سعودی عرب کے متعدد اداروں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود کئی شہروں میں گداگری کا رواج برقرار ہے،جو رمضان المبارک اور حج میں کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتاہے۔بعض اعدادوشمار کے مطابق گداگروں میں ایشیائی باشندے 90 فیصد ہیں ،جبکہ 10فیصد ایسے ہیں جن کاتعلق عرب ممالک سے ہے، حالانکہ وزارت محنت و سماجی بہبود کے ماتحت انسداد گداگری کا ادارہ بہت سے معذوروں اور لاچاروں کی سرپرستی کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ انسداد گداگری کے ادارے کی ذمے داری ہے کہ وہ مرض کے نام پربھیک مانگنے والےگداگروں کو اسپتالوں میں داخل کرائے۔ جہاں تک نادار گداگروں کا تعلق ہے تو انہیں سماجی کفالت کے تحت مالی تعاون پیش کرے یا انہیں فلاحی اداروں کی تحویل میں دیدے۔ ایسے گداگروں کے مسائل کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جائے۔ جس کو جس قسم کا تعاون درکار ہو اس کو اسی سے متعلق ادارے کی تحویل میں دینے کا اہتمام کیا جائے۔ یتیم اور کمسن گداگروں کو تربیتی مراکز بھیجا جائے جہاں ان کی مناسب رہائش کا انتظام ہو۔
ماضی میں انسداد گداگری کی ذمے داری مختلف اداروں میں بٹی ہوئی تھی۔ گزشتہ برس سعودی کابینہ نے وزارت داخلہ اور وزارت محنت و سماجی بہبود کوانسداد گداگری کی ذمے داریاں تفویض کیں۔ سعودی اور غیر ملکی گداگروں کی گرفتاری کا کام وزار ت داخلہ کے سپرد کیا گیا۔ سیکیورٹی فورس کے گشتی دستوں اور تمام علاقوں اور شہروں کے محلوں میں پولیس اسٹیشنوں کو گداگروں کی تلاش کی ذمےداری دی گئی۔ وزارت محنت و سماجی بہبود اور حج و عمرہ پر آکر غیر قانونی طریقے سے قیام کرنے والے پاکستانی، بھارتی، مصری، شامی،فلسطینی اور افریقی سمیت کئی غیر ملکیوں کو بیدخل کرنے کی ہدایت بھی کی گئی۔ علاوہ ازیں باقاعدہ اقامے پر مقیم غیر ملکیوں کے حوالے سے یہ ہدایت بھی جاری کی گئی کہ اگر وہ بھیک مانگتے ہوئے پکڑے جائیں تو انہیں مملکت سے نہ صر ف بیدخل کیا جائے بلکہ انہیں بلیک لسٹ بھی کردیا جائے۔ گداگری کے اقتصادی و سماجی نقصانات مسلم ہیں۔ گداگری سے بدامنی کے مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ بہت سارے گداگر بھاری رقمیں غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھیجتے ہیں۔ اس سے سعودی عرب کی تمدنی شکل بھی متاثر ہوتی ہے۔ کئی لوگ گداگری کو مجرمانہ سرگرمیوں کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ نایف یونیورسٹی برائے علوم سلامتی نے تازہ ترین جائزہ تیار کرکے بتایا ہے کہ ریاض میں انسداد گداگری کے موثر اقدامات کی راہ میں 4رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایک رکاوٹ تو یہ ہے کہ شہر کے تمام محلوں میں چھاپے نہیں مارے جارہے ۔ دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ گداگروں کو سبق سکھانے کے سلسلے میں قانونی تدابیر ناکافی ہیں۔ تیسری رکاوٹ یہ ہے کہ مقامی شہری گداگروں کی رپورٹ نہیں کرتے۔ سفارش یہ پیش کی گئی کہ گداگری کے انسداد کے لیےنئے موثر اقدامات کئے جائیں۔
عام طور پرگداگری کے مناظرمکہ مکرمہ حرم شریف اور مسجد نبوی کے ارد گرد مدینہ منورہ کے علاوہ جدہ، دمام،ریاض اور دیگر شہروں کی مساجد اور ان کے دروازوں پر خصوصاً جمعہ کی نماز کے بعد دیکھنے میں آتے ہیں۔ بعض پبلک مقامات پر بھی گداگر دیکھے جاتے ہیں۔ ابھی تک ان سے نمٹنے کےلئے کئے گئے اقدامات کے واضح نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔ لوگ ثواب حاصل کرنے اور صدقہ خیرات کے نام پر کسی خیراتی ادا رے یا اپنے قریبی عزیز رشتہ داروں تک پہنچانے کی بجائے آسان راستہ سمجھتے ہوئے مدد کر دیتے ہیں،ساتھ ہی ذکاۃ و فطرانہ بھی ادا کردیتے ہیں،جس سے گداگری کے پیشے کوحوصلہ ملتا ہے۔یہاںکوئی دن ایسا ایسانہیں گزرتا جب کوئی گداگر ہمارے سامنے آکر جھوٹے قصے سناکر ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش نہ کرتا ہو۔بعض تو تسبیح اور خوشبویات بھی فروخت کرتےہوئے اپنی داستان سنا کے ہمدردی حاصل کرتے ہیں اور امداد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔سچ یہ ہے کہ انسداد گداگری مہم اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوگی تاوقتیکہ مقامی شہری اور مقیم غیر ملکی اس سلسلے میں اپنا کردارادا نہ کریں۔ کردار یہ ہو کہ ہم میں سے کوئی بھی شخص کسی بھی گداگر کو خود کو بے وقوف بنانے کی اجازت نہ دے۔ گداگروں میں وہ بھی ہیں جو لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے روایتی طور طریقے اختیار کرتے ہیں اوروہ بھی ہیں جو اس سلسلے میں فنکاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پُرلطف سچائی یہ ہے کہ ہر طرح کے گداگروں کی جھوٹی کہانیوں پر یقین کرنے والے سعودی شہری اوریہاں مقیم غیر ملکی باآسانی مل جاتے ہیں۔ بعض ایسے گروہ بھی یہاں پہنچے ہیں جن کاتعلق رحیم یار خان، بیلٹ سے ہے اور بڑے بڑے نام کے اسپانسر پہ رمضا ن المبارک کے آخری 15 دنوں میں یہاں پہنچتے ہیں۔ان میں ایسے مجبور، اپاہج ،مرد، بچے، عورتیں بھی ہوتی ہیں جن کے متعلق آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایک ٹور آپریٹر نے جنگ بلادی کو اس گروپ سے کئی سال قبل ملاقات بھی کروائی تھی۔گروپ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے کے بڑے لوگ گداگری کو کاروبار کے طور پہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ہرسال یہ طے کرکے ان گروہوں کو گداگری کے لیےبھیجا جاتا ہے کہ جو بھی آمدنی ہو پچاس فیصد آپس میں حصہ لیا جائے۔اس طرح استفسار پہ پتہ چلا کہ یہ گداگر صرف ماہ رمضان کے کے آخری پندرہ سے بیس دنوں میں دس سے بیس ہزار ریال اکھٹے کرتے ہیں اور آسانی سے واپس چلے جاتے ہیں، یہی نہیں ایسے گروہ کی اعلیٰ سطح پہ انتظامات کرکے پاکستان واپس بھیجاگیا، ائیرپورٹ سے گرفتار کرکے کچھ روز جیل میں بھی ڈال دیا گیا، معلوم یہ ہوا کہ ان پر کوئی کیس بنا اور نہ کوئی سزاہوئی۔ اسی طرح ایک گروپ ایسا بھی ہے جس کے پاسپورٹ پہ کئی خلیجی ممالک کے ویزے بھی لگے ہیں اور حرم شریف میں سادہ لوح اپنے ہی ملک کے لوگوں کو درد بھری کہانی سنا کے رقم اینٹھنے کی کوشش کرتاہے۔
اس سال بھی اسی قسم کے لوگ عمرہ ویزے کے نام پر یہاں پہنچے ہیں ،جن کے انسداد کے لیے خفیہ گروہ سرگرم عمل ہے۔لیکن اس کی بیخ کنی کے لیےضروری ہے کہ سعودی شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں کا سماجی و مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اپنے طور پر یہ طے کریں کہ انہیں امداد طلب کرنے والے ہر کس و ناکس کی مدد نہیں کرنی۔ بھیک مانگنے والوں کو دیکھ کر انسانیت نواز لوگوں کے دل پسیج جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی اس کیفیت پر قابو پانا ہے۔ انسانیت نواز کیفیت پر اسی وقت قابو پایا جاسکے گا جب ہمیں اس بات کا پورا یقین ہوجائے گا کہ گداگروں کی مافیا بین الاقوامی سطح پر کام کررہی ہے ۔ کچھ ہی سال پیشتر گورنر مکہ مکرمہ شہزادہ خالد الفیصل نے ہدایت جاری کی تھی کہ گداگری کا رواج جلد ازجلد ختم کیا جائے۔ یمن ، افریقہ اور پاکستان کے گداگروں پر کڑی نظر رکھی جائے اور جلد ازجلد یہ مسئلہ حل کیا جائے۔ باخبر ذرائع کے مطابق متعلقہ اداروں نے جدہ کے تاریخی علاقے اور اس کے اطراف واقع دکانوں پر گداگروں کی بھیڑ ریکارڈ کی ۔ گداگر خود کو مریض یا معذور یا نادار ظاہر کرکے راہگیرو ں سے مدد حاصل کرنے کےلیےان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ خالد الفیصل نے تمام متعلقہ اداروں کو یہ مسئلہ مشترکہ مہم چلاکر حل کرنے کا حکم دیا ہے۔