• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سحرش پرویز

پاکستان میں رائج تعلیمی نظام میں انگریزی زبان کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ہمارے بیش تر تعلیمی ادارے صرف اس بنیاد پر کہ، وہ انگریزی زبان میں تعلیم فراہم کرتے ہیں، اس لیے وہ دیگر اداروں سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ آج کل تو یہ حال ہوگیا ہے کہ ہر گلی محلے میں کھنے والے اسکولوں میں پہلی ترجیح انگریزی زبان کو دی جاتی ہے۔ اسکولوں کے باہر بورڈ پر جلی حروف میں انگریزی میڈیم لکھا ہوتا ہے۔ 

حد تو یہ ہے کہ پوش علاقوں میں قائم اسکولوں میں داخلے کے وقت اب صرف بچوں کا ٹیسٹ نہیں لیا جاتا، بلکہ ان کے والدین سے بھی انگریزی زبان میں انٹرویو کیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک معصوم بچہ جو اسکول کی بنیادی منزل پر قدم رکھتا ہے وہ دو رُخی تعلیمی نظام کا شکار ہوجاتا ہے ۔ نام نہاد ’’بڑے اسکول‘‘ کہلانے والی درس گاہیں درحقیقت پڑھے لکھے والدین کے بچوں کو تعلیم دینے کی ضامن بن گئی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر اور مزدور کا بیٹا مزدور بن رہا ہے۔ یہ اسکول کسی غریب اور غیر تعلیم یافتہ شخص کے بچوں کو معاشرے کا ایک قابل فرد بنانا ہی نہیں جانتے۔ 

ایسے بھی اسکول ہیں جہاں بچوں کو ابتدا یعنی مونٹیسوری سے ہی انگریزی زبان کی تعلیم لازمی دی جاتی ہے جب کہ ان کے لیے اردو زبان کا استعمال ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسے تعلیمی اداروں میں بچے نہ تو اپنی قومی زبان کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی ٹھیک طرح سے بول سکتے ہیں۔ حال تو یہ ہے کہ بعض تعلیمی اداروں میں قومی زبان کا استعمال کرنے پر جرمانہ تک عائد کیا جاتا ہے۔ پھر چاہے وہ بچہ ابھی سیکھنے کے ابتدائی مراحل میں ہی کیوں نہ ہو۔ آج کل کے دور میں بچوں کی پہلی درس گاہ ماں کی گود یا گھر کو نہیں بلکہ اسکول ہی کو تصور کیا جاتا ہے۔ ابھی بچہ پیدا ہی ہوتا ہے کہ بہتر سے بہتر اسکول میں داخلے کی تگ و دو شروع ہوجاتی ہے، والدین کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کا نام مشہور اور انگریزی میڈیم اسکول میں درج ہوجائے۔ 

بچہ جب صرف ڈھائی سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو وہ اسکول جانے لگتا ہے۔ یہ معصوم بچے جو ابھی ٹھیک سے بولنا اور باتوں کو سمجھنا شروع بھی نہیں کرتے اسکول میں قدم رکھتے ہی اردو اور انگریزی کی جنگ میں اس قدر الجھ کر رہ جاتے ہیں کہ انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں۔ معصوم بچوں کے کچے ذہنوں کو اس انداز سے اردو کا باغی بنایا جا رہا ہے کہ وہ اردو مکمل طور پر آشنا نہیں ہو پاتے۔ قومی زبان کسی بھی قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ ان کی عزت، فخر اور ترقی کا باعث ہوتی ہے۔ ہماری زبان اردو بھی ہمارا فخر ہے، لیکن ہم اب اس حقیقت کو بھول چکے ہیں۔ اور انگریزی زبان کی طرف مائل ہوگئے ہیں۔ عام تاثر یہ بھی قائم ہوچکا ہے کہ آج کے دور میں جسے انگریزی زبان پر عبور حاصل ہوگا، صرف وہی شخص اچھی نوکری حاصل کرسکے گا، کیوں کہ اردو زبان میں نہ تو اچھی مارکیٹنگ کی جاسکتی ہے اور نہ ہی بلند و بالا عمارتیں اردو کے سہارے بنائی جاسکتی ہیں۔ 

بلکہ صرف انگریزی کا مضبوط سمینٹ ہی کیرئر کی اونچی عمارتوں کی پائیداری کا ضامن ہوگا۔ دوسری جانب ایک قابل انجینئر اگر کسی غیر معروف اردو میڈیم سرکاری جامعہ سے تعلیم حاصل کرکے اپنی قابلیت سے خود کو ثابت کرنا چاہتا ہے تو اسے مسترد کردیا جاتا ہے۔ طلبہ و طالبات نہ صرف اسکول بلکہ گھروں میں بھی انگریزی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ پھر ان کے والدین فخریہ کہتے ہیں کہ، ہمارے بچے کو تو اردو آتی ہی نہیں ہے۔

لوگوں کو انگریزی زبان کی غلامی میں گرفتار دیکھ کر لگتا ہے کہ ظاہری طور پر تو ہم انگریز سے آزاد ہوچکے ہیں، مگر ہمارے ذہن آج بھی ان کے قبضے میں ہیں۔ جب ہی تو ہم انگریزی زبان کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسے نصاب کا حصہ ضرور بنایا جائے، مگر اسے بچوں پر مسلط نہ کیا جائے۔ اگر وہ اردو زبان میں امتحان دینا چاہتے ہیں تو انہیں اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اردو میں اپنا امتحان دیں۔

ہمارے ملک میں اردو کے نفاذ اور انگریزی کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے اردو پڑھنی، لکھنی اور بولنی ہوگی۔ ضروری نہیں کہ ہم صرف انگریزی کے ذریعے ہی پڑھے لکھے کہلائیں بلکہ ہم اردو زبان کے ذریعے بھی خود کو تعلیم یافتہ ثابت کرسکتے ہیں۔

٭…متوجہ ہوں…٭

 قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضاعات پر لکھنا چاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔

ہمارا پتا ہے: انچارج ’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ،

میگزین سیکشن، اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

email:nujawan.magazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین