میں جب بھی سوشل میڈیا پر اظہارِ خیال کا مرتکب ہوتا تھا تو میرے ایک قریبی عزیز رشتہ دار زیر بحث موضوع کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی ذاتی طنزیہ جملہ کس دیتے تھے۔ چند ہفتے پیشتر میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں وہ تھوڑا ٹال مٹول کرتے رہے لیکن میرے زیادہ اصرار کرنے پر پھٹ پڑے اور فرمانے لگے کہ میں پاکستان میں پیدا ہوا تھا لیکن میں ہر تحریر میں اپنے آبائی وطن کو ہدف تنقید بناتا ہوں اور ایسا میں ہر حکومت کے دور میں کرتا رہا ہوں۔ شاید ان کا یہ کہنا کسی حد تک درست ہی ہو کیونکہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اور لکھنا شروع کیا ہے پاکستان کے پورے حکمران طبقے (بلا تمیز اداراتی وابستگی یا سیاسی ایجنڈا) نے عوام کو وہ انصاف نہیں دیا جس کے وہ حقدار تھے۔ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی پہلوئوں سے حالات بد تر ہوئے ہیں۔ اس سیاق و سباق میں کیا میں یہ لکھنا بند کردوں کہ پاکستان کے عوام کا شدید استحصال ہو رہا ہے، امیر امیر تر ہو رہے ہیں اور باقی خلقت کا کوئی پرسان حال نہیں ہے؟ بنیادی طور پر ہم دونوں کے ذہنوں میں پاکستان کا مطلب بالکل مختلف ہے۔ وہ پاکستان کو ایک ملکی اکائی سمجھتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح اس کی ریاستی پالیسیوں کو ہمسایہ ملکوں اور بین الاقوامی سطح پر بہترین ثابت کیا جائے۔ میں پاکستان کو ایک مخصوص نوع کے انسانوں کی آماجگاہ سمجھتا ہوں اور تمنا کرتا ہوں کہ اس کے لوگ خوشحالی اور ہم آہنگی کی زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میرے اندر گاؤں کے وہ لوگ بھی زندہ ہیں جن کے ساتھ میں نے وقت گزارا۔ ہر پل اپنے ہی لوگوں کے بارے میں سوچتے اور لکھتے ہوئے عمر گزر گئی اور ایک ہمارے عزیز ہیں کہ:
مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتے
میرے عزیز ستر کی دہائی میں پیدا ہوئے ہوں گے۔ اس دور کی مذہبی بنیاد پرستی کے ابھار سے متاثر ہوتے ہوئے مذہبی نظام اور عالمی جہاد کے حامی رہے ہیں اور اسی زمانے کی مخصوص قوم پرستی کے معتقد ہیں۔ پاکستان میں ایک پوری نسل اس طرح کی محدود قوم پرستی کی اسیر رہی ہے اور ہے۔ اس میں عام لوگوں سے لے کر بڑے بڑے نامور دانشور اور ٹی وی کے نظریاتی گرو گھنٹال بھی شامل ہیں ۔یہ پورا گروہ ریاست کے مذہبی بیانیہ کا صرف حامی ہی نہیں رہا بلکہ ایسا نہ کرنے والوں کے لئے غداری کے سرٹیفکیٹ بھی جاری کرتا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں بعض مبلغین نے بیرونی ملکوں میں جائیدادیں بھی بنائیں اور جیب میں امریکی یا کسی دوسرے یورپی ملک کا پاسپورٹ یا گرین کارڈ بھی رکھا ہوا ہے۔ ـ
ان کے شدت پسند بیانیے کی وجہ سے ملک تیس سال تک شدید دہشت گردی کا شکار رہا جس میں لاکھوں لوگوں کی جانیں گئیں۔ اگر اس بد نصیب گروہ میں وہ لوگ بھی شامل کر لئے جائیں جن کو صحت اور زندگی گزارنے کی دوسری سہولتیں مہیا نہ کی گئیں تو سپرد خاک ہونے والوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ جائے گی۔ اب جب تاریخی عمل نے ثابت کردیا کہ یہ سارا پروجیکٹ قومی خود کشی پر موقوف تھاتو اس کے حامیوں کو کم ازکم اپنی فکری کج روی پر پشیمان تو ضرور ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا بلکہ اپنے نظریے پر مٹی ڈالنے کے لئے پہلے تو ساری ذمہ داری سامراجی طاقتوں پر ڈال دی گئی اور ساتھ ہی پرانے خیالات کو ’دھو مانجھ‘ کر اسی طرح کے ناعاقبت اندیشانہ رجحانات کی ترویج شروع کردی۔ اس کا بھی نتیجہ سامنے آگیا کہ جس دور میں بھوٹان جیسے ممالک بھی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں پاکستان کی معیشت اسی تند ہی سے سکڑ رہی ہے۔ پہلے مبہم نظریات کی مختلف بنیادیں بتائی جاتی تھیں اور اب ’’مظلوم کشمیریوں‘‘ کے کندھوں پر رکھ کر بندوقیں چلائی جا رہی ہیں۔ اس کے بارے میں تو معلوم نہیں کہ تاریخ بیچارے ’’مظلوم و مقہور‘‘ کشمیریوں کی قسمت کا کیا فیصلہ کرتی ہے لیکن یہ واضح ہے کہ اس کے پردے میں جس نامنصفانہ نظام کو قائم رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں وہ شاید کامیاب نہ ہوں۔
تاریخ گواہ ہے کہ قومی ہیجان میں مبتلا قومیں خود کشی کی مرتکب ہوتی ہیں۔ جب یورپ میں قومی ہیجان طوفانی شکل اختیار کرگیا تھا تو دو عظیم جنگیں ہوئیںتھیں جن میں کروڑوں لوگ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ جب سے یورپ نے ماضی کی غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے ایک مشترکہ یونین بنائی ہے تو ایک پورا براعظم امن اور خوشحالی کی زندگی گزار رہا ہے۔ برصغیر میں بھی ہندوستان سمیت ان قوموں کا مستقبل اچھا نہیں ہے جو قومی ہیجان کے ذریعے ریاستی نظام چلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جب تک قومی جنون کی معاشی بنیادیں ختم نہیں ہوتیں ہمارے سب لیکچر اور مضامین بھینس کے آگے بین بجانے سے مختلف نہیں ہیں۔ یورپ بھی قومی تنگ نظری کو چھوڑ کر اس وقت یونین بنا جب سرمایہ داری نظام اور نئی ٹیکنالوجی نے ’مقامیت‘ کی عملی طور پر نفی کر دی۔ ابھی ہندوستان اور پاکستان یورپ کے جنگ عظیم سے پہلے والے مرحلے سے گزر رہے ہیں جب سرمایہ داری اپنی ابتدائی منازل پر تھی۔ اس صورت حال میں غالب ہی یاد آتے ہیں:
آرزو صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک