ستّر اور اسّی کی دہائیوں میں پی ٹی وی کے ڈرامے ناظرین کی زندگیوں کا ایک اٹوٹ انگ بن گئے تھے،یہ ان دنوں کی بات ہے جب پی ٹی وی نے طویل دورانیے کے کھیلوں(ڈراموں) کا سلسلہ شروع کیاتھا، شروع میں اسے تمثیل اور پھر ڈراما 81 ڈراما 82 کا نام دیا گیا ۔ اس میں بہت سے یاد گار ڈرامے پیش کئے گئے تھے، جن میں امجد اسلام امجدکاڈراما ’’دکھوں کی چادر‘‘آج بھی بھلایا نہیں جاسکا ،اس لازوال ڈرامے میں ثروت عتیق نے لاجواب پرفارمنس دی تھی ،اسی طرح ڈراما سیریل ’سمندر‘ میں ثروت عتیق کی عمدہ پرفارمنس آج بھی ناظرین کے ذہنوں میں ہے،یہ سیریل ڈائریکٹر یاور حیات اور قاسم جلالی کی مشترکہ کاوش تھی جسے امجد اسلام امجد نے تحریر کیا تھا،اس زمانے میں اشفاق احمد ، انور سجاد ، ڈاکٹر ڈینس آئزک اور ڈاکٹر طارق عزیز جیسے ڈراما نگاروں نے کئی شاہ کارر پیش کیے اور ایسے کردار تخلیق کیے، جنہیں ناظرین آج بھی یاد کرتے ہیں۔یہ مقبول ترین ڈراموں کا وہ دور تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے تقاریب کا وقت یا دن تک تبدیل کردیا جاتا تھاجبکہ بازاروں میں سناٹا ہوجاتاتھا،انہی دنوں منو بھائی کا تحریر کردہ لانگ پلے ’دروازہ‘بہت پسند کیاگیا جس میں مرکزی کردارروحی بانونے ادا کیاتھا جبکہ ثروت عتیق ایک جاندار کردار میں نظر آئی تھیں۔ دیگر کاسٹ میں خالد عثمان، آصف رضا میر، سجاد کشور، دردانہ بٹ اور عاصم بخاری بھی شامل تھے۔ یہ کلاسک ڈراما آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہے،لیکن ثروت عتیق نہ جانے کہاں چھپ گئیں۔ناظرین کے دل و دماغ میںآج بھی ان کی اداکاری کے نقوش ہیں۔
ماضی کی ورسٹائل اداکارہ ثروت عتیق نے اپنی پہچان اس وقت بنائی جب ان کی ہم عصر اداکاراؤں کا ٹی وی پر راج تھا۔ایک ٹیلی وژن چینل ہونے کی وجہ سے کام کرنے کے مواقعے بھی زیادہ نہ تھے۔ان حالات میں ثروت عتیق نے منجھے ہوئے کردار ادا کر کے منفرد مقام حاصل کیا۔ثروت عتیق اسکول کی تقریبات میں گانے گاتی تھیں، انہیں گلوکاری سے شغف حاصل تھا ۔بچپن میں اسکول کے اسٹیج ڈراموں میںان ہی کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ انہوں نے نہ کبھی موسیقی کی تربیت لی اور نہ ہی کبھی اداکاری کے رموز سیکھے۔1965 میں دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعدریڈیو پاکستان میں آڈیشن دیااور اسکول براڈکاسٹنگ پروگرام میںشرکت کی۔انہوں نے بچوں کے پروگراموں بھی حصہ لیااور بطور چائلڈ اسٹارکام کیا۔شخصیت میں خود اعتمادی کی بدولت جب وہ آڈیشن کے لیےٹی وی اسٹیشن گئیںتو انہیں ڈراموں میں اداکاری کے لیے فوراً منتخب کر لیا گیا،تاہم انہیں ابتداہی سے بوڑھی خواتین کے کردار دیے گئے۔
ثروت عتیق نے دوران تعلیم اداکاری کی دنیا میں قدم رکھا،لیکن ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں ایم اے کیا،لیکن عملی زندگی میں فن کے پیشے سے منسلک ہوگئیں۔اس زمانے میں اعلی تعلیم یافتہ خواتین کافن کی دنیا کی طرف آنے کا رجحان کم تھا،لیکن ثروت عتیق نے تعلیم کے ساتھ فن اداکاری سے منسلک ہونے کی ٹھانی۔ اسی دوران اسٹیج پر اداکاری کرنے لگیں۔شادی کے بعد ثروت عتیق نے ریڈیو پر کام کرنا چھوڑ دیا،جبکہ انہوں نے فن کی بنیادی تربیت ریڈیو ہی سے حاصل کی تھی،لیکن اسٹیج ،ٹی وی اور گھریلو مصروفیات کی بنا پر انہوں نے ریڈیو کو خیرباد کہہ دیا۔ان کے شوہر عتیق ریڈیو میںپروگرام پروڈیوسر تھے۔ ثروت عتیق نےٹی وی پر کام کی ابتدالاہور مرکز سے کی اور ہدایت کار فضل کمال کے مزاحیہ پروگرام ’’سچ جھوٹ‘‘میں اہم کردار ادا کیا،جس میں کامیابی کے بعد باقاعدہ ٹیلی وژن پراداکاری کا آغاز کیا لیکن ثروت عتیق کو شہرت بوڑھے کرداروں سے ملی۔وہ کردار میں جان ڈالنے کےفن سے بہ خوبی واقف تھیں۔مشہورڈرامے ،گیتی آراء،آنکھ مچولی اوردکھوں کی چادر میں کرداروں کو بہت پسند کیا گیا۔
نوے کی دہائی تک گو کہ ثروت عتیق نے ڈراموں میں کام کرنا بہت کم کر دیا تھالیکن ان کا ’گیسٹ ہاؤس‘ ایسا ڈراما تھا جس میں انہوں نے ’’مسز شمیم‘‘کا کردار خوب نبھایا۔اس ڈرامے کے ہدایت کار رؤف خالد تھے۔اس ڈرامے نے اپنے دور میں مقبولیت کے نئے ریکارڈز بنا دیے تھے۔گیسٹ ہاؤس میں ہلکی پھلکی معاشرتی کہانیاں دلچسپ اور مزاحیہ انداز میں نشر کی جاتی تھیں۔ مسافروں کو درپیش مسائل کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کیا جاتا تھا اورفلم اسٹار افضل خان نے گیسٹ ہاؤس میں خاکروب (جان ریمبو )کے کردار سے پہچان بنائی،جبکہ ہمیشہ کی طرح ثروت عتیق کی بے ساختہ اداکاری کو بے حد پسند کیا گیا۔مزاحیہ کردار میں بھی انہوں نے منفر کام کیا۔
ثروت عتیق گزشتہ طویل عرصے سے ٹی وی اسکرین سے غائب ہیں۔ٹی وی کے سنہری دور میں کام کرنے والے فن کاروں میں ثروت عتیق کا نام آج بھی یاد ہے۔