• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

پندرہ سال پہلے کی بات ہے، اُس وقت لاہور کے مضافاتی علاقے میں ہمارا ایک وسیع و کشادہ گھر تھا، جہاں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر نعمت موجود تھی، اُن ہی میں ایک شہتوت کے درخت کی صورت ایسی نعمت بھی تھی، جسے میرے بڑے بھائی نے اپنے ہاتھوں سے اُگایا تھا۔ اس کی شاخیں گھر کے صحن تک آتی تھیں۔ درخت سال میں دو بار انتہائی میٹھا، ذائقے دار اور رس سے بھرپور پھل دیتا تھا۔ میں اُس وقت بہت چھوٹی تھی، میرا زیادہ تر وقت گڑیوں سے کھیلنے کی بجائے بچّوں کے رسالے، نونہال، بچّوں کی دنیا اور کورس کی کتابیں پڑھتے اسی درخت کے سائے میں بیٹھ کر گزرتا۔ مجھے اس درخت سے ایک خاص انسیت، لگائو اورمحبت ہوگئی تھی۔ ان ہی دنوں میں نے نونہال میں ایک کہانی پڑھی کہ کس طرح ایک درخت اپنے مالک کے مشکل وقت میں، اُس کی مدد کرتا ہے اور درخت صرف پھل دینا یا تن کر زمین پر کھڑے رہنا ہی نہیں، بلکہ ہماری باتیں سننا اور مدد کرنا بھی جانتا ہے۔ اس وقت چوں کہ میں کم سِن تھی، اس لیے اس کہانی کو حقیقت سمجھتی تھی کہ میرا درخت بھی میری باتیں سنتا ہوگا اور مشکل وقت میری مدد بھی کرے گا۔ مَیں روز درخت سے مختلف باتیں کرتی، اس کے پتّے، ٹہنیاں صاف کرتی اور وہیں اس کے سائے میں بیٹھی رہتی۔ یہ سب میری زندگی کا ایک اہم حصّہ تھا۔

اُن ہی دنوں میرے ابّو بہت بیمار پڑگئے، انہیں کسی بھی دوا سے فرق نہیں پڑرہا تھا، گھر میں ہر طرف پریشانی تھی۔ چوں کہ میں سب سے چھوٹی اور ابّو کی لاڈلی تھی، اس لیے بہت زیادہ پریشان تھی کہ ابّو کب ٹھیک ہوں گے، دوسری طرف مجھے یہ پریشانی بھی لاحق تھی کہ محلّے والے درخت کاٹنے کا کہہ رہے تھے، انہیں گویا درخت پریشان کررہا تھا اور مجھے اُن کی باتیں۔ ان باتوں سے میں بہت اُداس تھی، ایک دن اسی درخت سے اپنی پریشانی شیئر کررہی تھی کہ ’’اب تم میری مدد کرو۔‘‘ اس دوران امی آئیں اور کہنے لگیں کہ درخت سے خوب پکے ہوئے شہتوت توڑ کر مجھے دے دو۔ جب شہتوت توڑ کر میں اندر آئی، تو امّی سے پوچھا کہ اتنے سارے شہتوت کا آپ کیا کریں گی؟ تب امّی نے بتایا کہ کسی نے کہا ہے کہ اِن سے ابّو کا علاج ہوسکتاہے۔ یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ ابّو صحت یاب ہونے والے ہیں۔ پھر میں اپنے درخت کے پاس جاکر بیٹھ گئی اور اس کا بہت شکریہ ادا کیا کہ تمہارے پھل سے میرے ابّو کو شفا مل رہی ہے۔ درخت کو گلے لگائے کافی دیر وہیں کھڑی رہی۔ چند روز بعد جب ابّو بالکل صحت یاب ہوگئے، تو محلّے داروں نے پھر سے درخت کٹوانے کی بات کرنا شروع کردی۔ تب ابّو نے انہیں اجازت نہ دی اور یوں میری دونوں پریشانیاں ختم ہوگئیں۔

اگرچہ آج میں جانتی ہوں کہ میری دعائیں، میری باتیں اللہ تعالیٰ نے سُنی تھیں، اللہ ہی نے میرے ابّو کو شفا دی اور درخت کو کٹنے سے بچالیا، لیکن تب میں یہی سمجھتی تھی کہ میرے درخت دوست نے ایسا کیا ہے۔ یہ میرے بچپن کی ایک انوکھی اور بہت خوب صورت یاد تھی، جسے سوچ کرآج بھی ہنس دیتی ہوں۔ ایک عرصہ گزر جانے کے بعد نہ جانے کیوں آج دل نے کہاکہ یہ واقعہ آپ لوگوں کےساتھ شیئر کروں، سو لکھ بھیجا ہے۔

(ماہ نور فاطمہ، لاہور)

تازہ ترین