• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’مرزا قلیچ بیگ‘ سندھ کے شیکسپیئرجو مصنف کے علاوہ ڈرامہ نگار بھی تھے

سندھ کی معروف علمی شخصیت مرزا قلیچ بیگ جو 90سال قبل اس دار فانی سے رخصت ہوگئے تھے ، ان کی یادیں آج بھی علم دوست شخصیات کے دلوں میں تازہ ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ہر سال سندھ کی مختلف ادبی و سماجی انجمنوں کی جانب سے تقریبات اور سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں شعر و ادب کے حوالے سے ان کےکارناموں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ مرزا قلیچ بیگ کی تمام زندگی سندھی ادب اورزبان کی خدمت میں گزری ہے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر 465کتابیں تصنیف کیں، ان کی تحریروں کا بیشتر حصہ ڈراموں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے برطانیہ کے شہرہ آفاق ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کے آٹھ ڈراموں سمیت مختلف زبانوں میں لکھے گئے ڈراموں کاسندھی زبان میں ترجمہ کیا جبکہ 32 ڈرامے خود تحریر کیے۔ ان ڈراموں میں مزاحیہ ،عشقیہ،تاریخ ،سماجی مسائل سمیت دیگر موضوعات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مرزا قلیچ بیگ کو سندھی ڈراموں کا شیکسپیئر کہا جاتاہے ۔ انہوں نے1880میں پہلا ڈرامہ’’ لیلی مجنوں‘‘ ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا جب کہ ان کا آخری ڈرامہ’’ موہنی‘‘ تھا جس کا 1924میں ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا ۔پی ٹی وی پر مرزا قلیج بیگ کے دو ناول جن میں زینت اور گلن واری چوکری (پھولوں والی لڑکی) کی ڈرامائی تشکیل دی تھی۔ مرزا قلیج بیگ کے ڈرامے منشی اور کوڑو نوٹ (جعلی نوٹ ،کرنسی )ان کے حقیقی ڈرامے کہلاتے ہیں، جو مزاحیہ انداز میں تحریر کیے گئے تھے۔

مرزا قلچ بیگ کے آباو اجداد کا تعلق جارجیا سے تھا، جو سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ ان کے داداجارجیا کے صوبے ’’کاخیٹیا ‘‘ میں فوج کےمسیحی ونگ میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ایرانی بادشاہ نادر شاہ اور عثمانی خلیفہ میں جنگ کے بعد نادر شاہ نے جارجیا پر قبضہ کرلیا۔ مرزاقلیچ بیگ کے دادا اور والد ’’سڈینی‘‘ ایرانی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے۔ سڈینی کوایرانی امیر،مرزا خسرو بیگ کے ہاتھوں ایک غلام کی حیثیت سے فروخت کردیا گیا،جو کچھ عرصے بعد سندھ منتقل ہوگیا ۔ خسرو بیگ کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر،سڈینی نے اسلام قبول کرلیا اور اس کا اسلامی نام فریدون بیگ رکھا گیا۔ مرزا خسرو بیگ نے اپنی غلامی سے آزاد کرکےاپنی بیٹی سے مرزا فریدون کی شادی کردی۔ بعد ازاںوہ سندھ میں تالپور سلطنت کے بانی ، مرزا طلا خان کی ملازمت کرتے رہے۔ سندھ پر انگریزوں کے قبضے اور تالپور حکومت کے خاتمے کے بعد فریدون بیگ حیدرآباد کے مضافات میں ایک دورافتادہ گاؤں، ٹنڈوٹوڑھو منتقل ہوگئے جہاں 4اکتوبر 1853ء کو مرزا قلیچ بیگ کی پیدائش ہوئی۔ مرزا قلیچ بیگ نےابتدائی تعلیم خانگی ،مکتب میں اخوند شفیع محمد سے قرآن شریف سے شروع کی اس کے بعد حیدرآباد میں ایک سندھی اسکول میں داخلہ لیا ۔وہاں پر سندھی زبان سمیت فارسی اور عربی زبان کی بھی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول حیدرآباد میں داخلہ لے لیا ۔1872ءمیں انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا، جس کے بعد انہوں نے الفنسٹن کالج بمبئی میں داخلہ لے لیا۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سندھ واپس لوٹے۔ حصول علم کے دوران انہوں نے ترکی ، انگریزی اور روسی سمیت دنیا کی متعدد زبانوں میں مہارت حاصل کرلی۔

1879 میں ریونیو محکمے میں ہونے والے امتحان میں شریک ہوئے اور، وہ واحد امیدوار تھے جنھوں نے یہ امتحان پاس کرلیا اور انھیں ہیڈ منشی کے طور پر بھرتی کرلیا گیا۔ 1882 میں انہیں ترقی دے کر مختار کار بنا دیا گیا۔ ان کی پہلی پوسٹنگ مٹھی میں کی گئی، جو اب ضلع دادوکا حصہ ہے۔1891 میں محکمہ کی طرف سے ہونے والے امتحان میں شریک ہوئے اور اس میں پاس ہونے کے بعد انھیں سٹی مجسٹریٹ بنادیا گیا۔ اسی دوران انھیں ڈپٹی کلکٹر کا چارج بھی دیا گیا جس کا دفتر شکارپور میں تھا، کیونکہ اس وقت لاڑکانہ اور دوسرے علاقے شکارپور ضلع میں آتے تھے۔ وہ سندھ کے کئی اضلاع میں ڈپٹی کلکٹر کے طور پر کام کرتے رہے اور اپنے علمی اور ادبی سفر کو بھی ساتھ ساتھ چلاتے رہے۔ تیس سال تک سرکای خدمات انجام دینے کے بعد 1910ء میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

مرزا قلیچ بیگ نے آٹھ مختلف زبانوں میں 457 کتابیں تصنیف، تالیف و ترجمہ کیں، ان میں عربی، بلوچی، انگریزی، فارسی، سندھی، سرائیکی، ترکی اور اردو زبانیں شامل ہیں۔ ان کی کتب تاریخ، لطیفیات، شاعری، بچوں کا ادب، تنقید، سائنس کے علاوہ لاتعداد موضوعات پر مشتمل ہیں۔ انہوں نے’’ زینت ‘‘کے نام سے پہلا سندھی ناول اور ابتدائی سندھی ڈراموں میں سے ایک’’ خورشید‘‘لکھا۔ مرزا قلیچ بیگ کی شاہ عبداللطیف بھٹائی کی سوانحِ حیات اور شاعری پر ان کی تصانیف سندھی ادب میں ایک بڑی شراکت اور سندھی زبان میں ادبی تنقید کا آغاز تصور کی جاتی ہیں۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے چچ نامہ کا فارسی سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے شیکسپیئرکے لاتعداد ڈراموں کو سندھی زبان کے قالب میں ڈھالا۔مرزا قلیچ بیگ نے سندھی ادب کی 385 کتابیں لکھ کردنیائے ادب میںانقلاب برپا کردیا۔ ان کتابوں میں نثر اور شاعری بھی شامل ہے۔ کچھ کتابیں ان کی زندگی میں اور کچھ بعد شائع ہوئیں ۔ان کی علمی اور ادبی خدمات کے صلے میں انھیں 1906 میں قیصر ہند کےلقب سے نوازا گیا تھا۔ 1924 میںبرطانوی سرکار کی طرف سے انہیں شمس العلما اور خان بہادر اور سندھ کے عوام نے انھیں فادر آف سندھی لٹریچر اور سندھ کا شیکسپیئر کے خطابات دیئے۔ 74برس کی عمر میںوہ 3جولائی 1929 کو حیدرآباد میں اپنے آبائی گاؤں میں انتقال کرگئے۔

مرزا قلیچ بیگ کےناول’ ’زینت‘ ‘ نے بڑی شہرت حاصل کی اور اسے پاکستان ٹیلی ویژن نے ڈرامائی شکل دی، جسے عبدالکریم بلوچ نے پروڈیوس کیا تھا۔ ایک ڈرامہ کی کتاب جسے روسی ادیب گوگول نے لکھا تھا، اس کا سندھی زبان میں ترجمہ کرکے سندھی ادب کو ایک عظیم تحفہ پیش کیا۔ ان کی اپنی سوانح حیات ’’ ساؤ پن کارو پنو‘‘ بھی ایک بڑا شاہکار ہے۔انہیں شاہ عبداللطیف بھٹائی سے دلی عقیدت تھی ۔ انہوں نے بھٹائی کےشعری مجموعے کو اکٹھا کرکے احوال شاہ لطیف، شاہ جو رسالو، لطیفی لغات، شاہ جے رسالے جس کنجی، وغیرہ لکھیں، اس کے علاوہ سندھ کے کلاسیکل شاعروں کی شاعری کے مشکل الفاظ کے معنی کی کتاب لغات قدیمی بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ان کی ادبی خدمات سندھی ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

تازہ ترین