ ان کا جوش اور غصّہ بھی کم ہوگا۔ علاوہ ازیں،لڑکیوں کو کھانا پکانا یا دست کاری وغیرہ بھی سکھائی جاسکتی ہے ۔

خودپرستی، عزّتِ نفس: گرچہ یہ صفات ایک دوسرے کے برعکس ہیں، مگر ٹین ایجرز میں دونوں ہی پائی جاتی ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق تیرہ سال کی عُمر سے بچّوں میں اپنی ذات سے محبّت کے احساس میں شدّت آجاتی ہے اور یہ وہ دَور ہوتاہے، جب وہ کھلونوں کی دُنیا سے نکل کر خود کو دیگر افراد کے درمیان محسوس کرنا شروع کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف سب سے بہتر اور نمایاں نظر آنا چاہتے ہیں،بلکہ خود کو ہر فن مولا تصوّر کرتے ہیں۔اپنے خیالات کو اوّل و آخر مانتے ہیں۔ ماں، باپ، بڑے بہن بھائی حتیٰ کہ ہر شخص غلط ہوسکتا ہے، مگر وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے۔اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ اہلِ خانہ خصوصاً والدین اور بچّوں کے درمیان دوستانہ رویّہ استوار ہو۔ اگر وہ کوئی اچھا کام کریں، تو ان کی حوصلہ افزائی اور تعریف کی جائے اور غلطی یا کوتاہی کی بھی مناسب الفاظ میں سرزنش کریں۔یاد رکھیں، اگر گھر میں بچّوں کو پیار، محبّت اور عزّت دی جائے، تو وہ باہرزیادہ اعتماد سے وقت گزارتے ہیں۔

گھر سے باہر زیادہ وقت گزارنا: نوعُمری میں بچّے زیادہ وقت گھر سے باہر گزارنا پسند کرتے ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ بعض والدین اس معاملے میں اس قدر سختی برتتے ہیں کہ بچّہ ان سے باغی ہوجاتا ہےیا پھر اتنی ڈھیل دے دیتے ہیں کہ وہ بے راہ روی کا شکار ہوجاتا ہے، لہٰذا میانہ روی سے کام لیں۔ آپ کو اپنے بچّوں کے دوستوں کےبارے میں معلوم ہونا چاہیے کہ اُن کی عادات کیسی ہیں، خاندانی پس منظرکیا ہے؟کسی محفل یا بازار میں دوستوں کے والدین سے ملاقات ہو، تو گرم جوشی سے ملیں۔ زیادہ تر والدین کے پاس اپنے بچّوں کے دوستوں کے فون نمبر زہوتے ہیںاور یہ انتہائی مناسب بات ہے کہ اس طرح کسی بھی مشکل میں رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ کہ آپ کے نوعُمر بچّےکا کوئی ہم عُمر ہی اُس کا دوست ہو، نہ کہ اُس سے عُمر میں بہت بڑا یا چھوٹا۔

جھوٹ بولنا: مہم جوئی ایک ایسی عادت ہے،جو نوعُمر بچّوں کو مختلف کاموں پر اُکساتی ہے ،چاہے والدین کی طرف سے سخت ممانعت ہی کیوں نہ ہو۔ ایک سروے میں جب ٹین ایجر زسے پوچھا گیا کہ وہ ایسے کام کیوں کرتے ہیں، جن سے اُنھیں منع کیا جاتا ہے اور پھر بعد میںجھوٹ بولنا پڑتا ہے؟تو نوّے فی صد کا جواب تھا کہ ’’دیکھنا چاہتے تھے کہ اُنھیں منع کیوں کیا گیا۔‘‘ بہتر ہوگا کہ جس کام سے بھی منع کریں، تو مناسب الفاظ میںاس کی وجہ بھی بتائیں۔اگر آپ کی خواہش ہے کہ آپ کے بچّے جھوٹ نہ بولیں، تو سب سے پہلے خود سچائی اور دیانت داری کا ماڈل بنیں۔ اُنھیں یہ باور کروائیں کہ جھوٹ بولنے سے بہتر ہے کہ غلطی کا ازالہ ہوجائے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین کو اعتماد میں لیا جائے۔جاسوسی کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اُن سے بات کی جائے اور جس بات کوبچّہ چُھپانا چاہتا ہے، اُس پر زیادہ توجّہ دی جائے۔

صد شُکر کہ تاحال ہمارے معاشرے میں خاندانی اقدارو روایات دیگر مُمالک کی نسبت بہت حد تک محفوظ ہیں،لہٰذا ان کی خود بھی پاس داری کریں اور بچّوں کو بھی تلقین کریں۔ ملازمین کی موجودگی کے باوجود اپنے نوعُمر بچّوں کو گھر کے کاموں کی ذمّے داری کا احساس ضرور دلائیں۔ انھیں مذہب کی طرف راغب کرنے کے لیے اپنی زندگی کو دین کے مطابق گزارنے کا عملی ثبوت دیں۔ چوں کہ نوعُمر بچے تازہ تازہ بچپن سے آزاد ہوتے ہیں، تو اُن کی معصوم آنکھوں میں بہت سے خواب سجے ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان کے سب خوابوں کی تکمیل ممکن نہیں، مگر آپ کا کردارکہیں بھی’’خواب شکن‘‘کا نہیں، تعبیر دینے والے کا ہونا چاہیے۔یاد رکھیں،والدین کو بچّوں کی تربیت کے دوران ماں باپ کے علاوہ اور بھی بہت سے کردار نبھانے پڑتے ہیں ۔آپ اپنے بچّوں کے دوست بھی ہیں، بزرگ، غم خوار اور ناصح بھی۔ ہاں، کون سا کردار کب ادا کرنا ہے، یہ فیصلہ آپ ہی کو کرنا ہوتا ہے۔

پیارا گھر…

آپ کا اپنا گھر، اپنا صفحہ

ہمارا ہر دِل عزیز، مقبولِ عام صفحہ’’پیارا گھر‘‘ آپ سب کا اپنا گھر،اپنا صفحہ ہے، خصوصاً خواتین کا۔لیکن ایک شکایت ہے، ہمیں مختلف موضوعات پر تو ڈھیروں ڈھیر تحریریں موصول ہوجاتی ہیں،لیکن کھانے پکانے کی تراکیب ذرا کم ہی بھیجی جارہی ہیں۔ جب کہ فرمایش سب سے زیادہ ان ہی کی ہوتی ہے۔ پھر ہم بھی چاہتے ہیں کہ آپ اپنے خاص کھانوں،اسنیکس اور دیگر ذائقے دار لوازمات کی تراکیب’’پیارا گھر‘‘ کے سب قارئین سے شیئر کریں۔تو دیر کس بات کی،قلم اُٹھائیے فوراً سے پیش تر لذیذ،رنگا رنگ پکوانوں کی تراکیب ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہمارا پتا ہے:

ایڈیٹر سن ڈے میگزین،صفحہ’’پیارا گھر‘‘

شعبہ میگزین، اخبار منزل، فرسٹ فلور

آئی آئی چندریگرروڈ، کراچی

ای میل: sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین