• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برلن(نیوز ڈیسک)عالمی سطح پر بھوک کے خاتمے کے لیے کوشاں غیر سرکاری جرمن تنظیم ʼوَیلٹ ہُنگر ہِلفے‘ یا ʼورلڈ ہَنگر ہیلپ‘ (WHH) کی گزشتہ روز جاری کردہ ورلڈ ہَنگر انڈیکس کے مطابق دنیا میں 822 ملین یا 82 کروڑ سے زائد انسان ایسے ہیں، جنہیں بھوک کے مسئلے کا سامنا ہے۔ ماضی میں اس عالمی مسئلے پر قابو پانے کے لیے جو بھی کامیابیاں حاصل کی گئی تھیں، وہ آج جگہ جگہ پائے جانے والے مسلح تنازعات، جنگوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تقریبا ضائع ہو چکی ہیں۔ سال 2019ء کے انڈیکس کے مطابق وسطی افریقی جمہوریہ دنیا کا وہ ملک ہے، جہاں 2017ء سے بھوک کا مسئلہ انتہائی حد تک شدت اختیار کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ چار دیگر ممالک یمن، چاڈ، مڈغاسکر اور زیمبیا وہ ممالک ہیں، جہاں بھوک کے مسئلے کی شدت تشویش ناک ہے۔ورلڈ ہَنگر ہیلپ کے ایک مرکزی عہدیدار فریزر پیٹرسن نے یہ عالمی انڈیکس جاری کرتے ہوئے بتایا کہ اچھی خبر یہ ہے کہ آج کی دنیا میں سائنسی ترقی، تکنیکی پیش رفت اور بہتر مالیاتی امکانات کے باعث یہ ممکن ہے کہ دنیا سے بھوک کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ 2000ء سے لے کر آج تک دنیا میں مسلسل کیے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں عالمی سطح پر بھوک میں تقریبا 31 فیصد کمی ہوئی ہے۔ یہ پیش رفت دنیا کے تقریبا سبھی ممالک اور خطوں میں دیکھنے میں آئی ہے۔فریزر پیٹرسن کی تنظیم اپنے پارٹنر ادارے کنسرن ورلڈ وائڈ کے ساتھ مل کر ہر سال ورلڈ ہَنگر انڈیکس جاری کرتی ہے۔ پیٹرسن کے مطابق دنیا کے جن ممالک اور خطوں میں آج بھی وسیع پیمانے پر بھوک پائی جاتی ہے، وہاں اس کی بڑی وجوہات میں جنگیں، مسلح تنازعات اور ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے آنے والی تبدیلیاں ہیں۔
تازہ ترین