• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی گلوکار اور بھارتی اداکارہ پریانکا چوپڑا کے شوہر نک جونس نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں اُس حد تک شوگر تھی کہ وہ تقریباً کوما میں چلے گئے تھے۔

برطانوی ویب سائٹ کے مطابق ایک انٹرویو میں گلوگار نک جونس نے بتایا کہ انہیں 13 سال کی عمر میں معلوم ہوا کہ وہ شوگر (ذیابیطس ٹائپ 1) کے مرض میں مبتلا ہیں۔ وہ اس حد تک اس بیماری میں مبتلا تھے کہ تقریباً کوما میں چلے گئے تھے۔

اپنے انٹرویو میں نک جونس نے بتایا کہ اگر وہ ایک دن اور اسپتال نہ جاتے تو شاید آج اِس دُنیا میں نہ ہوتے۔ وہ اپنے والدین سے مسلسل پوچھتے رہتے تھے کہ وہ ٹھیک ہوجائیں گے؟ کیونکہ اُنہیں اُمید نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی اس بیماری سے بچ جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے: پریانکا نے شادی کے بعد نک جونس کو کیسا پایا؟

امریکی گلوکار نک جونس کے مطابق اُنہیں اس بیماری کا اُس وقت پتا چلا جب 13 سال کی عمر میں اچانک اُن کا وزن کم ہونے لگا، اس کے علاوہ اُن کا ’sugary sodas‘ پینے کابھی بہت زیادہ دل کرنے لگا تھا جس پر اُنہوں نے ڈاکٹر سے رابطہ کیا تب معلوم ہوا کہ اُن کی شوگر ’917 ‘ ہے جو کہ نارمل شوگر سے تقریباً نو گناہ زیادہ ہے۔

نک جونس نے بتایا کہ خطرناک حد تک بڑھی ہوئی شوگر کا سُن کر وہ بہت زیادہ خوفزدہ ہوگئے لیکن پھر ڈاکٹر نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ وہ اس بیماری سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ اُن کی زندگی کا بہت بڑا چیلنج تھا جس نے اُن کی زندگی بدل دی۔

یہ بھی پڑھیے: نک جونس ، پریانکا اب ’پریک‘ کہلائیں گے

اُنہوں نے کہا کہ وہ اپنی اس بیماری سے بالکل نہیں گھبرائے بلکہ اُنہوں نے اس کا سامنا کیا اور اس سے نجات حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔

انٹرویو کے اختتام میں انہوں نے مزید کہا کہ ذیابیطس ٹائپ 1 جیسی بیماری سے نجات پانے میں اُن کے مداحوں نے اُن کا بہت ساتھ دیا تھا۔ مداحوں نے انہیں احساس دلایا کہ وہ اکیلے نہیں ہیں جس کے بعد انہیں مزید ہمت ملی اور انہوں نے ڈٹ کر اپنی بیماری کا مقابلہ کیا۔

واضح رہے کہ ٹائپ ون ذیابیطس میں لبلبہ انسولین بنانا بند کر دیتا ہے جس کی وجہ سے شکر خون کے بہاؤ میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ انسولین جسم میں موجود گلوکوز کو توانائی میں بدلنے اور بلڈ شوگر لیول معمول پر رکھنے میں مدد دیتی ہے جو ذیابیطس ٹائپ 1 کے مریضوں میں نہیں ہوپاتا۔

ٹائپ 1 کا مرض کسی بھی عمر میں لاحق ہوسکتا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ بیماری کیسے لاحق ہوتی ہے یا اس کی روک تھام کیسے ممکن ہے۔

تازہ ترین