• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جنگ کے منڈلاتے بادل: حکومت اور اپوزیشن کو متحد ہونا ہوگا

یوں تو آزاد کشمیر سمیت پورے پاکستان میں 14اگست (یوم پاکستان) نہایت جوش وخروش اور ملی جذبہ کے ساتھ منایا گیا اور اس کے دوسرے روز 15اگست کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر قوم نے بھارت کے ساتھ اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے یوم سیاہ منایا۔ یقیناً ان دونوں دنوں نے بھارت کی ہٹ دھرمی کے خلاف قوم کو جو ایک ولولہ دیا وہ شاید 70سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا پاکستان میں 15اگست کو جس قدر جموں کشمیر کے جھنڈے لہرائے گئے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستان بھی وادی کشمیر جیسا نظر آنے لگا۔ بھارت کے خلاف ہر شخص نے اپنا حصہ ڈالا اور آج بھی بچہ بچہ کشمیر اور پاکستان کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار کھڑا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت اپوزیشن کشمیر کے مسئلے پر حکومت کے ساتھ متحد ہو کر کھڑی ہے لیکن اپوزیشن اندرونی طور پر بگڑتے ہوئے حالات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، ٹیکسوں کی بھرمار اور حکومت کے دیگر اقدامات پر چشم پوشی کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آرہی مسئلہ کشمیر ایک بار پھر زندہ ہوا ہے جو ابھی نظرسے ہٹتا ہوا نظر نہیں آ رہا اور یوں ملک نہایت نازک حالات سے گزر رہا ہے بھارت جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے ہم اس کا جواب دینے کے لئے ہر وقت تیار بھی نظر آ رہے ہیں۔ ان حالات میں وزیراعظم عمران خان کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ وہ اپوزیشن کے بغیر تنہا نظر آئیں گے۔ 1965ءمیں جب بھارت نے پاکستان میں جنگ مسلط کی تو اس وقت کے حکمران ایوب خان نے پہلا کام یہ کیا کہ اپوزیشن کو اپنے ساتھ ملایا اسے اعتماد میں لیا اور اپوزیشن لیڈروں سے ملاقاتیں کیں اور پھر ایوب خان نے اپوزیشن اور قوم کی حمایت کےساتھ بھارتی جارحیت کا کھل کر مقابلہ کیا اور کامیابیاں حاصل کیں اگرچہ بھارت کی طرف سے ابھی جنگ کرنے کی دھمکیاں اور بیانات ہی داغے جا رہے ہیں لیکن دشمن کے بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کس وقت کیا کر بیٹھے۔ ان حالات میں وزیراعظم عمران خان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے وہ اپوزیشن کو مکمل طور پر اعتماد میں لیں ان کو اس وقت مشوروں اور تجاویز کی ضرورت ہے بیوروکریٹس کے کندھوں پر بھارت کے ساتھ جنگ کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اس وقت اس نازک دور میں عمران خان کو نیب کی طرف سے پکڑ دھکڑ کو وقتی طور پر روکنا ہو گا جو سیاست دان اس وقت نیب کے حوالے سے حوالاتوں یا جیلوں میں ہیں انہیں قانونی طور پر ریلیف دیتے ہوئے اپنے ساتھ ملانا ہوگا۔ ملک کے تحفظ اور سلامتی کے لئے ان سے مشورے لینے ہوں گے ہمیں یقین ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جو اس ملک میں حکمرانی کر چکے ہیں وہ بھی مسئلہ کشمیر کی اہمیت اور آج پیدا ہونے والے حالات کو سمجھنے میں عبور رکھتے ہوں گے ان کے دور میں بھی کشمیر کے سلسلے میں کئی موڑ آئے ہوں گے اور انہوں نے اس کا حل بھی ضرور نکالا ہو گا۔ آج ایک بار پھر ان حضرات کے مشوروں کی ضرورت ہے۔ عمران خان آپ بھارت سے اکیلے جنگ نہیں لڑ سکیں گے اپوزیشن کو ساتھ ملائیں اور اپنے آپ کو مزید مضبوط بنائیں۔ ادھر اپوزیشن کو بھی چاہئے کہ وہ الگ اپنی ایک اینٹ کی مسجد نہ بنائیں وہ بھی اپنے اندر لچک پیدا کریں اب کسی کو سلیکٹڈ کہنے کا وقت نہیں ہے دشمن سر پر کھڑا ہے اپوزیشن اس وقت حکومت کو کمزور کرنے اور دشمن کی حوصلہ افزائی کرنے کے بیانات جاری کرنے سے بھی گریز کرے۔ سیاست کرنے کے لئے ابھی بڑا وقت ہے لیکن ملکی سلامتی کے لئے ہمیں سب کو مل کر سوچنا اور چلنا ہو گا۔حکومت نے 18اگست کو اپنی ایک سالہ کارکردگی پر مبنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے برملا یہ اعلان کر دیا کہ اس نے ایک سال میں درست پالیسیوں کا آغاز کر دیا ہے جبکہ اپوزیشن نے اس کو ماننے سے مکمل طور پر انکار کرتے ہوئے کہہ دیا کہ پاکستان ایک سال میں دوسرا مہنگا ترین ملک بن گیا اب مریم اورنگزیب نے کہہ دیا کہ مسلم لیگ (ن) حکومت کارکردگی پر جلد وائٹ پیپر جاری کرے گی اور اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان سارے مضامین میں فیل ہو چکے ہیں۔ مریم اورنگزیب کا کہنا اپنی جگہ لیکن اس وقت ملک میں جس قدر مہنگائی کا طوفان ہے امن وامان کی صورتحال مخدوش ہوتی جا رہی ہے۔ بیروزگاری کے سیلاب کے سامنے بند نہیں باندھا جا رہا۔ ٹیکسوں کی بھرمار سے تاجر حضرات پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ ڈالر سنبھل نہیں رہا، سونے کی قیمت ایک لاکھ روپے تولہ تک پہنچنے والی ہے یہ سب حالات کب اور کس طرح درست ہوں گے جبکہ پنجا ب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار بار بار یہ بیان دیتے ہوئے نہیں تھکتے کہ مہنگائی نہیں ہے اور اگر کہیں ہے تو اس پر کنٹرول نہیں ہے ان کے یہ بیانات کیا ظاہر کرتے ہیں ؟کہ ان کی گرفت پنجاب میں کمزور ہے۔ بیوروکریٹس ان سے تعاون نہیں کر رہے پرائس کنٹرول کمیٹیاں ان کے احکامات کی پروا نہیں کر رہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب متعدد بار اپنے صوبے کے ڈپٹی کمشنروں سے اپیل کرتے نظر آئے کہ وہ اپنے دفاتر سے باہر آئیں چھاپے ماریں، مہنگائی کرنے والوں کو پکڑیں انہیں حوالات میں بند کریں لیکن ان کی اس اپیل یا حکم کو کوئی خاص پذیرائی ملتی نظر نہیں آتی اور مہنگائی اور دیگر مسائل کے جنات بوتل کے اندر جاتے نظر نہیں آرہے۔ وزیراعلیٰ کو اس سلسلے میں کمرکسنا ہو گی خود بھی باہر نکلنا ہوگا پھر کام چلے گا ہاں انہوں نے پنجاب میں جو شجرکاری کا افتتاح کرتے ہوئے درخت اور ہر شہری کو دو دو پودے لگانے کے لئے فرمان جاری کیا ہے یہ ملک اور صوبے کے مفاد میں ہے ہمیں پانی اور آکسیجن کے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ شجرکاری کرنا ہو گی بے جا طور پر درختوں کو کاٹنے والوں کا بھی محاسبہ ضروری ہے۔ اس ملک میں جس بے دردی سے درخت کاٹے اور ضائع کئے گئے یہ ایک الگ تاریخ ہے اور اس سلسلے میں ایک مافیا بھی سامنے آیا جس کو سیاسی پشت پناہی بھی حاصل رہی اب اس قسم کے واقعات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

بھارتی جارحیت اور کشمیر پر قبضہ کے بعد بھارت کے خلاف جہاں ملک کی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں سرگرم نظر آئیں اور بھارت کو کچل دینے کا عزم رکھتے ہوئے انہوں نے اپنا کردار ادا کیا وہاں اب بھارتی کلچر کو کرش کرنے کے سلسلے میں بھی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں اداکاروں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور دیگر مکاتب فکر پر مشتمل کرش انڈیا کلچر محاذ کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ محاذ بنانے والوں کے سربراہ اداکار مسعود اختر اور سیکرٹری جنرل سماجی اور ثقافتی شخصیت عزیز شیخ سامنے آچکے ہیں۔ کرش انڈیا کلچر محاذ کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ اس ملک میں 70سال سے بھارتی کلچر کو پرموٹ کیا گیا۔ فلمی صفحات پر 95فیصد خبریں، تصاویر، تبصرے اور تجزیے صرف بھارتی کلچر کےلئے مخصوص تھے۔ بھارتی فلموں کی نمائش کو مدنظر رکھا جاتا رہا ہے ملک کی عوام کو بھارتی فلمیں دیکھنے پر مجبور کیا گیا ۔بھارتی وسائل کو سامنے لایا گیا۔ بھارت سے آنے والے ثقافتی وفود یا کسی واحد شخصیت کو پذیرائی ملتی رہی اور ایک خاص ایجنڈے پر ملک کے نوجوانوں اور نئی نسل کو گمراہ کیا جاتا رہا جبکہ ان تمام حربوں کی وجہ سے پاکستان کی فلم انڈسٹری کو اندھیروں میں دھکیل کر رائے مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی اداکار مسعود اختر کا کہنا ہے کہ اب ایسا نہیں ہونے دیں گے اس کے خلاف جدوجہد شروع کر دی گئی اور اس سلسلے میں ہر ضلع اور بڑے بڑے شہروں میں بھارت کے کلچر سے نجات اور آگاہی کے لئے سیمیناروں کا انعقاد کیا جائے گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین