ڈاکٹر الطاف قدیر
آج دنیا میں ایجادات اور تخلیقات کے نئے افق ابھر رہے ہیں۔ انسان کس طر ح سیکھتا،سمجھتا، اور عملی روپ کی منزلوں پر گامزن ہوتا ہے۔ ازخود مضامین کو مضامین سے ملا کر کئی رموز جاننے کیلئے تحقیق کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ مضامین کو مضامین کی وسعتوں سے ملانا یا transdisciplinary طریق کو اپنانا بھی ایک موثر راستے کے طور پر ماہرین کے سامنے آیا ہے۔ اب لسانیات ،ادب، آرٹ ،ریاضی سائنس اور ٹیکنالوجی کا سنگ ہمیں نت نئی ایجادات ،مثلاً انٹرنیٹ اور سیل فون وغیرہ سے جا ملاتا ہے۔ انٹر نیٹ کے ذریعہ معلومات کی ترسیل کا گویا ایک بگ بینگ (Big Bang)ہوا اور بہت سے عوامل ایک نئے ارتقاء کی راہ پر ہیں۔ آکسفور ڈ یونیورسٹی کے کارل بینڈکٹ فرے اور مائیکل اوزبورن کا اندازہ ہے کہ آئندہ چند دہائیوں میں تقریباً 47فیصد مزید پیشوں کو انٹرنیٹ کے محور پر لایا جا سکے گا ( تفصیل کیلئے (The Economist June28.2014) دنیا کے نئے موسم کیا ہوں گے، زندگی کے نئے انداز اپنے ساتھ کیا پیغام لائیں گے۔ دیکھئے کیا اور کیسی ،تبدیلی کے نئے زمانے لائیں گے۔ یوں ہی خیال ابھرتا ہے ہم کہیں مشاعروں میں wwwکی صدا بھی نہ سننے لگیں۔ یعنی واہ، واہ، واہ کوا ختصار سے کہنے لگیں۔ www:
اردو زبان کی بعض وسعتوں کو دیکھتے ہوئے، حضرت خواجہ میر درد کی یہ تحریر یاد آتی ہے کہ ’’ اے اروو گھبرانا نہیں ،تو فقیروں کا لگایا ہوا پودا ہے۔ خوب پھلے پھولے گی ، تو پروان چڑھے گی، ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ قرآن حدیث تیری آغوش میں آ کر آرام کریں گے۔ بادشاہی قانون اور حکیموں کی طبابت تجھ میں آ جائے گی اور تو سارے ہندوستان کی زبان مانی جائے گی‘‘ میخانہ درد
اردو زبان پر بھی نئی ایجادات کے اثرات اور تحقیقات کے نئے دریچے کھلنے لگے ہیں۔ لسانیات اور کمپیوٹر کے ملاپ سے ایک نئے مضمون کی صبح ہوئی جسے اب Computational Linguisticsکے نام سے جانا جاتاہے۔ بہت سے ممالک اس نئے مضمون کی مدد سے اپنی زبان پر تحقیق کے کام کو آگے بڑھا رہے ہیں کارپس(Corps) سے وابستہ لسانیات پر تحقیق کے علم میں اس زبان میں استعمال ہونے والے الفاظ کا ایکٹ ذخیرہ یا بینک مخصوص ترتیب کے ساتھ بنا لیا جاتا ہے، پھر الفاظ کے مختلف انداز میں استعمال کی شرح کا شماریاتی تجزیہ کیا جاتا ہے، جو لسانی ترتیب کے نقوش اور سانچے سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ مثال کے طور پر کون سے الفاظ کہاں زیادہ استعمال ہوتے ہیں اور کہاں کم۔ اب تو انگریزی زبان میں Collocations Dictionaryبھی منظر عام پر آ گئی ہے۔
اردو زبان کے بارے میں لسانیات کے ان نئے انداز تحقیق سے فائدہ اٹھانے کا کام بعض اداروں میں دلچسپی کا باعث بنا ہے، تاہم ابھی نئی منزلوں کے لئے جدوجہد کا مزید سفر ہوتا ہے۔
جرمنی کی کانسٹینز یونیورسٹی (University of Konstanz) میں Par Gramکے نام سے ایک تحقیقی پروجیکٹ میں اردو کے بارے میںاہم اور دلچسپ تحقیقی کا کام ہوا ہے۔اسی طرح جنوبی ایشیا میں بھی اس سمت تحقیق کا رجحان رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے۔اردو کے بارے میں تحقیقی کام مغربی ممالک کی جامعات میں بھی کئی انداز سے جاری ہے (اگرچہ تمام کا ذکر تو یہاں ممکن نہیں ہے تاہم دنیا کی جامعات میں اردو کے بارے میں کیا تحقیق ہو رہی ہے، یہ سوال خود تحقیق چاہتا ہے)جاپان کی ٹوکیو یونیورسٹی میں اردو اسٹڈیز کا شعبہ بھی قائم ہے۔ اس شعبہ کی ویب سائٹ پر ہندی اور اردو کے بارے میں درج ہے کہ یہ دنیا کی تیسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔اس سے پہلے چینی زبان اور انگریزی زبان کا نمبر ہے۔ ( ویب سائٹ پر جب دیکھا گیا یہ معلومات اس بنا پر ہے) ویسے بعض اور موازنوں میں زبانوں کے زیادہ بولنے والوں کی تعداد میں قدرے فرق بھی ہو سکتا ہے۔
کینیڈا کی میکگل یونیورسٹی(McGill University) میں بھی اردو چیئر (Urdu Chair) قائم ہے۔ کینیڈا ہی کی ٹورانٹو یونیورسٹی کے مسی ساگا کیمپس میں بھی اردو زبان کو کچھ عرصہ قبل شامل کیا گیا ہے۔ برطانیہ کی لندن یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کے شعبے (SOAS) میں بھی اردو کے بارے میں تدریس اور تحقیق کا شعبہ طویل عرصہ سے قائم ہے۔ امریکہ کی شکاگو یونیور سٹی اور ٹیکساس یونیورسٹی(آسٹن) میں بھی اردو کا شعبہ قائم ہے۔ فن لینڈ کی ہلسنکی یونیورسٹی میں ’ورلڈ کلچر‘ کے شعبہ کی ویب سائٹ کے صفحہ اول پر اردو اخبار کا عکس شائع کیا گیا ہے۔ انٹر نیٹ کے سمندر میں دنیا کی اور بہت سی جامعات میں اردو کے بارے میں کئی علمی اور تحقیقی کام تلاش کئے جا سکتے ہیں۔اردو اور ہندی کے الفاظ آکسفورڈ کی انگریزی لغات میں بھی بتدریج بڑھ رہی ہے۔ 1901سے لیکر 2002ءتک کے دس ایڈیشن کے بارے میں یہ تحقیق جرمنی کی Heidelberg Universityہائیڈل برگ یونیورسٹی سے شائع ہوئی ہے۔ اس سو سال کے عرصہ میں اردو /ہندی کے بعض الفاظ کاانگریزی میں معنی بتانے کا انداز بھی بعض اعتبار سے قدرے بدل گیا ہے۔ اس تحقیقی میں زبانوں میں الفاظ کے باہر سفر کا بھی ذکر ہے۔ زبانیں زبانوں سے بھی الفاظ حاصل کرتی ہیں اور لسانی تبدیلیوں کا عمل جاری رہتا ہے۔بہار اردو کے جہان نو جابجا رنگ لئے ہیں۔اگر سب اردو کے چاہنے والے اپنے حلقہ اثر میں اردو کے عالمی فروغ اسے سماجی سطح پر مقتدر مقام دلوانے کیلئے قطرہ قطرہ دریا بن جائیں تو بہار اردو کے جہان نو میں نئی بہاریں آ جائیں۔
؎دل دعا کا ہو سمندر چاندنی ہوں دھڑکنیں
اردو ادب نے کن صدیوں اور کن ملکوں کا سفر کیا ہے اور آئندہ کس نہج پر عالمی رنگ میں بہتر تخلیقی کام ہو سکتے ہیں۔ اس بارے میں مختلف مضامین کو مضامین سے ملا کر بعض نئی منزلیں مل سکتی ہیں۔ اردو کے علمی، ادبی اور تحقیقی کاموں کو فروغ دینے کیلئے عالمی سطح پر کوئی انٹرنیشنل سینٹر قائم ہو جو جملہ کاوشوں کو حقیقی طور پر مربوط کر کے بہارِ اردو کے جہان نو سجا دے۔
؎کبھی ہیں خواب حقیقت کبھی حقیقت خواب