• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ چونیاں کا ملزم جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے چونیاں میں چار بچوں کے قتل کیس کے ملزم سہیل شہزاد کا 15 روز کا جسمانی ریمانڈ دے دیا۔

اس سے قبل ملزم سانحہ چونیاں کے ملزم سہیل شہزاد کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

تفتیشی افسر نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزم سہیل شہزاد سے تفتیش کے لیے اس کا جسمانی ریمانڈ درکار ہے، ملزم کا فیضان کے قتل کیس میں ریمانڈ درکار ہے، مقتول فیضان کی لاش چونیاں بائی پاس سے ملی تھی، جبکہ بچوں کے قتل کے واقعات کے بعد فرانزک ٹیسٹ کروائے گئے تھے۔

پولیس نے ملزم سہیل کو منہ ڈھانپ کر عدالت میں پیش کیا، پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزم نے بچوں کو اغوا کیا اور ان کے ساتھ بدفعلی کی اور پھر انہیں قتل کر دیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کا ڈی این اے فیضان کے ساتھ میچ ہو گیا ہے، جسے ملزم سہیل شہزاد نے اغوا اور بدفعلی کے بعد قتل کر دیا تھا۔

پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ ابھی ایک کیس میں ریمانڈ درکار ہے، باقی کیسز کی ڈی این اے رپورٹ آئے گی تو پھر وہ کیس الگ بنائیں گے، 1668 لوگوں کا ڈی این اے لیا گیا تھا تاہم ملزم کا ڈی این اے میچ کر گیا۔

یہ بھی پڑھیئے: چونیاں، پولیس 4 بچوں کے قاتل تک کیسے پہنچی؟

پولیس نے ملزم سے استفسار کیا کہ آپ کا کیا نام ہے؟

ملزم نے بتایا کہ میرا نام سہیل ہے۔

عدالت نے ملزم نے سوال کیا کہ کچھ کہنا چاہتے ہو؟

ملزم نے عدالت کو مختصر جواب دیا کہ مجھ پر تشدد نہ کیا جائے۔

پولیس کی جانب سے عدالت سے ملزم کے 30 روزہ جسمانی ریمانڈکی استدعا کی گئی۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم سہیل شہزاد کو 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔

ملزم کی عدالت میں پیشی کے وقت سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔

واضح رہے کہ پولیس کو ملزم سہیل شہزاد تک پہنچنے میں بہت تگ و دو کرنا پڑی ہے، چونیاں کی آبادی 60 ہزار افراد پر مشتمل ہونے کے باعث اس گنجان آبادی میں سے ملزم کی تلاش ایک مشکل مرحلہ تھا۔

یہ بھی پڑھیئے: وزیرِ اعظم کی وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو مبارک باد

چونیاں کیس کے مرکزی ملزم سہیل شہزاد کو پکڑنے کے لیے پولیس نے 26251 لوگوں کا سروےکیا، 4684 گھروں کی تلاشی لی گئی، 1734 لوگوں کا ڈی این اے چیک کیا گیا، 904 رکشا ڈرائیوروں کی پوچھ گچھ کی، 8307 موبائل فونز کا ڈیٹا لیا گیا، اس طرح کُل 3117 مشکوک لوگوں سے پوچھ گچھ ہوئی۔

پولیس نے روایتی تفتیشی ذرائع، ہیومن انٹیلیجنس اور اس کے بعد ڈی این اے کی مدد لی، جائے وقوع سے ملنے والے جوتوں کے نشان کو محفوظ کیا اور اسے مقدمے کا حصہ بنایا۔

جائے وقوع پر ملزم کے جوتے ہی اس کی گرفتاری کا سبب بنے کیونکہ ملزم نے گرفتاری کے وقت بھی وہی جوتے پہن رکھے تھے۔

گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ چونیاں واقعے میں ملوث ملزم کی شناخت ہو گئی ہے، مقتول بچوں فیضان اور علی حسن کےنمونوں کا ڈی این اے ملزم سے میچ کر گیا ہے، جس کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔

تازہ ترین