غلام عباس بھنبھرو،خیرپور
پاکستان سمیت دنیا بھر میں صنفی مساوات کی بات کی جاتی ہے،حقوق نسواں سے متعلق سیمینار زمنعقد کئے جا تے ہیں لیکن، ان کی ساری کارروائیاں صرف اخبارات ، ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا تک ہی محدود رہتی ہیں۔ سول سوسائٹی اور حقوق نسواں کے نام پر سیاست چمکانے والی بیبیاں’’ حسب ضرورت‘‘تشہیر ملنے کے بعد خواتین پر ہونے والے مظالم کو فراموش کردیتی ہیںجس کےبعد ان کے پروگراموں میں کیے جانے والے اعلانات اور پاس ہونے والی قراردادیںبے نتیجہ رہتی ہیں۔خواتین کو سب سے بڑے جس ظلم کا سامنا ہے وہ کاروکاری ہے، جس کے تحت بے گناہ بچیوں پر شرم ناک الزام لگا کر بے دردی سے مار دیا جاتا ہے اورقاتل قانون کی گرفت سے آزاد رہتے ہیں ۔ غیرت کے نام پر خواتین کو موت کے گھاٹ اتارنے کی یہ رسم صدیوں پرانی ہے ۔اکتوبر 2016ء میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل منظور کیا گیا تھاجسے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پیش کیا تھا۔بل کی منظوری کے بعد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن اس قانون سازی کا بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔ آج بھی ناموسی قتل کا سلسلہ جاری ہے۔اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ دور اور سائنس و ٹیکنالوجی کے زمانے میں داخل ہونے کے باوجود ہمارا معاشرہ ،قرونِ وسطی کے جاگیردارانہ اور سرداری نظام کے تابع دکھائی دیتا ہے۔ نمائندہ جنگ نے اس سلسلے میں جو تحقیق کی ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذہوتا ہے کہ ذاتی دشمنی ،جائیدادکے تنازع ، شادی پر راضی نہ ہونےاور دیگر معاملات کی آڑ میں کسی بھی مرد یا عورت کو کاروکاری کا مجرم قرار دے کرجرگے کے حکم پربے دردی کے ساتھ قتل کردیا جاتا ہے۔سندھ میںاشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اور ان کے گماشتے ذاتی مفادات مثلاً جائیداد پر قبضہ کرنے کے لئے،زمین پر حق ملکیت جتانے،رشتے سے انکارکرنے پر، لڑکی کوپسند کی شادی کرنے پر،لڑکی کے ناجائز تعلقات قائم کرنے سے انکار وغیرہ پریا کسی مرد سے دشمنی نکالنے کی خاطر ماں،بیٹی،بہن،بیوی یا کسی اور عورت یا مرد پر کاروکاری کے جھوٹے الزامات لگا کر انہیں انتہائی سفاکانہ انداز میں قتل کرادیتے ہیں۔ اس خود ساختہ رسم کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مقتولین کی میتوں کو بعض اوقات بغیر غسل ، بغیرکفن پہنائے اور نمازِجنازہ پڑھائے بغیر گڑھے میں ڈال کر مٹی سے دبا دیا جاتا ہے۔
سندھ کے غیر سرکاری طور پر مطلق العنان حکم راں اتنے بااختیار ہوتے ہیں کہ بے قصوروں کو مارنے کے بعد ان کی لاشوں پر بھی رحم نہیں کرتے تاکہ عوام پر ان کی حاکمیت کا رعب و دبدبہ قائم رہے ، جس کا ثبوت ذرائع ابلاغ میں جاری کی جانے والی ایک اندوہ ناک رپورٹ ہے جس کے مطابق سندھ کے ضلع گھوٹکی کی تحصیل ڈہرکی کے ایک نواحی علاقے میں’’فتو شاہ‘‘نامی قبرستا ن واقع ہے جسے’’ کاریوں کا قبرستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اس میں غیرت کے نام پر قتل کیے جانے والے افراد کو بغیر تجہیز و تکفین کے دفنایا جاتا ہے۔
بالائی سندھ کے خیرپور، سکھر، شکار پور، لاڑکانہ ،جیکب آباد، گھوٹکی ،کندھ کوٹ اور کشمور کے علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل و غارت گری اور خون خرابے کے واقعات روزانہ کا معمول بن چکے ہیں۔دو ماہ قبل خیرپور میرس ضلع میں کوٹ ڈیجی تحصیل کے علاقے کنب کے نزدیکی گائوں پیر بڈھو وسان کی رہنے والی نوعمر بچی رمشا وسان کے قتل کا الم ناک واقعہ پیش آیا، جس میں ایک بااثر شخص ذوالفقار وسان نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گھر میں گھس کر اسے اس کے والدین کے سامنے گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔اس کے کچھ دنوں خیر پور میں ہی فیض گنج کے گوٹھ سرفراز شرمیں اپنی ہی برادری کے ایک نوجوان سے پسند کی شادی کرنے والی خاتون پر فائرنگ کرکے اس کے شوہر کو ہلاک جب کہ اسے زخمی کردیا۔ حال ہی ناموسی قتل کاپہلا واقعہ خیرپور شہر کی ملز کالونی میں ہوا جہاں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔اپنے اور اپنی بیوی کو کاروکاری کی بھینٹ چڑھانے کی پیشگی اطلاع ملتے ہی علی نواز مارفانی جان بچانے کے لیے اپنی بیوی کے ہمراہ شکارپور سے نقل و مکانی کر کے خیرپور آگیا اوراس جوڑےنے ملز کالونی میں کرائےپر مکان لے کر رہائش اختیار کرلی۔ شب معراج کوچند مسلح افراد نے ان کے گھر پر حملہ کیا اور فائرنگ کر کے جوڑے کو بے دردی سے قتل کردیا اور اطمینان کے ساتھ فرار ہو گئے ۔ بعد ازاں پولیس نےدونوں لاشیں پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کردیں۔ پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر کے مطابق لاشیں 48گھنٹے پرانی تھیں ۔ تفتیش کے دوران مقتولین کے پڑوسیوں نے پولیس کو بتایا کہ واقعے کے دوران انہوں نے فائرنگ کی آوازیں سنی تھیں لیکن وہ سمجھے کہ شاید بچے پٹاخے چھوڑ رہے ہیں اس لیے انہوں نے توجہ نہیں دی ۔پولیس کے مطابق قتل کی اطلاع ملنے میں تاخیرکے سبب ،ملزمان کو فرار ہو نے کا موقع مل گیا، تاہم ان کی گرفتاری کے لیے کوشش کی جارہی ہے۔ کاروکاری کا دوسرا واقعہ تحصیل فیض گنج کے گوٹھ سرفراز شر میں پیش آیاجہاں نوجوان عبدالمجید شر کوکار وقرار دے کر بے دردی سے قتل کیا گیا اور شادی شدہ لڑکی مسماۃ صنم شر کو زخمی کیا گیا۔ واقعے کی اطلاع پر فیض گنج پولیس نے گوٹھ سرفراز شر پہنچ کر مقتول نوجوان عبدالمجید شر کی لاش اسپتال پہنچایا جب کہ لڑکی مسماۃ صنم شر کو نازک حالت میں اسپتال میںداخل کرایا۔ واقعے کے متعلق بتایا گیا ہے کہ مسماۃ صنم شر کی کچھ عرصہ قبل اپنی ہی برادری کے نوجوان طا رق شر کے ساتھ شادی ہوئی تھی۔ لیکن ان کے رشتہ دار اس شادی سے ناخوش تھے۔بالائی سندھ میں غیرت کے نام پر ہونے والےقتل و غارت گری کے واقعات پرسول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔جب کہ شہری سوال کرتے ہیں کہ ناموسی قتل و غارت گری کاسلسلہ کبھی ختم ہوگا یا بے گناہ مرد و خواتین کاروکاری کے الزامات کے تحت یوں ہی مارے جاتے رہیں گے؟۔ 2016میں اس کے خلاف جو بل منظور کیا گیا تھا،اس پر مکمل طور سے عمل درآمدکرایا جائے ۔