• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امین صدرالدین بھایانی

یہ 70ء کی دھائی کے اواخر کے سالوں کی بات ہے۔ ہم کراچی میں نواب مہابت خانجی روڈ پر واقع کے پی ٹی گراؤنڈ موجودہ کے پی ٹی اسپورٹس کامپلیکس کے عین سامنے کھارادر کے علاقے پنجابی کلب میں رہا کرتے تھے۔ ہمارے گھر کی بالکنی سےسامنے کے پی ٹی گراؤنڈ نظر آتا تھا ، وہیں بائیں ہاتھ پر زرا ہی دور پورٹ ٹرسٹ ہالٹ نامی ایک بہت ہی چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن بھی دکھائی دیتا تھا، جہاں سے کراچی سرکلر ریلوے کی لوکل ٹرینیں گزرا کرتی تھیں۔

کراچی سرکلر ریلوے، جس کے نام سے ہی ظاہر ہے کراچی کے گرد ایک دائرہ بناتی ہوئی گزرتی تھی، اگر آپ کسی بھی اسٹیشن سے کسی بھی طرف کو جانے والی لوکل ٹرین پر سوار ہو جاتے تو وہ ٹرین آپ کو پورے کراچی کی سیر کرواتی ہوئی بلا آخر اُسی ریلوے اسٹیشن پر واپس لے آتی، جہاں سے آپ اُس پر سوار ہوئے تھے۔

لوکل ٹرین پر سوار ہو جاتے اور وہ پورے کراچی کی سیر کروادیتی

ابُو مرحوم کو ٹرین اور ٹرین کا سفر بہت پسند تھا۔ اِس بات کا اندازہ یوں لگائیں کہ وہ اکثر رات کے کھانے کے بعد مجھے اپنی لال رنگ کی ہنڈا ففٹی موٹر سائیکل پر سوار کروا کر گھر سے کچھ ہی دور واقع آئی آئی چندریگر روڈ پر حبیب بنک پلازہ کی عمارت کے عین سامنے قائم انگریروں کے دور کے چٹانوں کے بڑے بڑے پتھر کاٹ کر بنائے گئے ریلوے پل پر لے جاتے اور پھر ہم دونوں باپ بیٹا اُس پُل سے کچھ ہی دور سٹی اسٹیشن کی تیز روشنیوں میں وہاں پر کھڑی ریل گاڑیوں اور ارد گرد کی پٹریوں پر ڈیزل اور موبل آئل کی تیز بُو والا سیاہ دھواں اُڑا کر شنٹنگ کرتے ریلوے انجنوں کو دیر تک دیکھا کرتے۔

ابّو مرحوم کو سیر سپاٹوں کا بھی بہت شوق تھا۔ جہاں فرصت میسر ہوئی وہ اپنی لال ہنڈا ففٹی موٹر سائیکل پر سوار ہو کر کراچی کے گلی کوچوں اور بطورِ خاص ان علاقوں کی سیر کو نکل جاتے جہاں، انہیں سڑک پر بچھے پرانی کتابوں کے پتھاروں کے ملنے کا امکان ہوتا۔ مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ وہ اس سلسلے میں ٹاور، بولٹن مارکیٹ، کھوری گارڈن، ریگل صدر، رنچھوڑلین، پہلی چورنگی ناظمِ آباد، برکاتِ حیدری، حتیٰ کہ جبیب بنک سائیٹ، پاپوش نگر، بڑا میدان، چھوٹا میدان، حسن اسکوائر چورنگی اور نہ معلوم کہاں کہاں تک جا کر وہاں موجود کتابوں کا کھنگالا کرتے، انہوں نے اس طرح کتابوں کا ایک ذخیرہ جمع کرلیا تھا جو کہ زیادہ تر انگریزی میں ہوا کرتی تھیں۔

اکثر چھٹی والے دن جو اگر کہیں اور جانے کا موڈ نہ ہو رہا ہو تو پھر وہ مجھے صبح ہی صبح گھر کے سامنے والے پورٹ ٹرسٹ ہالٹ کے اسٹیشن دوڑا دیا کرتے کہ جاؤ اور ٹکٹ گھر سے معلوم کر کے آؤ کہ اگلی گاڑی کتنے بجے آئے گی اور آخری اسٹیشن کے ٹکٹ بھی خرید لینا۔ چونکہ خود مجھے بھی اُن کی طرح سے ٹرین اور ٹرین کے سفر سے بھرپور لگاؤ تھا، لہذٰا میں دوڑتا ہوا جاتا، دوڑتا ہوا آتا اور اپنے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں اُنہیں اگلی گاڑی کے آنے کے وقت سے آگاہ کرتا۔

امی، ابو کا پروگرام سنتے ہی کھانے پینے کے لیے اتنا کچھ بنا لیتں کہ ہمیں اُس سارے سفر کے دروان باہر سے کچھ بھی لے کر کھانے کی ضرورت تک محسوس نہ ہوتی۔ ہم پورٹ ٹرسٹ ہالٹ کے اسٹیشن سے ریل گاڑی میں سوار ہوتے جو کراچی کے گرد دائرے میں سفر کرتی ہوئی پانچ چھ یا اُس سے بھی کچھ زائد گھنٹوں میں ہمیں واپس وہیں لے آتی کہ جہاں سے ہم سب اُس پر سوار ہوتے۔

مزے کی بات تو یہ تھی کہ اُس سارے سفر کے دوران ابّو کتاب پڑھتے رھتے اورگاہے بہ گاہے اپنی نظریں کتاب سے اٹھا کر ریل گاڑی کی کھڑکی کے باہر تیزی سے دورٹے ہوئے مناظر پر ڈالتے جاتے گو کہ میں بھی گھر سے اپنے ہمراہ دو تین من پسند کتابیں لے کر چلتا اور ابّو کی تقلید میں اپنی سیٹ پر بیٹھ کر کتاب پڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹرین کی کھلی کھڑکی سے دوڑتے بھاگتے نظاروں کو وقفے وقفے سے دیکھتا جاتا لیکن پھر جلد ہی اُکتا کر کتاب بند کر دیتا اور پوری یکسوئی کے ساتھ لوہے کی دو عمودی سلاخیں لگی بڑی سی کھلی کھڑکی پر اپنی ٹھوڑی ٹکا کر باہر نظر آتے والے مناظر کو بڑی ہی محویت کے ساتھ تکنے لگتا۔

ہم جیسے ہی اپنے مقامی اسٹیشن سے گاڑی میں سوار ہوتے تو آمنے سامنے نصب دو سیٹوں پرسب لوگ براجمان ہوجاتے۔ شاید بہت سے پڑھنے والوں کو یاد ہو کہ اُس دور میں کراچی کی لوکل ریل گاڑیوں میں لکڑی کی پٹیوں سے بنے بینچ نصب ہوا کرتے تھے ،جس میں ایک لکڑی کی پٹی کے کچھ فاصلےبعد بعد لکڑی کی دوسری پٹی نصب ہوتی ،جبکہ چند بوگیوں میں آمنے سامنے کشن والے سیاہ ریگزین سے آراستہ آرام دہ صوفے نما سیٹیں بھی ہوا کرتیں۔ ہم کوشش کر کے کوئی ایسی ہی بوگی تلاش کرتے اور پھر جیسے ہی ریل گاڑی چلتی تو امی گھر سے لایا ہوا اپنا عمرو عیار کی زنبیل جیسا اسٹین لیس اسٹیل کا بڑا سا ٹفن کیرئیر کھولتیں اور پھر اُس میں سے برآمد ہونے والی سوغاتیں ہم دورانِ سفر مسلسل تھرماس میں بھری چائے کے ہمراہ نوشِ جان کرتے جاتے اور امی کی ہاتھ کے ذائقے، ریل کے دلفریب و مسحور کن سفر اور شہر کراچی کے مضافاتی علاقوں کے حسین مناظر کی شان میں قصیدے پڑھتے جاتے۔اکثر ایسا بھی ہوتا کہ ہماری طرح کا کوئی خاندان جو کہ چھٹی والے دن کا لطف اٹھانے کی غرض سے ریل گاڑی کے اُس "ٹور ڈی کراچی" میں ہمارا بوگی نشین ہوتا اور دیکھتے ہی دیکھتے جو معاملہ بچوں کے باہمی کھیل کود سے شروع ہوتا وہ خواتین کی باہمی گفتگو اور پھر مرد حضرات کی باہمی دلچپسی کے امور پر اظہار خیال سے ہوتا ہوا تبادلہِ اشیاء خوردونوش تک جا پہنچتا اور پھر سب آپس میں یوںشیرو شکر ہوجاتے، جیسے اُن خاندانوں کے مابین ہونے والی آج یہ کوئی اتفاقیہ ملاقات نہ ہو بلکہ برسوں کا دوستانہ رہا ہو۔ کیا بتاؤ ، کیا دلکش منظر ہوتا تھا۔

ریل گاڑی چھک چھک چھک چھک کرتی بقول ابّو "چبل پور کے چھ چھ پیسے" کے مدھر گیت کی تانیں اڑاتی ہوئی اپنی نپی تلی رفتار سے چلی جاری ہوتی۔ کھڑکیوں سے آتے بھیگی نم آلود ٹھنڈی ہواؤں کے دبیز جھونکے بوگی میں سوار افراد کے بالوں کو رقصاں رکھتے۔ ہم بچے بالے یا تو سیٹوں پر بیٹھے "اکڑ بکڑ بمبے بو"، لوڈو، تاش یا "کوا اڑا-بھینس اڑی" جیسے کھلیوں میں مگن ہو جاتے۔ خواتین باہم گھریلو و امورِ خانہ داری نوعیت کی گفتگو میں مشغول ہوتیں۔ مرد حضرات میں موسمی تغیرات، ملکی سیاست، زیرِنمائش نئی فلموں اور ان میں کام کرتے فنکاروں کے ماضی کی یادگار فلموں اور اُن کے شہکار گیتوں پر بھرپور بحث و مباحثہ ہو رہا ہوتا۔ بوگی کے کسی کونے پر لگی نشست پر بیٹھے چند منچلے ٹرانزسٹر ریڈیو پر ریڈیو پاکستان کراچی سے نشر ہونے والے فلمی گیتوں سے دلپشوری کر رہے ہوتے اور بوگی کی فضاء میں مہدی حسن مرحوم کی مدھر آواز گونج رہی ہوتی۔

ملکی و سیاسی صورتحال پر ہونے والی اُن بحثوں میں ابّو اکثر اپنے مخالفین جو کہ زرا سا بھی پاکستان یا پھر قیامِ پاکستان کی مخالفت میں کوئی ہلکی پھلکی سی بھی اختلافی بات کرتا یہ کہہ کر ہمیشہ ہی لاجواب کر دیا کرتےکہ۔"ارے صاحب، بس آپ دیکھتے جائیں، ماشاءاللہ اس وقت بھی پاکستان اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے مقابلے میںخوش حال اور ترقی یافتہ ہے۔ آنے والے وقتوں میں پاکستان اور مذید آگے جائے گا، حالات موجود صورتحال سے کہیں اور زیادہ بہتر ہوں گے اور انشاءاللہ ہم بہت ترقی کریں گے"۔

گو کہ ابو کی پیدائش 1942ء میں بھارتی ریاست گجرات کے شہر بھاؤنگر میں ہوئی تھی اور پھر وہ چھوٹی عمر میں اپنے والدین اور دیگر بہن بھائیوں کے ہمراہ ہجرت کر کے اولین شکار پور، سندھ چلے آئے اور بعدازاں وہاں سے کراچی کا رُخ کیا۔ اپنی جنم بھومی ہونے کے اعتبار سے وہ اپنی جائے پیدائش کو اکثر یاد کیا کرتے لیکن انہیں بطورِ خاص کراچی سے بے حد لگاؤ تھا اور وہ اُس کے گوشے گوشے سے واقف تھے۔

بحرکیف، گاڑی جب کسی اسٹیشن پر رکتی تو وہاں موجود کنسیشن اسٹینڈس پر زور زور سے بجتے فلمی نغمات کی گونج ٹرین کی کھڑکیوں سے کبھی تیز اور کبھی مدھم ہوتی اندر داخل ہوتی۔

گاڑی کے رکتے ہی اُن گیتوں کے ساتھ دیگر آنے والیں دیگر آوازیں کچھ یوں ہوا کرتی تھیں،۔ "چائے والا، چائے والا، چائے والا"، "گجک کراری ہو رہی ہے"، "گرما گرم سموسے، آلو کے گرما گرم سموسے لے لو بھائی"، امرود لے لو، ملیرکا، لاڑکانہ کا، امرود لے لو" "، حکیمی منجن، ہلتے، دکھتے، پیلے اور پایوریا والے دانتوں کا اکیسر علاج، کمپنی کی مشہوری کے لیے صرف اس ٹرین میں رعایتی قیمت پر دستیاب ہے، ایک روپیہ، ایک روپیہ، ایک روپیہ، آواز دیکر طلب کریں"۔

ہماری ریل گاڑی چھک چھک چھک کرتی، سیٹی بجا بجا کر گاڑھا سیاہ دھواں اڑاتی پورٹ ٹرسٹ ہالٹ کے چھوٹے سے اسٹیشن کو دور پیچھے چھوڑتی ہوئی سائیٹ اور ماری پور روڈ کو جانے والے جی الانہ روڈ کے پُل کے نیچے سے گزرتی ہوئی ماری پور روڈ کے متوازی چلتے ہوئے وزیر منیشن ریلوے اسٹیشن کی طرف رواں دواںہوتی۔ کچھ دیر وہاں سستانے اور چند ایک مسافروں کو اتارنے اور سوار کرنے کے بعد ریل گاڑی دوبارہ حرکت میں آتی ہے اور دائیں ہاتھ پر متوازی چلتے ماری پور روڈ کی دوسری طرف قائم لیاری اسپورٹس گراؤنڈ (موحودہ پیلپز اسپورٹس کاملپلیکس)، ماری پور ٹرک اسٹینڈ اور کراؤن سنیما کو پیچھے چھوڑتی ہوئی آگے بڑھتی ۔ بچپن ہی سے چونکہ مجھے فلموں سے کچھ خاص لگاؤ رہا، لہذٰا میری پوری کوشش ہوتی کہ میں دیکھ سکوں کہ وہاں اُس وقت کس فلم کے پبلیسٹی بورڈ آوایزاں ہیں۔ کچھ دیر چلنے کے بعد غلامانِ عباس اسکول کو پیچھے چھوڑتی ہوئی ریل گاڑی لیاری ندی پر بنے ہوئے ریلوے کے پُل پر آ پہنچتی ۔ اِس پُل کے نیچے سے لیاری ندی کا بدبو دار پانی گزرتا ہوا بائیں جانب کچھ ہی آگے بحرہِ عرب کے سمندر میں جا گرتا ہے۔

مذکورہ مقام میرے لیے خصوصی دلچپسی کا باعث ہوتا اور میں بڑی مستعدی کے ساتھ سائیٹ ایریاء کی جانب بڑھتی ریل گاڑی کے بائیں جانب کی کسی نشست پر کھڑکی سے لگ کر بیٹھ جاتا اور بڑی ہی محویت کے ساتھ لیاری ندی کو دور بحرہِ عرب کے نمکین پانیوں مدغم ہوتے دیکھتا۔ ریلوے پل کے عین نیچے لیاری ندی کے گندے بدبو دار پانیوں میں قریبی باڑوں کی انگنت بھینسیں غُسل صحت لے رہی ہوتیں۔ اُن بھینسوں کو لیاری ندی کے بدبودار اور گندے پانیوں میں یوں نہاتے دیکھ کر ہمیشہ مجھے خیال آتا کہ امی ہر صبح تاکید کے ساتھ جو "خالص"، "صحت افزاء" اور "قوت بخش" دودھ ہم دونوں بھائیوں کو پلاتی ہیں اُس کا ممبہ حفظِ صحت کے تمام تر ملکی و غیر ملکی اصولوں پر پلتیں یہی بھینسیں ہیں۔

ابّو بتایا کرتے تھے کہ ایک دور میں یہی لیاری ندی اور اُس کا پانی اِس قدر صاف ستھرا ہوا کرتا تھا کہ وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ یہاں نہانے آیا کرتے۔ پھر لوگوں نے اپنے سیوریج کے سارے نالوں کا رُخ لیاری ندی کی طرف کر کے بحرہِ عرب کے پانیوں اور اُس میں بستی مخلوق کو بھی آلودہ کردیا۔

ریل گاڑی لیاری کے علاقے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سائیٹ ایریاء میں قائم بلدیہ ریلوے اسٹیشن پہنچتی ۔ کچھ دیر وہاں رک کر آگے بڑھ جاتی۔ یہاں سے ریلوے لائن دو حصوں میں متقسم ہوتی ہے۔ سیدھی لائن ماری پور روڈ کے متوازی چلتی ہوئی وہاں قائم سمندری نمک کے کارخانوں ، پھر اُس سے بھی آگے تک جاتی ہے لیکن وہ ٹریک صرف مال گاڑیوں ہی کے لیے مخصوص تھا، جبکہ کراچی سرکلر ریلوے کا ٹریک ماری پور والے ٹریک سے جدا ہو کر دائیں طرف کے موڑ سے جو کہ سائیٹ روڈ کہلاتا تھا اور اب غالباً وہاں نادرن بائی پاس قائم ہوچکا ہے، سائیٹ ایریاء میں داخل ہو جاتا تھا۔یک مخصوس بُو جو کہ گوار پھلی سے بنائے جانے والے گوند کے کارخانے سے پھوٹا کرتی تھی، خوب یاد آتی ہے۔

سائیٹ ایریاء کی ایک اور سوغات ریلوے ٹریک کے دونوں اطرف قائم فیکٹریوں کی دیواروں پر لکھے کوچنگ سنیڑوں، حکیموں، نجومیوں، سنیاسی باواؤں، منجنوں، ہر بیماری کی واحد داوؤں، مقامی سنیماؤں میں نمائش پزیر فلموں کے اشتہارات، شہر بھی کی طلباء تنظمیوں اور صنعتی علاقہ ہونے کے سبب مزدور یونیوں کے ہتھوڑے اور درانتی سے مزین پیغامات کی بھرمار ہوا کرتی اور مجھے وہ سب دیواری اشہارات پڑھنا بہت ہی اچھا لگتا تھا۔ سائیٹ ایریاء سے گزرتے ٹریک کے دونوں اطراف قائم کارخانوں میں بڑی بڑی مشینیں اور کرنیں وغیرہ یوں ساکت کھڑیں نظر آتیں کہ جیسے وہ کبھی چلیں ہی نہ ہوں اور ان تمام فیکٹریوں میں کچھ یوں ہو کا سا عالم ہوتا کہ جیسے کسی جادوگر نے اپنی جادو کی چھڑی گھما کر انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پھتر کا کر دیا ہو۔

گاڑی شیرشاہ پُل کے نیچے سے گزرتی ہوئی شاہ عبدللطیف اسٹیشن کے بعد امریلی اسٹیل فیکٹری کے عقب سے ہوتی ہوئی سائیٹ ریلوے اسٹیشن پر قیام کے بعد منگوپیر روڈ، ہینو پاک موٹرز کی فیکٹری کے عقب سے گزرتی ہوئی منگوپیر اور جبیب بنک کے اسٹیشنوں پر رک کر اورنگی نالے کے ریلوے پُل سے گزرتی ہوئی اورنگی ریلوے اسٹیشن جو کہ دراصل ناظم آباد کے علاقے بڑا میدان میں ہےپر آ کھڑی ہوتی۔

اب شروع ہوتا ہے ناظم آبار کا علاقہ۔ ٹرین ناظم آباد کے پُل سے ہوتی ہوئی نارتھ ناظم آباد ریلوے اسٹیشن جا پہنچتی ہے جو کہ مجاہد کالونی میں واقع ہے۔ ٹرین آگے موسیٰ گوٹھ، گجر نالہ، اپسرا اپاڑٹمینٹ اور اُس سے ملحقہ سراج لدولہ کالج کے پاس سے ہوتی ہوئی لیاقت آباد میں شاہراہِ پاکستان کو کراس کرتی ہوئی گزرتی ۔ پھردائیں طرف الاعظم اسکوائر اور بائیں جانب کریم آباد کے علاقے میں موجود دہلی اسکول کے ساتھ ہی لیاقتِ آباد ریلوے اسٹیشن پر آکر رکتی ۔ غریب آباد ریلوے کراسنگ سے گزر کر غریبِ آباد کے علاقے میں داخل ہوتی ہے۔ دائیں طرف غریبِ آباد کا علاقہ پڑتا ہے اور بائیں طرف گورنمنٹ دہلی کالج آتا ہے۔ ٹرین یاسین آباد ریلوے اسٹیشن، اسحق آباد کو پیچھے چھوڑتی ہوئی سر شاہ سلیمان روڈ پر موجود ریلوے پُل سے ہوتی ہوئی گلشنِ اقبال کے علاقے میں قائم گیلانی ریلوے اسٹیشن میں داخل ہوتی کچھ اور آگے چل کر یونیورسٹی روڈ کو کراس کر کے عزیز بھٹی شہید پارک اسٹیشن جا پہنچتی ،اکثر ہم لوگ اِس مقام پر پہنچ کر عزیز بھٹی شہید پارک پر اتر جایا کرتے اور پارک کی سیر کر کے دوبارہ اِسی جگہ سے واپسی کی ٹرین پکڑ کر گھر روانہ ہو جاتے۔ پارک سے ملحق موجودہ سندباد پارک والی جگہ کے عین سامنے سے ٹرین راشد منہاس روڈ کراس کرتی ہوِئی کراچی یونیوورسٹی ریلوے اسٹیشن جا پہنچتی ۔ یہ ریلوے اسٹیشن موجود الہ دین پارک کے عین سامنے واقع تھا۔ یہاں سے آگے ریل گاڑی گلستانِ جوہر کے علاقے میں داخل ہوتی ہے اور موجودہ روفی ڈرائیو لیک، ربعہٰ سٹی بلاک 2 اور 3، بائیں طرف ائیر فورس ہیڈ کوارٹرز اور دائیں آرمی آرڈینینس ڈپو کے عین درمیان سے گزرتی ہوئی ڈپو ہل جنکشن پر پہنچتی ۔ اِس جگہ سے ذرا سا ہی آگے غالباً ڈالمیاں سمینٹ فیکٹری کے پاس ہل پوائینٹ نام کا ایک چھوٹا سا اسٹیشن تھا اور وہاں سے گزرتے ہوئے ٹرین کراچی ائیرپورٹ کے رن وے کے عین عقب سے گزرتی۔ وہاں چند چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے عقب سے پی آئی اے کے طیارے کھڑے دکھائی دیا کرتے تھے۔ یہاں سے ہماری ریل ناتھا خان پُل کے نیچے سے گزرتی ہوئی بائیں طرف کو مڑ کر شاہراہِ فیصل کے متوازی ملیر کی جانب آگے بڑھنا شروع ہوتی اور شاہ فیصل کالونی اور سعود آباد کے علاقوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی ملیر ہالٹ اسٹیشن پہنچتی ، سفر کی آخری منزل ملیر کینٹ تھا.

اگر جو میں بُھول نہیں رہا تو یہاں سے انجن ٹرین سے کٹ کر دوبارہ اُس کے پیچھے جا لگتا اور پھر یوں اُس کی واپسی کا سفر شروع ہوتا۔ ابو وہاں سے واپسی کا ٹکٹ خریدتے۔ کچھ ہی دیر بعد ٹرین دوبارہ اس اسٹیشن سے روانہ ہو کر واپس شاہراہِ فیصل کے متوازی بلوچ کالونی کی طرف جاتے ہوئے پہلے ڈرگ روڈ ریلوے اسیٹشن پہنچتی۔ یہ مقام مجھے بے حد پسند تھا کیونکہ یہاں سے ریل جب شاہراہِ فصیل کے بالکل متوازی دوڑتی تو شاہراہِ فیصل اپنی دوڑتی بھاگتی ٹریفک کے ساتھ بہت ہی بھلی معلوم ہوتی۔ ٹرین یونہی اپنا سفر کرتی شاہراہ فیصل کے ریلوے اسٹیشنوں کارساز اور شیہد ملت روڈ ریلوے اسٹیشنوں پر رُکتی آخر کار چنیسر ہالٹ کے اسٹیشن اور کالا پل سے ہوتی کراچی کینٹ پہنچتی۔ وہاں سے روانہ ہو کر شیخ سلطان ٹرست بلڈنگ کے عقب، پی آئی ڈی سی پُل اور پھر آگے ڈان اخبار کے دفتر، پاور ہاؤس ایلنڈر روڈ، اخبار جنگ کے دفتر، نیشنل بنک ہیڈ آفس، آئی آئی چندریگر روڈ کے عقب سے ہوتی ہوئی کراچی سٹی اسٹیشن پہنچتی۔ کچھ ہی دیر میں ٹرین ٹاور کےعقب سے ہوتی ہوئی پہلے اولڈ اور پھر نیو کسٹم ہاؤس کے عقب سے گزرتی آخرکار ہماری منزلِ مقصود یعنی پورٹ ٹرسٹ اسٹیشن پر ہم سب کو اتار کر پھر سے آگے کو روانہ ہوجاتی۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ ابّو مرحوم مجھے تو کراچی شہر کے حسین مناظر سے ٹرین کے اُس دلفریب و یادگار سفر کی صورت روشناس کرا گئے لیکن ہم اپنے بچوں کو بھلا کیسے اُس سفر کی لذت سے آشنا کرسکیں گے؟

تازہ ترین