میرے سامنے ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد کا گیارہ جولائی 2019ء کو جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن ہے۔ جس کے مطابق 15مارچ 2017ء کو دو سالہ بی اے /بی ایس سی پروگرام ختم کرنے کا جو اعلان کیا گیا تھا اس کی جگہ اب تمام سرکاری یونیورسٹیز اور الحاق شدہ کالج میں دو سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری کرائی جائے گی اور تمام دستاویزات میں اب ایسوسی ایٹ ڈگری کا نام ہی استعمال ہوگا۔ وہ طالب علم جو 31دسمبر 2018ء تک بی اے /بی ایس سی میں رجسٹرڈ ہیں، انہیں 31دسمبر 2020تک اپنا یہ پروگرام مکمل کرنے کی اجازت ہے۔ اگر اس وقت تک یہ ڈگری مکمل نہیں کرتے تو پھر انہیں ایسوسی ایٹ ڈگری کے لوازمات مکمل کرنے پر یہ ڈگری جاری کی جائے گی۔ نوٹیفکیشن میں ایسوسی ایٹ ڈگری جاری کرنے کی یہ دلیل دی گئی ہے کہ تعلیم کو وسیع پیمانے میں دیکھتے ہوئے مارکیٹ کی ضرورت اور تقاضوں کو مدنظر رکھا جائے گا اور اس کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن وقتاً فوقتاً ہدایات اور پالیسی جاری کرتا رہا گا۔ موجودہ نوٹیفکیشن کے مطابق عام تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم کو معیشت، سماجیات، کلچر، ملکی سیاست اور سیاسی زندگی کا پتا ہو گا، اسے اردو، انگریزی، ریاضی، جنرل سائنس، تاریخ پاکستان اور اسلامیات وغیرہ کی تعلیم دی جائے گی جبکہ مارکیٹ تقاضوں کے مطابق دی جانے والی ایسوسی ایٹ ڈگری ہولڈرز کو بزنس، اکنامکس کی اہمیت، کمپیوٹر کی معلومات، دفتری امور کا انتظام، فارم مینجمنٹ، زرعی مہارت وغیرہ کی مکمل ٹریننگ دی جائے گی۔ بیچلر ڈگری سے ایسوسی ایٹ ڈگری کی طرف منتقلی آہستہ آہستہ ہو گی۔ پہلے سال موجودہ بی ایس سی اور بی اے کے کورسز میں معمولی تبدیلی ہو گی لیکن ڈگری ایسوسی ایٹ ہی دی جائے گی۔ اس سلسلے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے تمام سرکاری یونیورسٹیز کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ کو آرڈی نیشن کے لئے اپنا ایک ایک نمائندہ مقرر کریں جو کمیشن کی ہدایات اور پالیسز پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے کمیشن سے ضروری رہنمائی حاصل کرتا رہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق اس طرح دو سالہ ایم اے، ایم ایس سی پروگرام بھی 2020میں مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ نوٹیفکیشن میں ہدایت کی گئی ہے کہ اس سے پہلے جاری کردہ تمام احکامات کو صرف اسی نوٹیفکیشن کی روشنی میں دیکھا جائے اور فوری طور پر تمام سرکاری یونیورسٹیز اس پر عمل کی پابند ہیں۔
عملی صورتحال یہ ہے کہ ایسوسی ایٹ ڈگری کا اعلان کرکے پورے ملک میں ایک کنفیوژن پیدا کی گئی ہے کیونکہ انٹر کے بعد ایسوسی ایٹ ڈگری کے داخلے تو شروع ہوگئے ہیں مگر نہ سلیبس اس کے مطابق ہے اور نہ ہی کالجوں سمیت یونیورسٹیز کے پاس کوئی واضح پروگرام اور گائیڈلائن ہے۔ 2010کی بات ہے کہ تعلیم سے محبت کے دعوے کرنے والی حکومت نے پنجاب میں کسی خاص ایجنڈے کے تحت اچانک 26کالجوں میں چار سالہ بی ایس پروگرام شروع کیا تھا جس کی نہ تو پلاننگ کی گئی، نہ تعلیم کے تقاضوں کے مطابق کلاس رومز، لیبارٹیز بنائی گئیں، نہ ہی اساتذہ کی ٹریننگ کرائی گئی جس کی وجہ سے یہ پروگرام بری طرح سے فلاپ ہو گیا اور پہلے سال ڈراپ آئوٹ کا تناسب 90فیصد سے بھی زیادہ رہا۔ حکمرانوں نے اس پروگرام کی خرابیاں دور کرنے کے بجائے اس کو جاری رکھا مگر نہ تو ضروری سہولتیں فراہم کی گئیں اور نہ ہی ماہر ٹیچرز کی مستقل بنیادوں پر بھرتی اور تربیت ہوئی۔ آج جب اس پروگرام کو شروع ہوئے نو سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے، آج بھی اکثر ایسے مضامین ہیں مثلاً جینڈر اسٹڈیز، جن کا ایک بھی ٹیچر موجود نہیں۔ جبکہ اس پروگرام کی وجہ سے ان 26کالجوں میں اکثر مضامین کے پروفیسرز سر پلس بیٹھے ہیں۔ خراب منصوبہ بندی کی وجہ سے ایک طرف تعلیمی نظام اور معیار کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے تو دوسری طرف اس ناکامی کو چھپانے کے لئے ایسوسی ایٹ ڈگری کا ایک نیا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے۔
تعلیمی حوالے سے یہ ایک بہت ہی خوفناک صورتحال ہے۔ میں حیران ہوں کہ گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر تعلیم نے ایک پریس کانفرنس میں بڑے فخریہ انداز میں یہ اعلان کیا کہ ہم آئندہ مارچ سے ملک بھر میں پرائمری کی سطح پر ایک جیسا نصاب اور نظامِ تعلیم لا رہے ہیں۔ ویسے تو اس حوالے سے بھی کوئی ہوم ورک نہیں کیا گیا، خصوصاً 18ویں ترمیم کے بعد تعلیمی نظام میں بہتری اور ایک جیسا نظام و نصاب تعلیم لانے کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جس کے بغیر ممکن ہی نہیں، پھر معلوم نہیں یہ کس طرح ایسے دعوے کر رہے ہیں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بغیر سوچے سمجھے اور زمینی حقائق کو جانے بنا ایسوسی ایٹ ڈگری کا اعلان کیونکر کر دیا ہے۔ اس حوالے سے جو نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے اس میں صرف سرکاری یونیورسٹیز کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایسوسی ایٹ ڈگری میں داخلے کریں جبکہ پرائیویٹ یونیورسٹیز کا ذکر تک نہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ نجی تعلیمی مافیا کو کھلی چھٹی دیدی گئی ہے کہ وہ جو مرضی ڈگری جاری کرے اور نہ ہی انہیں بی اے، بی ایس سی ڈگری کو ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ سرکاری اداروں کو بند کرانے اور نجی تعلیمی اداروں کو پرموٹ کرنے کی کوشش لگتی ہے۔
حکمران اگر واقعتاً تعلیم اور اس ملک سے مخلص ہیں تو پہلے مکمل ہوم ورک کریں پھر جدید تقاضوں کے مطابق تمام نصاب اور پالیسیز بنائی جائیں اور قومی اسمبلی سے باقاعدہ قانون منظور کرایا جائے جو تمام سرکاری اداروں کے علاوہ نجی تعلیمی اداروں پر بھی لاگو ہو۔ اسی طرح ایک جیسا نصاب، نظام نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد اس ڈگری کو کوئی بھی نام دے دیں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ میرا چونکہ 32سال تک تعلیمی میدان میں عمل دخل رہا ہے میں اپنے مشاہدے اور تجربہ کی بنیاد پر نہایت محتاط انداز میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ 90فیصد اساتذہ کو جدید تقاضوں اور سمسٹر سسٹم پڑھانے میں دلچسپی ہی نہیں، اس میں ان کا بھی شاید قصور نہ ہو کیونکہ انہیں ایسے حالات کے لئے تیار ہی نہیں کیا جاتا۔ ضروری ہے کہ تعلیم کے ساتھ یہ مذاق بند کیا جائے۔