• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب پیپلز پارٹی حکومت نے مقامی حکومتوں کے نظام کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا میں اس کا سب سے بڑا ناقد تھا۔ یوسف رضا گیلانی کی کابینہ کا جونیئر وزیر ہونے کے باوجود میں نے اپنی تشویش کا اظہار کیااور صدرِ مملکت اور وزیراعظم صاحب سے گزارش کی کہ مقامی حکومتوں کا نظام تبدیل نہ کیا جائے بلکہ میں نے تحصیل میئر اور ضلع اور تحصیل کی سطح تک اختیارات کی تقسیم کیلئے براہ ِراست لوکل گورنمنٹ الیکشنز کی تجویز پیش کی۔

میری دلیل یہ تھی کہ اٹھارہویں ترمیم نے صوبائی خودمختاری کا مسئلہ حل کردیا ہے۔ اس سے پہلے پرویز مشرف دور کی یہ ایک بہت بڑی خامی تھی کہ مرکزی اختیارات کی تقسیم کے بغیر صوبائی اختیارات کوضلع کی سطح تک منتقل کردیاگیا۔ اب لوکل گورنمنٹ سسٹم ختم کرکے پی پی پی حکومت نے ایک فاش غلطی کی تھی۔ مرکز سے صوبائی وزرائے اعلیٰ کو تو اختیارات مل گئے، لیکن ضلعوں کو صوبے کی مداخلت سے بچانے کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ اس کے نتیجے میں وزرائے اعلیٰ کو بے پناہ مالیاتی اورانتظامی اختیارا ت مل گئے تھے۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو مالیاتی وسائل کی فراہمی عقل مائوف کردینے والی ہے۔ 2008 ء کے بعد سے صوبوں کو 13,453 ارب روپے ملے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟ سادہ الفاظ میں، اگر گزشتہ دس برسوں کے دوران پاکستانی گورننس کی کارکردگی کی جانچ کرنی ہوتو یہ وزرائے اعلیٰ ہیں جن پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مقامی حکومتوں کی غیر موجودگی میں وزرائے اعلیٰ بے تاج بادشاہ بن گئے، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

میری رائے میں چھ امور ایسے ہیں جن کی بنیاد پر ایک عام آدمی حکومت کی کارکردگی جانچ سکتا ہے۔ یہ خارجہ پالیسی، اقتصادی پالیسی، قانون کا نفاذ اور امن وامان، تعلیم، صحت اور میونسپل سروسز ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صرف دو شعبے، خارجہ پالیسی اور اقتصادی پالیسی، وفاقی حکومت کے پاس رہ جاتے ہیں۔دیگر تمام اہم شعبوں کا تعلق صوبوں سے ہے۔ چنانچہ اسلام آباد میں حکومت کی نوعیت بہت حد تک علامتی ہے، اصل اختیارات صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں۔

بدقسمتی سے ہم میڈیا یا گورننس کے ماہرین اور طلبہ کی طرف سے صوبائی گورننس کے ڈھانچے کا مطالعہ کرنے، اور اس میں اصلاحات تجویز کرنے کی کوئی کوشش نہیں دیکھتے ہیں۔ اگر ہم وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے رولز آف بزنس کا جائزہ لیں تو ہمیں واضح فرق دکھائی دے گا۔ وفاقی حکومت میں اختیارات وزیراعظم اور وزرا کے درمیان تقسیم ہیں،جبکہ صوبائی وزرائے اعلیٰ کی حیثیت ایک مطلق العنان بادشاہ کی سی ہے۔ صوبائی قانون ساز اداروں اورصوبائی انتظامیہ پر چیک اینڈ بیلنس کے فقدان کی وجہ سے وزرائے اعلیٰ کی طاقت مزید بڑھ جاتی ہے۔

اس نظام پر نظر ِثانی درکار ہے۔تو کیا ہم پرانے نظام کی طرف واپس چلے جائیں اوراٹھارہویں ترمیم ختم کردیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں متعارف کرایا گیا نیا لوکل گورنمنٹ سسٹم درست سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے، اگرچہ میں ذاتی طور پر اس کے وسیع پھیلائو کاناقد ہوں۔ میرے خیال میں یہ غیر ضروری پھیلائو دونوں مجوزہ نظاموں کو ناکام بنا سکتا ہے، لیکن پھر خیال آتاہے کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا دونوں براہِ راست تحصیل میئر منتخب کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، لیکن یونین کونسلز کو توڑ کر گائوں کی سطح پر کونسل قائم کرنا ایک ایسی خرابی کو دعوت دے گا جس کاخمیازہ ہمیں آنے والے برسوں میں بھگتنا پڑسکتا ہے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا کو دیکھتے ہوئے سندھ اور بلوچستان کومندرجہ ذیل اقدامات پر غور کرنےاور مقامی حکومتوں کے نظام کو قدموں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے متوازی ہمیں بیوروکریسی کو بہتر بنانا ہے، کیونکہ مقامی حکومتوں کے بہتر نتائج کیلئے پلاننگ اینڈ ورک ڈویژن کی صلاحیتوں میں اضافہ ازحد ضروری ہے۔ سرِ دست ہمیں دو اہم ایشوز کا سامنا ہے :پہلا یہ ہے کہ ہمارے پاس رقم کی کمی ہے، اور دوسرا یہ کہ ہم بہت زیادہ رقم ضائع کردیتے ہیں۔ میں یہاں واٹر سپلائی اسکیموں کے مواد کو بطور حوالہ پیش کرسکتا ہوں۔ پاکستان کونسل آف واٹر ریسرچ کے مطابق پاکستان میں واٹر سپلائی کرنے والی 83فیصد اسکیمیں غیر محفوظ پانی فراہم کررہی ہیں۔ یہی صورت ِحال تعلیم، صحت اور سڑکوں کے نظام کی ہے۔ منصوبوں کی جانچ کرنے سے ان میں روا رکھی گئی ناقص پلاننگ کا پول کھلتا ہے،اور ہمیں کوئی کارکردگی دکھائی نہیں دیتی۔

صوبائی حکومتوںکے رولز آف بزنس میں بہتری کی ضرورت ہے۔ چیف سیکرٹری کے عہدے کو تحلیل کرکے صوبوں کو ’’اسلام آباد ماڈل ‘‘پر چلایا جائے جہاں ہر وزارت اپنی فعالیت کی جوابدہ ہے۔ وزرائے اعلیٰ کے اختیارات میں حقیقت پسندی کی ضرورت ہے۔ وزیرِاعلیٰ ایک ٹیم کا کپتان ہوتا ہے، خود تمام ٹیم نہیں ہوتا۔ گزشتہ دس برسوں کی مثال اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے کہ ون مین ٹیم خود وزیراعلیٰ کی کارکردگی کیلئے تباہ کن ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کی کمیٹیوں کوفعال بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کمیٹیوں میں پیشہ ور ماہرین کو شامل کیا جانا چاہیے۔ حال ہی میں وفاقی حکومت نے وزیر کی معاونت کیلئے مخصوص پے اسکیل پر ایک مشیر کا عہدہ تخلیق کیا ہے۔ صوبوں میں بھی ایسا کیا جاسکتا ہے۔ایک آزاد کمیٹی ٹیکنکل وزارتوں کیلئے مشیر تعینات کر سکتی ہے۔ یہ اصلاحات کبھی کامیاب نہیں ہوں گی اگر وزارتوں میں اصلاح نہیں ہوتی اور ان کا دوسری وزارتوں کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم نہیں ہوتا۔ گورننس میں اصلاحات ملک کے بہتر مستقبل کیلئے بے حد اہم ہیں، لیکن صوبوں میں اصلاحات کے بغیر انہیں عملی طور پر نافذ نہیں کیا جاسکتا۔

تازہ ترین