نوجوان کسی بھی قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ ان کی اہمیت جسم میں موجود ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ اگر ریڑھ کی ہڈی ہی ناتواں ہو تو پورا جسم کمزور پڑ جاتا ہے، جسم میں سکت نہیں رہتی۔ بالکل اسی طرح اگر کسی قوم کے نوجوانوں میں منفی سرگرمیاں عام ہونے لگیں تو قوم زوال پزیر ہو جاتی ہے۔ دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں، جن کے نوجوان درست سمت پر چل رہے ہوتے ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن سے فائد اٹھانا بے حد ضروری ہے، کیوں کہ یہ ہی نوجوان روشن مستقبل کی نوید ہیں۔ ملک و قوم کی تقدیر نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر منحصر ہوتی ہے۔ لیکن اگر یہ تعلیم یافتہ نوجوان مایوسی کا شکار ہوکر منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوجائیں تو قوم زوال پزیر ہوجاتی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ملک میں یکساں تعلیمی نظام نہ ہونے کے باعث نوجوانوں کی بڑی تعداد معیاری تعلیم سے محروم ہے، جب نسل نو تعلیم جیسی بنیادی عنصر سے محروم رہے گی تو ایسے میں ہم ان سے روشن مستقبل کی امید کیسے لگا سکتے ہیں۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہا ہے، ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نوجوانوں کی اکثریت کس طبقے سے تعلق رکھتی ہوگی۔ ایسے میں اگر چند نوجوان مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے بھی کسی نہ کسی طرح اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں، تب بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بےروزگاری کے سبب ان کی مشکلات ختم نہیں ہوتیں۔ موجودہ صورت حال میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نوکری کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، ان کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے اور بڑھتی مہنگائی سے مقابلہ کرنا ناممکن ہوگیا ہے، ان حالات میں آج کا نوجوان معاشرتی طبقاتی فرق میں اس قدر الجھ کر رہ گیا ہے کہ صیح غلط کی تمیز بھول بیٹھا ہے۔ بلاشبہ ان گنت مسائل نوجوانوں پر بھی براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ غربت اور بے روزگاری سے دل برداشتہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد تیزی سے جرائم کی طرف راغب ہورہی ہے۔ جس کی منہ بولتی تصویریں آئے دن اخبارات میں شہہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتی ہیں۔ خبروں کے مطابق مختلف علاقوں میں ہونے والی ڈکیتی اور راہ زنی کی وار داتوں میں اکثریت پڑھے لکھے نوجوانوں کی ہے، جنہوں نے قلم و کتاب کی بجائے اسلحہ کے زور پر اپنے مسائل کے حل اور خوابوں کی تعبیر تلاش کرنا شروع کردی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد منفی سرگرمیوں میں مبتلا ہو رہی ہے۔ کالجز میں زیر تعلیم نوجوان کھلے عام جرائم کا ارتکاب کرنے لگے ہیں، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی نئی بات ہے۔
جس معاشرے میں ظالم طاقت ور ہو، ناانصافی کا بول بالا ہو، طاقت ور کمزور پر حاوی ہو، ہر جگہ جھوٹ اور بے ایمانی کا راج ہو، دھوکا دھی کا بازار گرم ہو تو کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ وہاں کی نسل نو ایمان دار ہوگی، کیسے مثبت راہ پر چلتے ہوئے ترقی کی منازل طے کرے گی۔ یہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب مسائل کا حل تلاش کیا جائے گا۔ نوجوانوں کا المیہ تو یہ ہے کہ نہ انہیں اپنے بنیادی مسائل سے آگاہی ہے اور نہ ہی اپنے حقوق سے۔
نوجوانوں میں جرائم کی ایک بڑی وجہ مادہ پرستی بھی ہے۔ جب تعلیم یافتہ نوجوان، اشرافیہ کی اولاد کو قیمتی گاڑیوں میں بے دھڑک سفر کرتے دیکھتے ہیں تو فطری طور پر ان کے دلوں میں بھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہوگی کہ وہ بھی قیمتی گاڑیوں میں سائلنسر نکال کر گھومتے رہیں۔ طبقاتی معاشروں کا المیہ یہ ہے کہ اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک نوجوان بھوک، بے روز گاری، غربت کے شکار رہتے ہیں جب کہ دوسری جانب اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو تمام آرائیش حاصل ہیں۔ ایسے میں فطری طور پر ان کے دلوں میں بھی شان و شوکت کی زندگی گزارنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کہ برق رفتاری سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے سبب تعلیم یافتہ نوجوانوں کے حالات انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ اور نہ ہی انہیں اتنے مواقعے میسر آتے ہیں کہ وہ اپنے حالات بدل سکیں۔ اسی صورتحال کے باعث ملک کے پڑھے لکھے نوجوان جنہیں اس ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینا چاہئے، بےروزگاری برداشت کرتے کرتے، چوری ڈاکہ، اسمگلنگ، منشیات اور دہشتگردی جیسے خطرناک جرائم میں ملوث ہوتے جارہے ہیں۔ مجبوراً وہ اپنے خوابوں اور خواہشوں کی تکمیل کے لیے جرائم کے راستے پر چل نکلتے ہیں، بہ ظاہر تو یہ نوجوان مجرم نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل مجرم وہ طبقاتی معاشرہ ہے، جو ایک جانب صاحب حیثیت افراد کو عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے سارے مواقعے فراہم کرتا ہے، دوسری جانب غریب طبقات کے اہل بیٹوں کو غربت کی تاریکیوں میں دھکیل دیتا ہے۔ معاشی ناانصافی کے شکار نوجوان اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے جرائم کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ اس کا حل گرفتاریاں اور سزائیں نہیں بلکہ معاشرے سے طبقاتی تفریق کو ختم کرکے اہل نوجوانوں کو ان کے خوابوں کے مطابق ایک آسودہ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
گرچہ نوجوانوں کی کو محرومیاں ختم کرنے کے لیے سیمینار کیے جاتے ہیں، کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں، اخلاق حمیدہ اور نیک راہ پر چلنے کے درس دیے جاتے ہیں لیکن ان کوششوں کا کوئی مثبت نتیجہ اس لیے نہیں نکلتا کہ طبقاتی ناانصافیوں کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی جو محرومیت کے شکار نوجوانوں کو آسودہ زندگی گزارنے کے مواقعے فراہم کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ اقتصادی ناانصافیاں سرمایہ دارانہ نظام کا لازمہ حصہ ہیں، جب تک دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام باقی ہے یہ ناانصافیاں جاری رہیں گی اور تعلیم یافتہ نوجوان بھی جرائم کا حصہ بنے رہیں گے۔ کوئی وعظ کوئی نصیحت نیکی کا کوئی درس محروم نوجوانوں کو راہ راست پر نہیں لاسکتا۔
پاکستان کا شمار پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے۔ اس حوالے سے بدقسمتی یہ ہے کہ اربوں روپوں کی لوٹ مار کرنے والوں کو مظلوم اور انتقام کا شکار بتایا جا رہا ہے۔ یہ وہی اربوں روپے ہیں جن کی منصفانہ تقسیم ہو تو محروم طبقات کی محرومیاں ختم ہوسکتی ہیں اور جن معاشروں میں حق داروں کو ان کا جائز حق ملتا ہے، ان معاشروں میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کے غریب طبقات ، محنت کش طبقات دن رات محنت کرکے جو اربوں کی دولت پیدا کرتے ہیں اس پر اثر و سروخ رکھنے والا طبقہ قبضہ کرلیتا ہے۔
ہماری عدلیہ کرپشن اور لوٹ مارکے خلاف جو سخت اقدامات کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن افسوس ہمارے ملک میں غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہو رہا ہے اور اسی نامنصفانہ کلچر کی وجہ سے کالجوں کے نوجوان اپنی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل کے لیے جرائم کے راستے پر چل رہے ہیں لیکن دراصل یہ مجرم نظر آنے والے نوجوان مجرم نہیں بلکہ لوٹ مار کا وہ نظام مجرم ہے جو اہل نوجوانوں کو جرائم کی طرف دھکیلتا ہے۔
اقتصادی ناانصافی اور اشرافیائی لوٹ مار نے غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو ان کے بہتر مستقبل سے مایوس کردیا ہے جب کسی ملک کے نوجوان اقتصادی انصاف سے محروم ہوجاتے ہیں اور جائز ذرایع سے اپنی خواہشیں پوری کرنے سے محروم کردیے جاتے ہیں تو پھر وہ فطری طور پر ناجائز راستوں پر چل پڑتے ہیں دنیا کے اندھے لوگ ان نوجوانوں کو مجرم سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ اپنے جائز حقوق سے محروم نوجوان مجرم نہیں بلکہ وہ نامنصفانہ نظام مجرم ہے جو اہل نوجوانوں کو محرومیوں سے دوچار کردیتا ہے اور نااہلوں اور کرپٹ لوگوں کو عوام کی محنت کی کمائی کا مالک بنا دیتا ہے۔
محرومیوں کے شکار ان نوجوانوں کی اصلاح، گرفتاریوں اور سزاؤں سے ممکن نہیں بلکہ اس طبقاتی نظام کی پیدا کردہ معاشی ناانصافیوں کا خاتمہ ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوجوانوں کو معاشی انصاف کون فراہم کرے گا؟ عدلیہ اور نئی حکومت معاشی لوٹ کھسوٹ کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ۔