اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے حا ل ہی میں آگاہ کیا ہے کہ یہ دنیا تیزی سے تباہی کی طرف جا رہی ہے ۔سطح سمندر کے بلند ہونے کا عمل کئی ساحلی شہروں مثلاً کراچی کو سمندر میں غرق کردے گا۔پاکستان اور بعض دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک خطرے کے دہانے پر ہیں ۔ اگلے پچاس سالوں میں عا لمی درجۂ حرارت میں محض 2سے 3ڈگری کا اضافہ پاکستان کے اکثر علاقوں کو نا قابل رہائش خطہ بنادے گا اور کروڑوں لوگ قحط سالی کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں گے، کیوں کہ پانی کی کمی کی وجہ سے مناسب پیداوار نہیں ہوسکے گی ۔ مختلف مطالعہ جات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگلے 20 سالوں میں گلیشیرز تیزی سے پگھلیں گے اور ہمیں دریا ئوں کے سیلاب کا بڑے پیمانے پر سامنا کرنا پڑےگا ۔ اگلے 20سے 30سالوں میں دریا خشک ہوجائیں گے اورملک کو طویل خشک سالی کا سامنا ہوگا۔ چناں چہ ہمیں اگلے10سے15 سالوں میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی اس حد تک گنجائش پیدا کرلینی چاہیے کہ اگلے5 سے7 سالوں کی قومی ضروریات کے لئے کافی ہواور اس عرصے میں آنے والی خشک سالی سے بہتر طور پرنبردآزماہوا جا سکے ۔
موسمی ٹائم بم
بحراوقیانوس پر موجود برف تیزی سے پگھل رہی ہے جو سائنس دانوں کی پریشانی کا باعث ہے ۔ یونیورسٹی آف الاسکا کے ڈاکٹر کیٹی والٹر کے مطابق سائبیریا کی بعض جھیلوں کا سائز دو سال قبل کے سائز سے5گنا کم ہو چکا ہے ۔ اس کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے سمندر ی موجوں میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے، جس سے مون سون بارشوں میں سنگین تبدیلی کا خطرہ ہے ۔یہ تبدیلی فصلوں کی نشونما اور 2بلین لوگوں کی زندگی کے لئے انتہائی خطرناک ہوسکتی ہے ۔ اس حوالے سے جنوبی ایشیائی خطہ کے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔قطب شمالی کے خطوں کے موسمی تبدیلی سے تباہ ہونے کا سب سے زیادہ خدشہ ہے ۔ پرمافروسٹ(منجمد زمین ،پانی اور چٹانیں ) میں نامیاتی کاربن کی بڑی مقدار ہوتی ہے جوکہ 10 ہزار سال سے جمے ہوئے مردہ پودوں اور جانوروں سے تشکیل پاتی ہے ۔پگھلاؤ کے تیزرفتار عمل کی وجہ سے 100بلین ٹن دفن شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ یا میتھین ، گیس کی صورت میں فضاء میں خارج ہوسکتی ہے ۔ منجمد سمندروں کی تہہ میں میتھین ہائیڈریٹ کی شکل میں دبی ہوئی میتھین (برف جس میں میتھین کافی مقدار میں موجود ہے)بھی خارج ہوسکتی ہے۔ میتھین کا اخراج ،گرین ہائوس گیسوں کی مقابلے میں زیادہ طاقتور ہے ،یہ بھی عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے ۔
چھتوں پر باغ کے ذریعے … عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ
مشی گن ،یو ۔ایس۔اے میں Kristine Getterاور ان کے ساتھیوں نے ایک حالیہ مطالعے میں عا لمی تپش میں اضافہ سے نبرد آزما ہونے اور ائیرکنڈیشز پر آنے والے خرچ کو بچانے کے لئے چھتوں پر باغ لگانے کی تجویز دی ہے دو سال پر محیط اس مطالعہ میں پودوں اور زمین کے نمونوں میں کار بن کی سطح کی پیمائش کی گئی اور وہ اس نتیجے پرپہنچے کہ ایک ایسے شہر میں جہاں10لاکھ افراد رہائش پذیر ہوںہر گھر کی چھت پر ایک باغ لگا دیا جائے تو ایک سال میں 55000ٹن کاربن جذب کرلیا جائے گا ۔1947ءمیں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا آئروین میں کام کرنے والے Sherwood Rowlandاور Mario Molinaنے متنبہ کیا ہے کہ ریفریجریٹر میں استعمال ہونے والے بعض کیمیائی مادّے (کلو رو فلورو کاربن CFCs)فضاء میں جاکرتحلیل ہوتے ہیں اور کلورین خارج کرتے ہیں جوکہ فضائی اوزون کو تباہ کرنے کا سبب بن سکتی ہے ۔ اوزون زمین کو الٹراوائلٹ(بالائے بنفشی) شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہے ۔ 1987ء میں مونٹریال پر وٹوکول کے تحت دنیا نے CFCsگیسوں کی پیداوار میں کمی ، اس کے ساتھ آگ بجھانے والے آلات میں استعمال ہونے والے پروٹین گیس کے اخراج میں کمی پر رضا مندی ظاہر کی۔1990ءکی دہائی کے اواخر میں فضاء میں اوزون کو تباہ کرنے والے مادّوں کے اخراج میں کمی آنا شروع ہوگئی اور اوزون میں ہونے والا سوراخ بتدریج بند ہونے لگا۔یہ سوراخ قطبین (Poles)پر کیوں ہوئے؟ قطبی خطوں سے باہر اوزون کے چند سومالیکیول کلورین ایٹم سے عمل انگیزانہ انداز میں تباہ ہوتے ہیں ۔قطبی ماحول میں برف کے اجزاء کلورین کے ایٹموں کو وہ سطح فراہم کرتے ہیں جس پر وہ تیزی سے حملہ آور ہوکر ہزاروں کی تعداد میں اوزون مالیکیولز کو تباہ کردیتی ہے، چنانچہ انٹار کٹیکا میں اوزون سوراخ کے مرکز میں نقصان کی شرح 3فی صدیومیہ تک ہوجاتی ہے۔1987ء میں یہ تخمینہ لگایا گیا تھا کہ اگر اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے تو 2050ء تک Atmospheric Zone کا دوتہائی علاقہ تباہ ہوجائے گا اوراس کے نتیجے میں جلد کا کینسر عام ہوجائے گا ۔
صاف آسمانوں سے آنے والا برف کا قوی الجثہ تودہ
فروری 2007ء میں میڈرڈاسپین میں صاف آسمان سے ایک برف کا 20 پونڈ وزنی تودہ ایک صنعتی ویئرہائوس کی چھت پر آکر گرااور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ سینٹرآف اسٹرولوجی میڈرڈمیں کام کرنے والے خلائی حیاتیات کے ماہر Jesus Martinez- Friesکے مطابق گزشتہ سات سالوں میں دنیا بھر میں مختلف مقامات پر اس قسم کے 50 واقعات رونما ہوئے ہیں ۔ اس قسم کے ہیبت ناک برفانی تودوں کو Megacryometeors کہا جاتا ہے اور اس کا وزن 200پائونڈ تک ہو سکتا ہے ۔ خیال کیا جا تا ہے کہ یہ زیریں فضائی کرّے میں فضائی شورش کی وجہ سے بنتے ہیں۔ تودّے برف کی قلموں کے تہہ پر تہہ چڑھنے کی وجہ سے فضاء میں آکر گرتی اور بنتے ہیںاور یہاں تک کہ ان کی جسامت ہیبت ناک حد تک بڑی ہوجاتی ہے ۔ یہ برف کے تودّے موسمی تبدیلی کا براہ راست نتیجہ ہیں جوکہ کرّہ اول میں بڑھنے والی شورش اور نمی کا نتیجہ ہیں ۔
(HAARP)ہارپ سے دنیا کے موسمِ زراعت پر کنٹرول
یورپی یونین نے امریکا کے خفیہ پروگرام پر باضابطہ طور پر پریشانی کا اظہار کیا ہے یہ پروگرام امریکی فضائیہ، امریکی بحریہ اور ڈیفنس ایڈوانس ریسرچ ایجنسی (DARPA)کی مشترکہ امداد سے الاسکا یونیورسٹی میں شروع کیا گیا ہے ۔ HAARP(High Frequency Active Auroral Research Program) جو امریکا کا انتہائی متنازعہ پروگرام ہے۔اس پروگرام کا مقصد روانی کرہ (Ionosphere)کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا ہے ۔ یہ زمین کے کرہ فضائی کی ایک تہہ ہے جوکہ زمین سے 70کلو میٹر کے فاصلے پر سے زمین کے کرہ فضائی تک محیط ہے ۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں کرہ فضائی انتہائی باریک ہے ۔چناں چہ یہاں UVاور X-rayآسانی سے نفوذکرسکتی ہیں ۔ تاہم اس خطے میں گیس کے مالیکیول ان شعاعوں کے ساتھ تعامل کے لئے اِرد گرد گھومتے رہتے ہیں اسی وجہ سے اس علاقے کو روانی کرہ Ionosphereکا نام دیا جا تا ہے ۔ یہ پلیٹوں کی ساختیاتTectonicsکو بھی متاثر کر سکتا ہے، جس سے زلزلے ،سیلابی بارشوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جوکہ سونامی کا سبب بن سکتا ہے ۔ اس تجربے میں برقی مقناطیسی فریکوئنسی کو استعمال کرتے ہوئے طاقتور Pulseکی حامل توانائی کی شعاعیں پھینکی جائیں گی ،تا کہ خاص علاقے کے روانی کرہ میں تحریک پیدا کردی جائے ،طاقتور لیزر کے ذریعے ہدایات لینے والی توانائی روانی کرہ Ionosphereکو گرم کردے گی اور اس سے موسم کو کنٹرول کیا جا سکے گا ۔ماہرین کے مطابق موسم کا کنٹرول کرنا تباہ کن جنگی ہتھیاروں سے زیادہ خطرناک ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے ۔
ہارپ میں استعمال ہونے والے اہم ترین آلے کا نام Ionospher Research Instrument) IRI)ہے جوکہ 180اینٹینے پر مشتمل طاقت ور ہائی فریکوئنسی ریڈیوٹرانسمیٹر ہے یہ الاسکا Gaskonaمیں امریکی فضائیہ کی زمین پر 33 ایکڑ رقبے کے ایک مستطیل میں لگا ہوا ہے ۔ اس منصوبے کا مقصد روانی کرے ionosphereمیں Pulseیا 3.6میگا واٹ کے مستقل سگنل بھیجنا ہے ۔ ہارپ پروگرام کا مقصد روانی کرہ کے متعلق سائنسی تحقیق بتا یا جا تا ہے ۔ روائتی ذرائع سے روانی کرہ کا مطالعہ کرنا بہت مشکل ہے، کیوں کہ اس جگہ ہوا بہت پتلی ہے۔ چناں چہ مو سمی غبارے یہاں تک نہیں پہنچ پاتے ۔یہاں سیٹلائٹ کو چلانا بھی بہت مشکل ہے، کیوں کہ یہاں ہوا کثیف ہے ۔اوٹاوایو نیو رسٹی کے پروفیسر Micheal Chossudovsky کے مطابق عسکری نقطہ نظر سے ہارپ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے ولا ہتھیار Weapon of Mass Destructionہے۔ اس کے اندر ایک فتح کا آلہ نصب ہے جوکہ پورے خطے کی زراعت ماحولیاتی نظام کو غیر مستحکم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اب ہماری بقاء خطرے میں ہے ۔ہمارا جسم ایک خاص درجۂ حرارت پر ہی فعال رہتا ہے ۔ ہمارے جسم کا عمومی درجۂ حرارت 37 ڈگری سینٹی گریڈہے لیکن اگر یہ بڑھ کر 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوجا ئے تو ہماری موت واقع ہو سکتی ہے۔ ہماری جلد پر موجود مساموں سے خارج ہونے والا پسینہ بخارات بننے کے ذریعے جسم پر ٹھنڈ کے اثرات مرتب کرتا ہے ۔لیکن جیسے ہی نمی کا تناسب بڑھتا ہے ،بخارات بننے کا عمل (اور اس سے پیدا ہونے والی ٹھنڈکا احساس)کم ہو جاتا ہے، اس کے نتیجے میں جسم پر دبائو پڑتا ہے ۔ جسم کے درجۂ حرارت کو چند گھنٹوں سے زیادہ کے لئے 35 ڈگری سینٹی گریڈسے نہیں بڑھنا چاہیے۔
عمارتیں ۔۔۔ جو ماحول کو صاف کریں گی
میوزیم آف ماڈرن آرٹ (MoMA)کوئنز نیویارک میں ایک تعمیراتی منصوبے پر کام کررہا ہے، جس کے تحت ہوا سے آلودہ مواد کو نکال دیا جائے گا ۔ یہ ٹیکنالوجی امریکی تعمیراتی کمپنی HWKNنے تیار کی ہے۔اس پروجیکٹ میں جس کو Wendyکا نام دیا گیا ہے انتہائی خوبصور ت تعمیرات کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس عمارت کے ڈیزائن میںخوبصورت کانٹے دار ساختوں کا استعمال کیاگیا ہے ، جو کہ مختلف زاویوں سے باہر کی جانب نکلے ہوئے ہیں، ان کی بیرونی جلد کو ٹیٹینئیم ڈائی آکسائیڈ سے مزین کیا گیاجو کہ آلودہ مواد کو پکڑتے ہیں اور ان کو بے ضرر بنا دیتے ہیں ۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس ہر تنصیب میں تقریباً260کاروں سے خارج ہونے والی آلودگی کو صاف کرنے کی صلاحیت موجودہے۔اس قسم کے ماحول دوست شیلٹر مستقبل میں سڑکوں سے آلودگی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکیں گے۔