• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معافی چاہتا ہوں کہ میں بھی میڈیا کی چکا چوند میں کھو گیا اور گزشتہ ایک دو تحریروں میں پاکستان کو صرف اسلام آباد تک محدود سمجھ بیٹھا۔

سات دن، 24گھنٹے متحرک اور تیز میڈیا ہمیں باور کراتا ہے کہ پاکستان میں وزیراعظم فعال ہیں۔ وزراء حرکت میں ہیں۔ اپوزیشن کچھ نہ کچھ فرما رہی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ صوبائی دارُالحکومتوں میں وزرائے اعلیٰ کی آنیاں جانیاں، اسمبلیوں میں شور شرابا دکھا دیا جاتا ہے۔ پاکستان 22 کروڑ جیتے جاگتے، سوچتے، بھاگتے، دوڑتے کچھ نہ کچھ کرتے محنت کش، کھلے دل والے انسانوں کا ملک ہے۔ اسکے سینکڑوں شہر ہیں، ہزاروں قصبے، لاکھوں دیہات۔ ایک طرف سرحدیں بھارت سے ملتی ہیں۔ دوسری طرف افغانستان، ایران اور چین سے۔ ایک اہم اور حساس محل وقوع، مشرقِ وسطیٰ، مشرق بعید، وسطی ایشیا کے لئے دروازہ۔ صدیوں سے یہ تہذیب، تمدّن اور علم و ادب کا گہوارہ ہے۔ یہاں سے مختلف قوموں کے لشکر سب کچھ روندتے گزرتے رہے ہیں لیکن یہ پھر اپنا دامن جھاڑ کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ بہت سی یورشیں برداشت کر چکا۔ متعدد حملہ آوروں کو راہ دے چکا۔ ان صدیوں نے اسے کتنی متنوع ثقافت بخشی ہے۔ کتنی لازوال عشقیہ داستانیں یہاں جنم لیتی رہیں۔ کتنے صوفیائے کرام نے یہاں وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے گیت گائے۔ عقیدت مندوں کے ہجوم ان کی درگاہوں پر حاضری دیتے رہے۔ یہاں کی سر زمین کتنے مختلف مناظر رکھتی ہے۔ گنگناتی ندیاں، اپنی ہی دُھن میں بہتے دریا، سبزے میں ڈھکے درخت اٹھائے پہاڑ۔ اونچے نیچے ٹیلے جہاں چاندنی راتوں میں آج بھی حسن و عشق کئی داستانیں رقم کرتے ہیں مگر ذوق و اشتیاق سے عاری میڈیا یہ حسین روح پرور پس منظر دکھانے سے عاری ہے۔ کیا دکھاتا ہے۔ وہی چہرے جن سے رعونت، کرپشن کی کہانیاں وابستہ ہیں۔ جن کے اجداد نے غیر ملکی استعمار کی خوشنودی میں اپنے ہم وطنوں کو پھانسی پر چڑھوا کر زمینیں حاصل کیں۔

واہگہ سے گوادر تک پھیلی ہوئی اس پاک سر زمیں میں کتنی عظیم قومیتیں صدیوں سے تہذیبوں کی پاسداری کر رہی ہیں۔ مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے عقائد کی ترویج کرتے آرہے ہیں۔ دینی مدارس برس ہا برس سے قال رسول اللہ کی صدائیں بلند کررہے ہیں۔ قرآن، حدیث، فقہ کی تدریس کررہے ہیں۔ ان میں کتنے جید علماء ہیں۔ جو کسی سرکاری منصب کی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ کی پیروی میں خوش ہیں۔ ان کے طالب علم کسی سیاسی تحریک کا ایندھن نہیں بنتے۔ میڈیا ان سے اپنے ناظرین کو نہیں ملواتا۔ یہاں کی علم و دانش سے بھرپور نشستیں نہیں دکھاتا۔

اب تو شہر شہر کتنی یونیورسٹیاں علم کی روشنی پھیلا رہی ہیں۔ ترقی کے نئے راستے تلاش کیے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اجمل خان جیسے سائنسدان، سندھ کے ریگ زاروں کے خود رو پودوں پر تحقیق کر کے ان میں بیماریوں کا درماں تلاش کرچکے۔ وہ دل کے ہاتھوں مجبور رخصت ہو جاتے ہیں تو چند سطری خبر میں صرف ان کا کراچی یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہونا بتایا جاتا ہے۔ برسوں کی عرق ریزی سے انہوں نے ملک کے لئے جو اکسیر ایجاد کی۔ اس کا ذکر کہیں نہیں ہوتا۔کیا اکیسویں صدی کے افق پر صرف سیاسی ستارے ہی چمکتے ہیں۔ سیاست کا شعبہ ہی متحرک ہے۔ کیا 22کروڑ کے ہیرو صرف موجودہ یا سابق وزیر ہی ہیں۔ وہی شہزادے شہزادیاں جن کے بزرگوں سے صرف لوٹ مار کے قصے منسلک ہیں۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ ان کی تعلیمی فکر کیا ہے۔ سائنسی پالیسی کیا ہے۔ کیا کسی نے تجویز کیا کہ نواز شریف کا فلسفۂ حیات کیا ہے۔ آصف زرداری کا حکمرانی کا نظریہ کیا ہے۔ لاہور سے کوئٹہ تک کتنے کارخانے، لیبارٹریاں کام کررہی ہیں۔ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہیں۔ آرٹس کونسلیں ہیں۔ ادبی ثقافتی انجمنیں ہیں۔ کتنے مالیاتی ادارے ہیں۔ ان میں مسلسل کام ہورہا ہے۔ کبھی کبھی کوئی غیر معمولی کام بھی ہوتا ہوگا۔ کیا وہ جاننا عوام کا حق نہیں ہے۔ ناول لکھے جارہے ہیں۔ اعلیٰ شاعری ہورہی ہے۔ کسی ناول نگار سے بات ہوتی ہے نہ کسی شاعر سے انٹرویو۔

پارلیمنٹ سے باہر دانش بکھری ہوئی ہے۔ روشنی دیتے تجربے سانس لے رہے ہیں۔ کتنے ریٹائرڈ وائس چانسلر، پروفیسرز، اسکالرز جن کی راتیں سوز و ساز رومی میں گزرتی ہیں۔ یا پیچ و تاب رازی میں۔ ان کی نیت درست ہے۔ اپنے وطن اپنے مستقبل کے بارے میں اپنے وسیع علم کی روشنی میں بہت سی ٹھوس تجاویز۔ بہت سے ڈسپلن ان کے ذہن میں ہیں۔ ان سے رابطہ کوئی نہیں کرتا۔ ٹاک شوز میں جو ریٹائرڈ افسر دکھائی دیتے ہیں وہی جب حاضر سروس تھے اگر اس وقت انہی زریں خیالات پر عمل کرتے جو آج ہمیں بتاتے ہیں تو یہ ملک اس حالت میں نہ ہوتا۔ ریٹائرڈ ماہرین تعلیم، ماہرینِ نفسیات، زرعی ماہرین کو نہیں بلایا جاتا۔ جن کے دن رات ان موضوعات پر تحقیق کرتے گزرتے ہیں۔ بہت سے لوگ تو ان ٹاک شوز کے لئے اسلام آباد میں ہی آباد ہو گئے ہیں۔ دوسرے شہروں، قصبوں میں دیہات میں کیا کوئی اہل دانش نہیں ہے۔ ان چند ہزار کے علاوہ 22کروڑ میں کیا کوئی عقل کی بات نہیں کر سکتا۔

پہلے مورخین یہ غلط راستہ اختیار کر چکے ہیں کہ تاریخ صرف بادشاہوں، حکمرانوں، قبائلی سرداروں تک محدود رکھی گئی۔ اشوکا کا دَور، غلاموں کا دَور، مغلیہ دَور، انگریز دَور حالانکہ اصل تاریخ تو یہ ہے کہ پتھر کا دَور کب تک رہا۔ پہیے کا دَور کب شروع ہوا۔ چمنیوں سے دھوئیں کا دَور، کچے راستوں۔ سڑکوں، شاہراہوں پھر موٹر وے کا دَور۔ پھر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دَور۔ ہم وقت کو اس پیمانے سے کیوں نہیں ناپتے۔ شخصیتوں کے حوالے سے کیوں جانتے ہیں۔ ملک میں کتنے ذہن رسا رکھنے والے انجینئر، ڈاکٹر، سوشیالوجسٹ، سائیکالوجسٹ، نیورولوجسٹ ہیں۔ ان کا حرفِ دانش تقدیریں بدل سکتا ہے۔ ملک کی بیماریاں ہوں یا افراد کی۔ تحقیق اور دوائوں سے ہی ان کا علاج ہو سکتا ہے۔

صحافت آج کی تاریخ اسی روز قلمبند کرنے کا منصب ہے۔ کیا ہم تاریخ لکھ رہے ہیں یا مسخ کررہے ہیں۔ کسی بریک میں یہ سوچئے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین