• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کے انتہائی مغرب میں واقع، ضلع چاغی اپنی جغرافیائی و اقتصادی اہمیت کے سبب ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کی توجّہ کا مرکز رہا ہے۔ یہ پاکستان کا واحد ضلع ہے کہ جس کی سرحدیں دو ممالک، افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں۔ نیز، 28مئی 1998ء کو پاکستان نے یہیں ایٹمی دھماکے کیے۔ حال ہی میں چاغی اُس وقت عالمی ذرایع ابلاغ کا موضوع بنا کہ جب عالمی عدالتِ انصاف نے 17جولائی 2019ء کو بھارتی دہشت گرد، کل بھوشن یادیو کے مقدّمے کا فیصلہ سنایا۔ 

پھر حال ہی میں عالمی ثالثی عدالت نے ریکوڈک منصوبے میں بعض شِقوں کی مبیّنہ خلاف ورزی پر بلوچستان حکومت کو 6ارب ڈالرز جُرمانے کی سزا بھی سنائی۔ واضح رہے کہ ریکوڈک منصوبے کے تحت چاغی میں موجود اربوں ڈالرز مالیت کے سونے و تانبے کے ذخائر کو بروئے کار لانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ تاہم، بین الاقوامی کمپنیز اور حکومتِ بلوچستان کے درمیان اختلافات کی وجہ سے یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیا۔ 

اسی طرح چاغی کے علاقے، نوکُنڈی میں وسیع پیمانے پر پایا جانے والا ماربل، اونیکس دُنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔اگر چاغی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے،تو پتا چلتا ہے کہ جب مغل شہنشاہ ہمایوں کو شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست ہوئی، تو وہ گجرات(بھارتی ریاست) سے بہ راستہ عُمر کوٹ گنداوا، سبّی اور ڈھاڈریہاںپہنچے۔ تب چاغی ایک آزاد قبائلی علاقہ تھا، البتہ اس پر قندھار کے گورنر کا اثر و رسوخ تھا۔ ہمایوں اپنے لُٹے پِٹے قافلے کے ساتھ چاغی کی ایک با اثر شخصیت، ملک خطی کے ہاں مہمان ٹھہرے۔

تب ہمایوں کے سوتیلے بھائی، میرزا کامران قندھار کے گورنر تھے اور انہوں نے ملک خطی کو پیغام بھیجا کہ جب ہمایوں چاغی پہنچے، تو اُسے گرفتار کر کے قندھار پہنچا دیا جائے۔ ملک خطی چاہتا، تو ہمایوں کو اُن کے سوتیلے بھائی کے حوالے کر کے انعام و اکرام حاصل کر سکتا تھا، مگر وہ مقامی قبائلی روایات کا امین تھا، جن کے تحت مہمان کو دشمن کے حوالے نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا، اُس نے زادِ راہ، تیز رفتار گھوڑے اور محافظ فراہم کر کے ہمایوں کو ایران روانہ کیا اور ساتھ ہی گورنر قندھار کو یہ تسلّی بھی دی کہ ’’جب ہمایوں چاغی آئے گا، تو اُس کے حکم کی تعمیل کی جائے گی۔‘‘

اُس وقت اگر ملک خطی دبائو یا لالچ میں آ کر شہنشاہ ہمایوں کو گورنر قندھار کے حوالے کر دیتا، تو آج ہندوستان کی تاریخ مختلف ہوتی، کیوں کہ ہمایوں نے ایران پہنچ کر وہاں کے شہنشاہ، طہماسپ سے مدد حاصل کی اور اس کے نتیجے میں دوبارہ اپنا تخت حاصل کرنے میں کام یاب ہوا۔خان آف قلات کے دَور میں بھی چاغی مختلف قبائل کی آماج گاہ تھا۔ 

گرچہ یہ تمام قبائل احتراماً خود کو خان آف قلات کے زیرِ نگیں تصوّر کرتے تھے، مگر عملی طور پر یہاں ریاستِ قلات کا عمل دخل برائے نام ہی تھا۔ 19ویں صدی کے اوائل میں انگریزوں نے اپنی بین الاقوامی ضرورتوں کے تحت اس علاقے پر توجّہ دینا شروع کی ،تواس دوران پوٹینگر، میسن، چارلس نیپیئر، جان جیکب، رابرٹ سنڈیمن اور جنرل ڈائر نے تاجِ برطانیہ کے مفادات کی خاطر بلوچستان کے مختلف علاقوں کے دورے کیے۔ 

وہ مختلف حربے استعمال کر کےوقتاًفوقتاً مقامی باشندوں کی نفسیات، علاقے کی جغرافیائی ساخت، دست یاب وسائل اور مواصلاتی نظام سے متعلق تفصیلات تاجِ برطانیہ کو بھیجتے رہے۔ اس موقعے پر کئی انگریز مستشرقین نے مقامی باشندوں کی سادہ لوحی کا فائدہ اُٹھا کر انہیں عیسائی بنانے کی بھی کوشش کی، لیکن مکتبۂ دُرخانی ڈھاڈر سے وابستہ شخصیات اور دیگر علما نے اپنی جدوجہد سے ان کی چالوں کو ناکام بنا دیا۔

یہاں دو انگریزوں، ہینری پوٹینگر اور جنرل ڈائر کا ذکر بے جا نہ ہو گا۔ گو کہ دونوں کی چاغی آمد کے زمانے میں کم و بیش ایک صدی کا عرصہ حائل ہے، لیکن ان کے مقاصد ایک ہی تھے۔ یعنی برطانوی سلطنت کے خلاف دوسری عالمی طاقتوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے مقامی طور پر اپنا اثر رسوخ بڑھانا، بہ وقتِ ضرورت تاجِ برطانیہ کے تحفّظ کے لیے اقدامات کرنا اور مقامی باشندوں کو دشمن کا آلۂ کار بننے کی بہ جائے تاجِ برطانیہ کا ساتھ دینے پر آمادہ کرنا۔

یہ 19ویں صدی عیسوی کے آغاز کی بات ہے۔ تب ہندوستان پر برطانیہ کا قبضہ ہو چکا تھا اور رُوس اور فرانس بھی ’’سونے کی چڑیا‘‘ پر قبضے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ برطانیہ نے شاہِ ایران سے معاہدہ کیا کہ کسی غیر ملکی فوج کو ہندوستان پر حملے کی غرض سے ایران سے گزرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، جب کہ اس کے عوض برطانیہ، رُوس کے خلاف ایران کی مدد کے لیے اپنی فوج بھیجے گا۔ مزید برآں، ایران کو ایک لاکھ 20ہزار پائونڈز کی نقد رقم بہ طور امداد اور ایرانی فوج کو تربیت فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ 

دراصل، اس معاہدے کی آڑ میں برطانیہ یہاں اپنی فوج کی بھاری تعداد رکھنا چاہتا تھا۔ گرچہ رُوس کو ہندوستان پر حملے سے باز رکھنے کے لیے برطانیہ نے اس قسم کے کئی معاہدے کیے تھے، لیکن یہ ناکافی تھے۔ لہٰذا، اہداف کے حصول کے لیے جنرل میلکم جیسے زیرک شخص کا انتخاب کیا گیا، جو ایران کے بارے میں سب سے زیادہ معلومات رکھتا تھا۔ وہ 1810ءمیں ایک بار پھر کسی قسم کی مزاحمت کے بغیر ایران کے دارالخلافہ پہنچا۔ 

بہ ظاہر اُس کا مقصد ایرانی فوج کو تربیت فراہم کرنا تھا، لیکن در پردہ وہ ایران کی فوجی طاقت کا دُرست اندازہ لگانا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے بلوچستان اور افغانستان کے بیابانوں کا جائزہ لینا ضروری تھا۔ چناں چہ جنرل میلکم کے اور اُس کے جاسوس نہایت راز داری اور تحمل مزاجی سے اس مُہم جوئی میں مصروف ہے۔ تقریباً ایک صدی تک دو طاقت ور اقوام، برطانیہ اور رُوس کے درمیان وسط ایشیا کے غیر آباد علاقوں میں خفیہ جنگ جاری رہی، جسے ’’دی گریٹ گیم‘‘ قرار دیا گیا۔ 

اس ضمن میں لکھی گئی پیٹر باب کِرک کی کتاب، ’’The Great Game‘‘ کے مطالعے سے ہمیں نہ صرف دو صدیاں پہلے کے بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت، معاشرت، معیشت اور مذہبی اقدار کا پتا چلتا ہے، بلکہ دُنیا کی طاقت وَر اقوام کی نفسیات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دوسری اقوام پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کیسے کیسے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔ خیال رہے کہ آج بھی بلوچستان اپنے جغرافیے کے باعث عالمی طاقتوں کے نام نہاد عظیم کھیل کا میدان بنا ہوا ہے۔ 

بہر کیف، 1810ء کے موسمِ بہار میں دو جاسوس چاغی کے علاقے، نوشکی پہنچے۔ انہوں نے خود کو گھوڑوں کے تاتار تاجروں کے طور پر متعارف کروا کے مقامی باشندوں کا اعتماد حاصل کیا۔ ان میں سے ایک اپنے محافظین کے ساتھ ہرات، جب کہ دوسرا کرمان کی طرف روانہ ہو گیا۔ یہ دونوں برطانوی فوج کے آفیسرز، کیپٹن چارلس کرسٹی اور لیفٹیننٹ ہینری پوٹینگر تھے اور انہیں جنرل میلکم نےاُن کی زندگی کی اہم ترین مُہم پر روانہ کیا تھا۔ 

تین ماہ بعد 30جون 1810ء کو یہ دونوں جاسوس ایرانی شہر، اصفہان میں ایک دوسرے سے ملے۔ کرسٹی نے گھوڑے پہ سوار ہو کر دُنیا کے خطرناک ترین علاقے میں 2,250میل کا سفر طے کیا تھا، جب کہ پوٹینگر نے کرسٹی سے بھی 160میل سے زاید کا سفر کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے علاقے کے بارے میں سُود مند معلومات اکٹھی کیں، جس پر انہیں سال کا بہترین افسر قرار دیا گیا۔ 

بعد ازاں، لیفٹیننٹ پوٹینگر کو، تب جس کی عُمر 21برس سے بھی کم تھی، مستقبل کے ’’عظیم کھیل‘‘ میں نہایت اہم ذمّے داری سونپی گئی۔ مشترکہ طور پر خفیہ رپورٹ مرتّب کرنے کے علاوہ پوٹینگر نے اپنی ولولہ انگیز مُہم جوئی کی داستان کو تحریری شکل بھی دی۔ 

اسی طرح امرت سَر کے جلیانوالہ باغ میں قتلِ عام کرنے والے بدنامِ زمانہ بریگیڈیئر جنرل ڈائر کی تصنیف کردہ کتاب بھی ایک ایسی ہی مُہم کی رُو داد ہے، جو پہلی عالمی جنگ کے دوران فارس اور بلوچستان کے سرحدی رہزنوں کے خلاف طاقت کے استعمال اور دھونس، دھمکیوں سے عبارت ہے۔ یہ ’’ریڈرز آف دی سرحد‘‘ کے نام سے 1921ء میں لندن سے شایع ہوئی۔ حکومتِ برطانیہ کے حکم کی تعمیل میں جنرل ڈائر نے جب اپنی یہ مُہم شروع کی تھی، تو اُس وقت بلوچستان کی سرحدوں کا باضابطہ تعیّن نہیں ہوا تھا۔ ایران اور افغانستان کی جنوب مشرقی اور جنوب مغربی سرحدوں پر بلوچ قبائل اپنے اپنے سرداروں کے زیرِ اثر آزادانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ 

معروف محقّق و مصنّف، میر گُل خان نصیر کے مطابق، گرچہ اس علاقے میں ریکی، یار محمد زئی، اسماعیل زئی، گمشاد زئی اور ناروئی بلوچ قبائل آباد تھے، لیکن مجموعی طور پر یہ تمام قبائل ’’دامُنی‘‘ کہلاتے ہیں۔ جنرل ڈائر نے ان بلوچ قبائل کے خلاف فروری 1916ء میں اپنی ہتھیاروں کی نمایش اور دھونس دھمکیوں کی مُہم شروع کی، جو پورے 8ماہ تک جاری رہی۔ اس مُہم میں عیدو خان ریکی زئی نامی مقامی باشندے نے جنرل ڈائر کی معاونت کی۔ حد درجہ شاطر و چالاک عیدو خان نے مقامی بلوچ قبائل کے سامنے انگریز اہل کار کی مصنوعی طاقت کا ایسا نقشہ کھینچا کہ وہ اس سے مرعوب ہو گئے۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر جنرل ڈائر کو عیدو جیسا وطن فروش اور غدّار نہ ملتا، تو وہ بلوچ قبائل کو بہلا پھسلا کر اپنی طرف مائل کرنے اور دھونس دھمکیوں سے مرعوب کرنے میں اس قدرکام یاب نہ ہوتا۔ یہ عیدو ہی کی کار ستانی تھی کہ سادہ لوح بلوچوں نے پہلی مرتبہ موٹر کار دیکھنے پر اُسے عجوبہ، شیطانی آلہ اور تباہ کُن جنگی ہتھیار قرار دے دیا اور اُس سے اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ جنرل ڈائر کی برائے نام فوج نے اُن پر غلبہ حاصل کر لیا۔ 

نتیجتاً، نوشکی سے شروع ہونے والا سفر ایران کے علاقے، خواش میں انگریزوں کی بہ ظاہر فتح کی شکل میں ختم ہوا۔ بعد ازاں، جنرل ڈائر کی اس ڈائری کا ترجمہ بلوچستان کے نام وَر محقّق، تاریخ داں اور شاعر، میر گُل خان نصیر نے ’’بلوچستان کے سرحدی چھاپہ مار اور گوریلا جنگ جُو‘‘ کے عنوان سے کیا۔

واضح رہے کہ برطانوی حکومت 1876ء سے کوئٹہ کے راستے افغانستان اور پھر ایران کی سرحد تک ایک Strategic line کی تعمیر کے منصوبے پر کام کر رہی تھی، تاکہ فوجی نقل و حرکت تیزی سے ممکن ہوسکے۔ اس مقصد کے لیے سندھ کے شہروں، سکھر اور شکار پور کے درمیان واقع، رُک سے ریلوے لائن کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس سلسلے میں ایرانی بلوچستان اور قلات کے مابین مورخہ 24مارچ 1896ء کو معاہدۂ حد بندی سرحدات طے ہوا۔ بعد ازاں، ضلع چاغی کا قیام اور 15نومبر 1896ء کو انگریز پولیٹیکل ایجنٹ، F.C Webb Ware کی تعیناتی عمل میں آئی۔ 

جولائی 1899ء میں خان آف قلات، میر محمود خان اور اے جی جی بلوچستان کے مابین معاہدۂ نوشکی طے پایا، جس کے تحت نوشکی کا انتظام و انصرام برطانوی حکومت کے سُپرد کیا گیا، جب کہ اس کے بدلے برطانوی حکومت ہر سال مبلغ 9ہزار روپے خان آف قلات کو ادا کرتی تھی۔ وائسرائے ہند، لارڈ کرزن نے سیستان اور کوئٹہ کے مابین تجارتی راستے کے ذریعے ایران کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر زور دیا اور اپنے ایک افسر، Capt. Chevenix Trenchکو ایران میں برٹش ریذیڈنٹ مقرّر کر دیا۔ 

علاوہ ازیں، کوئٹہ میں ایرانی تاجروں کے لیے سیستان سرائے بھی قائم کی گئی، تاکہ ایرانی عوام سے روابط قائم کیے جائیں۔ متذکرہ بالا اقدامات کا اصل مقصد افغانستان کی طرح ایران کی سرحد تک بھی اسٹرٹیجک ریلوے لائن کی تعمیر تھی، تاکہ بہ وقتِ ضرورت فوج اور ساز و سامان سے بھری بوگیاں ایرانی سرحد تک پہنچائی جا سکیں۔ سو، یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ یہ تجارتی ریلوے لائن کی بہ جائے ایک مکمل Railway Military Frontier Service تھی۔ نوشکی ریلوے لائن کوئٹہ سے 16میل کی دُوری پر واقع، سپیزنڈ ریلوے اسٹیشن 1902ء میں فعال ہوا۔

پھر 91میل طویل ریلوے لائن نوشکی تک پہنچائی گئی اور 15نومبر 1905ء سے باقاعدہ ریلوے سروس شروع ہوئی۔ مذکورہ ریلوے لائن کی تعمیر پر ایک لاکھ روپے فی میل کے حساب سے رقم صَرف کی گئی اور ابتدا میں روزانہ ٹرین چلا کرتی تھی۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمنی اور ترکی کے مابین اتحاد قائم ہوا، تو دونوں ممالک نے ایران اور افغانستان کے راستے بلوچستان (برٹش انڈیا) میں داخل ہونے کا منصوبہ بنایا۔ اس موقعے پر برطانوی حکومت نے نوشکی ریلوے کو فوری طور پر مزید طویل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

یوں ستمبر 1916ء میں نوشکی، دالبندین سیکشن پر کام کا آغاز ہوا، جس کی تکمیل یکم فروری 1917ء میں ہوئی۔ علاوہ ازیں، مندرجہ ذیل منصوبے بھی پایۂ تکمیل کو پہنچے۔ دالبندین تا میر جاوا ( ایرانی سرحد ) ریلوے لائن کی تعمیر (اکتوبر 1920ء) اور میر جاوا، زاہدان ریلوے سیکشن کی تکمیل (یکم اکتوبر 1922ء)۔ 

ان منصوبوں کی تکمیل پر حکومتِ ہند اور تاجِ برطانیہ کو کم و بیش 4کروڑ روپے کے مصارف برداشت کرنا پڑے۔ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر مارچ 1921ء میں برطانوی افواج مشرقی ایران سے واپس آئیں، تو نو کُنڈی اور زاہدان کے مابین ریلوے سروس کی اہمیت تقریباً ختم ہوگئی، چناں چہ یہاں سے پٹری بھی اُکھاڑ لی گئی۔تاہم، دوسری عالمی جنگ میں نوکُنڈی، زاہدان ریلوے سیکشن کی دوبارہ ضرورت پیش آئی، کیوں کہ اس جنگ میں برطانیہ اور رُوس اتحادی تھے اور جرمنی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے۔ 

اس دوران ایران کے راستے برطانوی امداد رُوسی افواج تک پہنچائی جاتی۔ چناں چہ ایک مرتبہ پھرریلوے لائن ڈالی گئی اوریوں 20اپریل 1942ء تک ریلوے لائن پر دوبارہ ٹرین چلنے لگی۔ اس کے علاوہ کوئٹہ سے مغرب کی جانب نوشکی، احمد وال، دالبندین اور نوکُنڈی سے پاک، ایران سرحد پر واقع، تفتان کو ملانے والی سڑک بھی موجود ہے۔

چاغی میں مختلف قبائل صدیوں سے آباد ہیں۔ ان میں بادینی، جمالدینی، مینگل، محمد حسنی، پرکانی، سمالانی، گور گیج، بنگل زئی، نوتیزئی، ریکی اور بڑیچ قابلِ ذکر ہیں۔ قبائل کی اکثریت بلوچی اور براہوی زبانیں بولتی ہے، جب کہ بعض قبائل دونوں زبانوں میں یکساں مہارت رکھتے ہیں۔ چاغی مردم خیز سر زمین ہے۔ 

یہ ریکی، بشام اور قیصر خان جیسے کلاسیکی شعرا سمیت دیگر عظیم شعرا اور ادبا کا جنم استھان ہے، جن میں میر گُل خان نصیر، منیر بادینی، آزات جمالدینی، پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی، عاقل خان مینگل اور خلیفہ گُل محمد نوشکوی شامل ہیں۔ مقامی باشندوں کا ذریعۂ معاش زراعت، گلہ بانی، تجارت، ٹرانسپورٹ اور سرکاری ملازمت ہے۔ 

گرچہ اکثر افراد پیٹرول سمیت دیگر ایرانی مصنوعات کی تجارت سے بھی وابستہ ہیں، مگر سرحد پر کشیدگی کی وجہ سے اس میں اُتار چڑھائو آتا رہتا ہے۔ چاغی میں صحرا، ریت کے ٹیلے، سیاہ پہاڑ اور میدانی علاقے موجود ہیں۔ موسم کے اعتبار سے اس کا شمار گرم علاقوں میں ہوتا ہے اور بعض اوقات نوکُنڈی اور دالبندین میں درجۂ حرارت 48ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق، ضلع چاغی کی آبادی تقریباً 4لاکھ ہے۔ 

بد قسمتی سے اربوں روپے کے معدنی ذخائر رکھنے والے اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے اس خطّے میں روزگار کے وسائل محدود ہیں۔ پانی کے وسائل بھی کم یاب ہوتے جا رہے ہیں۔ نوشکی کے قریب بارانی پانی سے بننے والی قدرتی جھیل، زنگی ناوڑ بارش کی کمی کے باعث اکثر خشک رہتی ہے، جب کہ ماضی میں یہ جھیل علاقے میں زراعت کے لیے پانی کا اہم وسیلہ اور سائبیریا سے آنے والے نقل مکاں پرندوں کی آماج گاہ ہوا کرتی تھی۔ علاقے کی واحد بارانی ندی، خیصار اب پانی کو ترس گئی ہے۔ 

حکومت کو چاہیے کہ وہ ضلع چاغی میں روزگار کی فراہمی پر توجّہ دے، سیندک اور ریکوڈک جیسے منصوبوں میں مقامی افراد کے لیے ملازمتوں کی فراہمی یقینی بنائے۔ نیز، زمین داروں اور گلہ بانوں کو سہولتیں اور مراعات دے، تاکہ وہ ارضِ پاک کی ترقّی و خوش حالی میں اپنا حصّہ ڈال سکیں۔

تازہ ترین