• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج دنیا بھر میں پاکستان کا یوم آزادی، کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی صورت منایا جارہا ہے۔ ملک میں جگہ جگہ پاکستانی جھنڈوں کی بہار ہے، ساتھ ہی کراچی سے خیبر تک ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے، فضاؤں میں بلند ہورہے ہیں۔ یوم آزادی کا جشن بھرپور جوش و خروش سےمنایا جارہا ہے، ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جشن کے اختتام پر قومی پرچم کی حرمت کا بھی خیال رکھیں۔

یوم آزادی کی آمد سے کئی دن قبل بازاروں میں ہر طرف سبز ہلالی پرچم کی بہار، اس کے رنگ کے ملبوسات اور بیجز دیکھ کر دل جذبہ حب الوطنی سےسرشار ہوا جاتا ہے۔ ہر پاکستانی جشن آزادی کی تیاریوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے، قومی جھنڈے ، جھنڈیاں اور بیجز کے ساتھ آزادی کے ملبوسات شوق سے خریدے جاتے ہیں۔ یوم آزادی پر بڑی شان وشوکت سے یہ بیجز سینے پر سجائے جاتے ہیں جبکہ سبز ہلالی پرچم گھروں اور گاڑیوں کی زینت بنائے جاتے ہیں۔ مگر افسوس کہ یوم آزادی کے اگلے دن یہی پرچم ، جھنڈیاں اور بیجز سڑکوں پر جابجا بکھرے پڑے دکھائی دیتےہیں ۔

زیرِ نظر مضمون میں قارئین کو یہ بتانا مقصود ہے کہ پرچم سے محبت کے ساتھ اس کی حرمت اور عزت وتکریم کا خیال رکھنا صرف 14 اگست ہی نہیں بلکہ سال کے 365دن ہر پاکستانی کا ملّی فریضہ ہے۔ اگرچہ پاکستانیوں کی ملک سے محبت ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے، اس لیے پورے وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ وطن کی عزت اور حرمت کے لیے جان ہتھیلی پر رکھتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جشن آزادی کے بعد جانے انجانے میں کہیں نہ کہیں ہم پرچم کی حرمت کا خیال نہیں رکھ پاتے۔

اپنے بچپن کا ذکر کروں تو فخریہ کہہ سکتی ہوں کہ والد محترم ہر برس جشن آزادی قریب آتے ہی بازاروں کے بجائے اپنی اٹیچی کا رُخ کیا کرتے تھے، جہاں انھوں نے جھنڈے اور جھنڈیاں محفوظ کی ہوتی تھیں۔ بچپن میں کئی مرتبہ ان سے ضد بھی کی کہ آخر ہم ہر سال دوسرے لوگوں کی طرح نئے جھنڈے جھنڈیاں کیوں نہیں خریدتے؟ جواب میں والد محترم سمجھایا کرتے تھے کہ’’ ابھی ان کو سنبھالنے والا صرف میں ہوں، جب تم سب بڑے ہوجاؤ گے تو زیادہ جھنڈے جھنڈیاں خریدیں گے کیوں کہ پھر زیادہ لوگ انھیں محفوظ کرپائیں گے‘‘۔ والد محترم کی پرچم سے محبت ہمارے دلوں پر بھی راسخ ہوگئی، ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گھر کی چھت اور گاڑیوں پر لہراتے پرچم اور جھنڈیوں کو اُتار کر اپنے پاس محفو ظ کرلیتے ہیں۔

جب ہم گھر کے باہر رُخ کرتے ہیں تو یوم آزادی پر جشن منانے کے لیے استعمال ہونے والے جھنڈے جھنڈیاں سڑک پر جابجا نظر آتے ہیں اور بعد میں یہی ندی نالوں اور کچرے کے ڈھیروں پر ملیا میٹ ہوتے دیکھے جاتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر طبیعت سخت مکدر اور دل افسردگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج یوم آزادی پر اس اہم موضوع کا انتخاب کرنے کا سوچا۔ہم معصوم بچوں کو قصور وار نہیں ٹھہراسکتے، یہ وہی کریں گے جو وہ ہمیں اپنے سامنے کرتا دیکھتے ہیں۔ ہم بڑے شوق سے بچوں کو جھنڈیاں ، جھنڈے ،بیجز اور ملبوسات تو دلوا دیتے ہیں لیکن انھیں یہ تعلیم دینا بھول جاتے ہیں کہ اس پرچم کی حرمت کا بھی خیال رکھنا ہے۔ نہ ہی انھیں پرچم کی تاریخ، اس کی اہمیت اور احترام کے تقاضوں کے بارے میں بتا پاتے ہیں۔ یہ تعلیم دینا تب ہی ممکن ہے جب آپ خود ان باتوں سے آگاہ ہوں اور ان پر عمل پیرا ہوں۔

پرچم کا مطلب علامت یا نشان کے ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلے پرچم استعمال کرنے کا رواج مصر میں شروع ہوا۔ پہلے پہل اسے گروہوں کے مابین جنگوں میں فوجوں کی شناخت کےلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ تاہم آج پرچم کی اہمیت پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ پرچم کسی بھی ملک، کسی بھی قوم یا تنظیم کے نظریے کا عکاس ہو تا ہے۔ پرچم سے دنیا کے تمام ممالک کی سیاسی و مذہبی سرگرمیوں اور کھیلوں کی ٹیموں کو پہچان ملتی ہے۔

قومی پر چم کسی بھی قوم کی عظمت کا نشان کہلاتا ہے، چنانچہ اس سے الفت اور محبت کچھ اس طرح سے کریں، جیسے یہ ماں کا آنچل ہو۔ بچوں کو جشن آزادی کے موقع پر یہ تعلیم دیں کہ قومی پرچم ہر لحاظ سے قابل احترام ہے، کسی بھی حالت میں اس کی بے حرمتی نہیں ہونی چاہیے۔ آزاد قومیں اپنے قومی پرچم کی عظمت کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتیں۔ جھنڈے، جھنڈیوں اور بیجز کی خریداری کے وقت جو جوش و جذبہ دکھایا جاتا ہے اور پھر انھیں سجاکر آزادی کا جشن منایا جاتا ہے، بالکل اسی طرح ایسے ہی شوق اور محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں جشن آزادی کے بعد سنبھال کر رکھیں کیوں کہ اپنے پرچم اور جھنڈیوں کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ کسی طور بھی اس کی بے حرمتی نہ ہونے پائے۔ اتنا حسین چاند تارے والا پرچم گاڑیوں کے نیچے نہ آئے اور انجانے میں پاؤں تلے نہ روندا جائے۔ بچوں پر واضح کریں کہ اگر ہم ہی اپنے جھنڈے کی عزت نہیں کریں گے تو کوئی اور کیسے کرے گا؟ اور کس طرح ہم آنے والی نسل کواس کی حرمت اور پاسداری کا درس دیں گے۔انھیں بتائیں کہ کس طرح ہر دور میں جھنڈے کا زمین پر گرنا نہایت بدشگون تصور کیا جاتاہے۔ ماضی میں جنگوں میں جھنڈے کا سرنگوں ہونا شکست تسلیم کرنے کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس عظمت والے پرچم کو جشن آزادی کے بعد گلیوں اور سڑکوں پر اُڑتا ہوا یا پیروں میں آتا دیکھا جائے؟

تازہ ترین