نوجوان کسی بھی قوم کی بنیاد ہوتے ہیں، جس کے بغیر کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی۔ ان کے جوشِ جنوں اور جہد مسلسل نے قوموں کی تاریخ بدل ڈالی۔ تحریک پاکستان کی عظیم جدوجہد اس کی گواہ ہے کہ برصغیر کے مسلم نوجوانوں نے انتہائی نامساعد حالات اور بے سر وسامانی کے عالم میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ قائداعظم نے برصغیر کے مسلم نوجوانوں کے اندر حوصلہ پیدا کیا اور اس مشکل گھڑی میں قائداعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’تعمیر پاکستان کی راہ میں مصائب اور مشکلات کو دیکھ کر نہ گھبرائیں۔ نومولود اور تازہ وارد اقوام کی تاریخ کے متعدد ابواب ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں کہ ایسی قوموں نے محض قوتِ ارادی، توانائی، عمل اور عظمت کردار سے کام لے کر خود کو بلند کیا۔ آپ خود بھی فولادی قوت ارادی کے مالک اور عزم وارادے کی دولت سے مالا مال ہیں۔ مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ تاریخ میں وہ مقام حاصل نہ کریں جو آپ کے آباؤ اجداد نے حاصل کیا تھا۔ آپ میں مجاہدوں جیسا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
(لاہور میں طلبا سے خطاب 30 اکتوبر 1937)۔
قائداعظم محمد علی جناح کو نوجوان طلبا سے بہت محبت تھی، اِسی لئے تو نوجوان مسلم طلبا نے قائد اعظم کے ولولہ انگیز پیغام کو سر آنکھوں پر رکھا اور تحریک پاکستان میں سر دھڑ کی بازی لگا کر تاریخ کو اپنے خون سے رقم کیا۔ قائداعظم نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا:
’’نوجوان طلبا میرے قابلِ اعتماد کارکن ہیں۔ تحریک پاکستان میں انہوں نے ناقابلِ فراموش خدمات سرانجام دی ہیں۔ طلباء نے اپنے بے پناہ جوش اور ولولے سے قوم کی تقدیر بدل ڈالی ہے‘‘
قائداعظم کو نوجوان مسلم طلبا سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں اور نوجوانوں نے قائداعظم کی امیدوں کو ٹوٹنے نہیں دیا، بلکہ اور زیادہ مضبوط کیا۔ 1937 ء کے کلکتہ کے اجلاس میں قائداعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’نئی نسل کے نوجوانو! آپ میں سے اکثر ترقی کی منازل طے کرکے اقبال اور جناح بنیں گے ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ قوم کا مستقبل آپ لوگوں کے ہاتھوں میں مضبوط رہے گا‘‘۔
تحریک پاکستان میں سب سے پہلے اپنی قیمتی جان کا نذانہ پیش کرنے والا بھی ایک طالب علم تھا۔ جنوری 1947 کی تحریک سول نافرمانی میں بھی طلبا نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
قائداعظم نے ایک موقعے پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’آپ کو یاد ہوگا، مَیں نے اکثر اس بات پر زور دیا ہے کہ، دشمن آپ سے آئے دن ہنگاموں میں شرکت کی توقع رکھتا ہے۔ آپ کا اولین فرض علم کا حصول ہے، جو آپ کی ذات، والدین اور پوری قوم کی جانب سے آپ پر عائد ہوتا ہے ۔ آپ جب تک طالب علم رہیں اپنی توجہ صرف تعلیم کی طرف مرکوز رکھیں۔ اگر آپ نے اپنا طالب علمی کا قیمتی وقت غیر تعلیمی سرگرمیوں میں ضائع کردیا تو یہ کھویا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا‘‘۔
ایک اور موقعے پر قائداعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں آج آپ سے سربراہِ مملکت کی حیثیت سے نہیں ذاتی دوست کی حیثیت سے مخاطب ہوں۔ میرے دِل میں نوجوانوں خصوصاً طالب علموں کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ آپ پر قوم اور والدین کی طرف سے بھاری ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ متحد ہوکر ملکی تعمیر و ترقی میں مصروف ہو جائیں‘‘۔
ایک دفعہ قائداعظم نے چھوٹے سے بچے سے جو پاکستان زندہ باد، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا، نعرے کا مطلب پوچھا، بچے نے جواب دیا، ’’یہ تو بہت آسان ہے، جہاں ہندو زیادہ ہیں، ہندو حکومت کریں، جہاں مسلمان زیادہ ہیں وہاں مسلمان‘‘، قائداعظم نے بچے کی ذہانت کو سراہتے ہوئے فرمایا: ’’اب پاکستان کے قیام کو کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔
قائداعظم نے جذبات ملی اور حمیت قومی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نوجوان مسلمانوں کو متحد ہونے کو کہا۔ قائداعظم نے ڈھاکہ میں نوجوان طلبا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میرے نوجوان دوستو! میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار بنیں گے تو یہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ یاد رکھیے کہ اب ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوچکی ہے ۔ یہ ہماری اپنی حکومت ہے، ہم ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے مالک ہیں۔ لہٰذا ہمیں آزاد اقوام کے افراد کی طرح اپنے معاملات کا انتظام کرنا چاہئے۔ اب ہم کسی بیرونی طاقت کے غلام نہیں ہیں، ہم نے غلامی کی بیڑیاں کاٹ ڈالی ہیں۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ، میرے نوجوان دوستو! اب میں آپ ہی کو پاکستان کا حقیقی معمار سمجھتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنی باری آنے پر کیا کچھ کر کے دکھاتے ہیں۔ آپ اس طرح رہیں کہ کوئی آپ کو گمراہ نہ کرسکے۔ اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور استحکام پیدا کریں اور ایک مثال قائم کریں کہ نوجوان کیا کچھ کرسکتے ہیں‘‘۔
اس وقت ہمارے ملک میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، ہمیں چاہئے کہ ہم قائداعظم کے ان ارشادات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی مشکلات پر قابو پائیں تاکہ ہمارا پیارا وطن، بانی پاکستان کے نظریات اور اصولوں کے مطابق ہوسکے اور ہم دُنیا کی عظیم اور طاقت ور قوم بن سکیں۔ نوجوان ہی ملک و قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان سے وطن عزیز کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ نوجوانوں کو اپنا وقت ملت کی تعمیر و ترقی میں صرف کرنا ہو گا اور تخریبی کارروائیوں سے ہر ممکن دور رہنا ہوگا۔ اس طرح نوجوان نہ صرف اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں بلکہ ملک کو بھی اقوام عالم میں پہلی صف میں لانے کا کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو نظم و ضبط کو اپنا شعار بنانا ہوگا کیونکہ قائداعظم محمد علی جناح ڈسپلن پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہ تھے۔ ان کی زندگی میں انہیں جو کام یابیاں حاصل ہوئیں ان میں نظم و ضبط کا کردار نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کئی مواقع پر فرمایا، ’’کام کام اور کام‘‘۔ یہ وہ انتہائی مختصر لیکن جامع ترین نصیحت تھی جو انہوں نے کی اور آج آپ خود دیکھ لیں کہ دُنیا میں جو اقوام ترقی کی راہ پر آگے بڑھ رہی ہیں وہ اسی نصیحت کے تحت ترقی کے آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔ نوجوان اگر چاہیں تو وہ بھی ستاروں پر کمنڈ ڈال سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے اُنہیں قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمودات پر صدق دِل سے عمل کرنا ہو گا اور اسی میں ان کی فلاح اور کامیابی کا راز مضمر ہے۔