• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لوگوں کی اکثریت شعبہ صحت میں سب سے اہم کردار صرف ڈاکٹرز کا ہی سمجھتی ہے، درحقیقت ڈاکٹرز کے علاوہ سپورٹ اسٹاف، جن میں نرسیں، وارڈ بوائز اور دیگر شامل ہیں، کی بھی اتنی ہی اہمیت ہوتی ہے۔ مریضوں کی حفاظت، دیکھ بھال اور تیمارداری میں ایک نرس اہم کردار کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعبہ صحت میں نرسنگ کوریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ نرسنگ کی اہمیت اُجاگر کرنے اور اس کی خدمات کے اعتراف کے طور پردنیا بھر میں12مئی کو ’’ نرسوں کاعالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے۔ آج کے دن نرسنگ سے منسلک افراد کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی اس شعبے سے وابستہ خواتین کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔

نرسوں کے عالمی دن کی تاریخ

اس دن کو منانے کا آغاز1953ء میں ہوا، جب امریکا کے شعبہ صحت، تعلیم اورفلاح وبہبود سے منسلک ڈوروتھی سودرلیند نے امریکی صدر سے نرسوں کے عالمی دن کا اعلان کرنے سے متعلق رابطہ کیا۔ تاہم اس وقت ڈوروتھی کی پیش کردہ تجویز منظور نہیں کی گئی لیکن تین سال بعد1956ء میں نرسوں کی بین الاقوامی کونسل نے 12مئی کو ’نرسوں کا عالمی دن‘ منایا۔12مئی جدید نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹینگل کا یوم پیدائش بھی ہے۔ نرسوں کا عالمی دن فلورنس نائٹ اینگل اور دنیا بھر کی نرسوں کی خدمات کو یاد کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

نرسنگ کی اہمیت

دنیا بھر میں نرسنگ ایک مقدس اور محترم پیشے کے طور پر مقبو ل ہے۔ ہمارے یہاں اگرچہ صورتحال مختلف ہے لیکن درحقیقت کسی مریض کی جان بچانے یا اس کی تیمارداری کے دوران ایک نرس کا کردار کسی ڈاکٹر سے کم نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر شیرون ایم وینسٹین کے مطابق ،’’شعبہ صحت کے معتبرترین افراد میں نرسیں بھی شامل ہیں ،جن کی زندگی کا زیادہ تر حصہ مریضوں کے ساتھ گزرتا ہے۔ وہ معالج بھی ہیں ، استاد بھی ، وکیل بھی، مفکر بھی اور تو اور موجد بھی۔ ایک نرس مریض کی صحت یابی کےلیے 24گھنٹے فعال نظر آتی ہے۔ نرسنگ کے پیشے سے منسلک مرد یا خواتین، مریضوں کی دیکھ بھال سے بڑھ کر بھی بہت سی ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہیں۔ میرے نزدیک نرسنگ ایک معزز ترین پیشہ ہے اور نرسیں شعبہ صحت کی روح اور دل کا درجہ رکھتی ہیں‘‘۔

پاکستان میں شعبہ نرسنگ کی صورتحال

پاکستان میںشعبہ نرسنگ کی بنیاد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی۔1949ء میں سینٹرل نرسنگ ایسویسی ایشن اور1951ء میں نرسز ایسویسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ موجودہ صورتحال کی بات کی جائے تو اس وقت پاکستان میں 162نرسنگ کے ادارے کام کررہے ہیں۔ جسمانی و ذہنی مریضوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے نرسوں کی ذمہ داریاں دُہری ہو گئی ہیں۔ ایک طرف وہ بلا رنگ و نسل مریضوں کی خدمت کے لئے ہمہ وقت حاضر رہتی ہیں، دوسری جانب انہیں مریضوں کے اعصابی رویوں کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں نرسوں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، جس کا اہم سبب نرسوں کی نائٹ شفٹ ڈیوٹی ہے۔ قدامت پسند ذہن نرسوں کی تمام تر خدمات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور ان کی نائٹ شفٹ کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کی ایک بڑی تعداد اپنی بیٹیوںکو صحت کے اس شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ یہ صورتحال ہمارے یہاں نرسوں کی قلت کا ایک اہم سبب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 10مریضوں پر ایک نرس اور نازک امراض میں ایک مریض پر 2نرسیں مقرر ہیں۔ بین القوامی سطح کی بات کی جائے تو یورپ میں نرسوں کی تعدادچالیس لاکھ95ہزار سے زائد ہے۔

نرسنگ کا انتخاب کیوں کیا جائے ؟

پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں آج بھی نرسنگ کے شعبے کو مختلف مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے لیکن قدامت پسند ذہنوں میں تبدیلی لاکر اس شعبے میں موجود قلت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں نرسنگ کے بارے میں شعور بیدار کیا جائے اور اس کی اہمیت کے بارے میں انھیں آگاہی فراہم کی جائے تاکہ ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان ہوجائے کہ نرسنگ بطور کیریئر کیوں منتخب کرنا چاہیے ۔

٭شعبہ نرسنگ میں کیریئر کے بے شمار مواقع موجود ہیں،آپ چاہیں تو پارٹ ٹائم جاب بھی کرسکتے ہیں اور مستقل بنیادوں پر بھی۔ شعبہ نرسنگ میں نرسوں کی قلت کے سبب ’ہائرنگ‘ سب سے زیادہ کی جاتی ہے۔ دوسری جانب مختلف اسپتالوں میں ضروریات کے پیشِ نظر منتخب کردہ دنوں کے لیے بھی نرسیں رکھی جاتی ہیں۔

٭یہ شعبہ چونکہ مریضوں کی تیمارداری سے متعلق ہے، اس لیے ذاتی اطمینان کاباعث بنتا ہے۔کیونکہ مریض کی تیمارداری کا حکم ہمیں اسلام کی جانب سے بھی دیا گیا ہے۔ یہ شعبہ ذہنی وجسمانی آسودگی کے لیے معالج کے شعبے سے کسی طور کم نہیں ہے۔

٭ شعبہ نرسنگ کو سیکنڈکیریئر چوائس کے طور پر بھی بہترین تسلیم کیا جاتا ہے۔ بیشتر نرسیں ایسی ہیں جو ریٹائر ہونے کے باوجود بھی پارٹ ٹائم جاب کو اپنی آمدنی کا ذریعہ بنائے ہوئے نظر آتی ہیں۔

تازہ ترین