پارلیمنٹ ہائوس کی کمیٹی روم میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ اُمور کا اجلاس جاری تھا اس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر بھی جنہیں پاکستان کی پہلی خاتون وزیر خارجہ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے اجلاس میں موجود تھیں اس دوران ایک رکن قومی اسمبلی کے اُس بیان کا حوالہ آیا جس سے پڑوسی ملک کی جانب سے اعتراض سامنے آیا تھا۔ حنا ربانی کھر رکن اسمبلی کے بیان پر خاصی برہم دکھائی دیتی تھیں اُن کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں کو خارجہ اُمور کے حوالے سے کسی قسم کی بیان بازی نہیں کرنی چاہئے اور اس ضمن میں حکومت کو چاہئے کہ وہ سیاستدانوں کو پابندکریں کہ وہ خارجہ اُمور کے حوالے سے کوئی ایسا بیان نہ دیں جس سے وزارت خارجہ کے لیے مشکلات پیدا ہوں۔ اس موقع پر ایک پارلیمینٹرین نے اُنہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ تو پھر وزیر خارجہ کو بھی سیاسی صورتحال پر تبصرے نہیں کرنے چاہئیںاور اپنے بیانات خارجہ اُمور تک ہی محدود رکھنے چاہیئے جس پر حنا ربانی کھر نے مذکورہ پارلیمینٹرین سے سو فیصد اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ جب سے میں نے وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالا ہے آپ میرا کوئی بیان ملک کی داخلی سیاست یا اپنے حلقے کے بارے میں بتادیں جس میں نے مداخلت کی ہو، جس پر خاموشی چھا گئی ۔ حنا ربانی کھر کی طرح وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی بھی ایک سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں سیاستدانوں کی حلقہ نیابت کی سیاست اُنہیں ورثے میں ملی ہے جس سے وہ لاتعلق ہرگز نہیں رہ سکتے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ حنا ربانی کھر نے خارجہ اُمور کی وزارت سنبھالنے کے بعد حلقے کی سیاست یکسرختم کردی ہوگی لیکن اتنا ضرور ہے کہ ایسے مناظر دیکھنے اور سننے میں نہیں آئے جو ان دنوں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے جہانگیرترین کے حوالے سے آرہے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حالیہ تنازعہ کے محرک خود شاہ صاحب ہی ہیں۔ شاہ صاحب دوسری مرتبہ وزارت خارجہ کے منصب پر متمکن ہوئے ہیں۔ پہلی مرتبہ اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے 2011 میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میںاُنہیں وزیر خارجہ بنوایا تھا اور دوسری مرتبہ 2018 میں وزیراعظم عمران خان کی خواہش پراُنہیں وزیر خارجہ بننا پڑا ۔ کیونکہ وہ خود پنجاب کے وزیراعلیٰ بننے کے خواہشمند تھے اور آج بھی یہ خواہش اُن کے سینے میں مچل رہی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ 2018کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ اُن کی طرف سے صوبائی اسمبلی کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے پیچھے بھی یہی حکمت کارفرما تھی کہ کامیابی کی صورت میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا حصول ہی اُن کی ترجیح ہوگی ،لیکن اُنہیں وہاں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی اور اس حوالے سے شاہ صاحب کی اپنوں سے کچھ شکوے اور شکایتیں بھی ہیں اور تحفظات بھی۔
جہانگیر ترین جو نااہلی کے بعد بھی بنی گالہ کی کچن کیبنٹ میں شامل ہیں اور صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ عمران خان صاحب کے غیر سیاسی معاملات میں بھی اُن کا عمل دخل ہے بلکہ وہ اُن کی ’’نجی مشکلات‘‘ میں بھی کردار ادا کرتے ہیں جیسا کہ مبینہ طور پر کچھ حالیہ واقعات میں سننے میں آرہا ہے ۔ پھر جہانگیر ترین صاحب کے اپنے دستر خوان کے بھی خوب چرچے ہیں اور اس حوالے سے ہی مخالفین حلقے اُنہیں ATM کہتے ہیں ، نااہل ہونے کے باوجود بھی اس وقت تحریک انصاف میں شاہ صاحب کے سب سے بڑے سیاسی حریف جہانگیر ترین ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ خرچ کرنے کے انداز سے پتہ چلتا ہے کہ کمایا کس طرح ہے۔ یوسف رضا گیلانی ہوں یا جاوید ہاشمی ، شاہ صاحب کی اُن کے ساتھ تو انتخابی سیاست کاایک دیرینہ پس منظر ہے جو اُنہیں اپنے بزرگوں سے ورثے میں ملا ہے اور وہ اپنے بزرگوں کی اس وراثت سے کسی صورت بھی نہ تو دستبردار ہونے کیلئے تیار ہیں اور نہ ہی ہزیمت اُٹھانے کیلئے، لیکن جہانگیر ترین سے اُن کی واضح محاذ آرائی تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد سامنے آئی ہے۔ پنجاب کے گورنر چوہدری سرور حسین کے ساتھ گورنر ہاؤس میں بیٹھ کر پریس کانفرنس اور پھر اُس میں جہانگیر ترین کے حوالے سے ریمارکس ، اچانک یا بے مقصد ہر گر نہیں تھے بلکہ یہ ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ ہیں۔جس کے پس منظر میں یہ صورتحال بھی شامل ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی سیاسی اور انتظامی نااہلی جسے اُن کے رفقاء اُن کی معصومیت اور سادگی کا نام دیتے رہتے ہیں کا بوجھ وزیراعظم نے کافی اُٹھالیاہے۔ عثمان بزدار سیاست میں نووارد تو ہر گز نہیں تھے وہ مسلم لیگ (ق) میں رہے تو نسہ شریف کے تحصیل ناظم۔ پھر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے اور مئی 2018میں پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے ۔ انہوں نے اگست 2018 میں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ کا حلف اُٹھایا ۔ اہم حکومتی معاملات میں اُن کے فیصلوں اور اقدامات میں اُن کے دھیمے انداز پر اُن کی سستی کا گمان ہوتا ہے ہرچند کہ وزیراعظم نے کبھی اُنہیں سیاست کا وسیم اکرم قرار دیا اور کبھی ایک درویش وزیراعلیٰ۔اب پنجاب جیسے ملک کے سب سے بڑے صوبے کا اعلیٰ ترین منتظم ایک ایسے ’’سیدھے‘‘ آدمی کو مقرر کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ’’کسی شخص کو موٹروے پر ڈرائیونگ سیکھنے کا موقع دیا جائے‘‘ بنی گالہ میں ہونے والی سرگوشیوںکو بھی سننے والی شخصیات کا دعویٰ ہے کہ ۔چاہے ’’لڑائی ہو یا جھگڑا‘‘ یا کوئی فیصلہ لیکن اب وزیراعظم نے وزیراعلیٰ پنجاب کو فارغ کرنے کا اُصولی فیصلہ کرلیا ہے شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شاہ محمود قریشی نے گورنر پنجاب کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کی۔ جن کا مقصد یہ بھی تھا کہ عثمان بزدار کمزور پڑرہے ہیں ایسے میں اگر کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو اس کے ثمرات وہ خود نہ سہی اُن کی لابی کے حصے میں آئیں یا پھر مخالفین کے حصے میں کسی صورت نہ آسکیں۔
داخلی سطح پر سیاست کا یہ انداز اور اس نوعیت کے واقعات بالخصوص خارجہ اُمور کی ذمہ داری اور کلیدی عہدے پر فائز شخصیت کے حوالے سے کسی طور پر بھی موزوں نہیں۔ وزیر خارجہ کے لفظوں کو ہی نہیں بلکہ اُن کے لب ولہجے اور ادائیگی کے زیروبم کو بھی مفہوم پہنائے جاتے ہیں۔ اگر سیاسی مخالفین اُن کے بارے میں کوئی غیر ذمہ دارانہ بات خواہ اُس میں کوئی حقیقت نہ ہو لیکن اُن کے منصب کو مجروح کرسکتی ہے اور دشمن ملک اُسے مسخ کرکے بتنگڑ بناسکتے ہیں۔ لوگ بھولے نہیں ہوں گے کہ سی۔ آئی۔ اے کے ایک کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس جس نے لاہور کے ایک بھرے بازار میں دن دیہاڑے دو نوجوانوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے شاہ محمود قریشی پر دباؤ تھا کہ وہ اس حکومتی مؤقف کی حمایت کریں کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے اس لیے اُسے گرفتار نہ کیا جائے لیکن شاہ محمود قریشی نے وزارت پر اپنے اُصولی مؤقف کو ترجیح دی اور پارٹی کی رکنیت کو بھی خیرباد کہہ دیا۔ موجودہ حالات میں بھی جب اسلام آباد اور حکومتی وزراء کا پلہ بظاہر جہانگیر ترین کے حق میں نظرآتا ہے تو بعض حلقے اور طبقے اس انتظار میں ہیں کہ شاہ صاحب کی ترجیح کیا ہوگی۔