پروفیسر شاداب
آج کے پُرآشوب دور میں ہر شخص مسائل کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عوام تلخیوں اور پریشانی کا شکار ہو گئے ہیں، خاص طور پر نوجوان عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ایسے میں قابل تحسین ہیں وہ لوگ جو لوگوں کے دُکھ درد سمیٹنے اور ان میں آسانیاں بانٹنے کے لئے عملی طور پر سرگرم رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کام آنا انسانیت اور عبادت ہے۔ جو انسان دوسروں کے غم میں شریک ہوتا ہے۔ اس کے اپنے غم مٹ جاتے ہیں۔ زمانہ جوں جوں ترقی کرتا جا رہا ہے، باہمی محبت و تعاون کا جذبہ سرد پڑتا جا رہا ہے۔
ایک دوسرے کے کام آنا ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل کا نقطہ ٔ آغاز ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، بنیادی حقوق تک سے محروم ہیں۔ انسان کی ضروریات میں صحت، تعلیم، لباس اور طعام و قیام ہے مگر ہمارے ملک میں زیادہ تعداد ان سے بھی محروم ہے، آج کے پرُ فتن دور میں ایسے اداروں کا قیام بے حد ضروری ہے جو خدمت خلق فلاحی اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اسلام کے عملی تعارف کے لئے خدمت خلق کا میدان سب سے پسندیدہ اور مؤثر عمل ہے۔ فلاحی و سماجی خدمات میں نوجوانوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔
کیونکہ وہ بے غرض ہو کر خدمت خلق کا کام انجام دیتے ہیں۔ معاشرے میں مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کا سہرا بھی نوجوانوں کے سر ہے۔ نوجوان ملک و ملت کا مستقبل ہوتے ہیں۔ قوم کے معمار اور قیمتی سرمایہ تصور کئے جاتے ہیں۔ وہ ملت کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ دماغی و جسمانی لحاظ سےدوسروں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ان میں ہمت و جستجو کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔
کٹھن حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کرنا جانتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی ترقی کی ضمانت نوجوانوں میں مضمر ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سے نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہے ہیں۔ معاشرے کے معاشی، فلاحی، انفرادی اصلاحی اور تحقیقی پہلو سے وابستہ انسانیت کی خدمت و ترقی کے امور کو سماجی کام کہا جاتا ہے۔ ان کاموں کا تعلق روح اور عمرانیات کے فلسفہ میں پنہاں ہے۔
انسانیت سے پیوست ہر پہلو کی اصلاح، فلاح اور رہنمائی کے لئے جو بھی راستہ چنا جائے، وہ سماجی خدمت کے زمرے میں آتا ہے۔ سماجی کارکنان کی ذمہ داری ہے کہ وہ انفرادی طور پر بھی مثبت و تعمیری سوچ کو پھیلائیں اور مفاد عامہ کے مسائل کے حل کے لئے سماجی تقاضوں کے تحت کوششیں کریں، کیونکہ وہ خود بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ہیں، خاص طور پر نوجوان سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر وطن عزیز پاکستان کی تعمیر و ترقی و حفاظت میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
ہر معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بڑی خاموشی کے ساتھ فلاح و بہبود کے کام کرتے ہیں۔ ایسے افراد کو نہ تو شہرت کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کا لالچ، ان کے فلاحی کاموں سے حاصل کردہ اطمینان ہی ان کے لئے سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ فلاحی ادارے ہمارے معاشرے میں نعمت سے کم نہیں ہیں۔ ہمارے سماجی مسائل کی ایک بڑی وجہ جذبہ خدمتِ خلق کی کمی ہے۔ ہمارے ارد گرد مسائل میں گھرے کئی افراد مدد کی آس میں تڑپ رہے ہیں۔
بیمار، لاچار، بے سہارا، یتیم، بیوہ، غریب، مسکین، بے گھر، سیلاب یا زلزلہ کی تباہ کاریاں یا دوسری کئی آفتوں کے مصیبت زدہ افراد، ایسے پریشان حال لوگوں کی مدد کرنا ہم پر فرض ہے، خصوصاً نوجوان پر۔ انہیں چاہیے کہ ایسے افراد کی مدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور لوگوں میں شعور آگاہی پیدا کریں تاکہ وہ معاشرے کے کار آمد شہری بن کر ملک و قوم کی ترقی میں تعمیری کردار ادا کریں۔ علاقے کے مسائل کی نشاندہی کریں۔ نوجوان اپنے فارغ وقت میں دوسروں کو فائدہ پہنچائیں۔
عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت اپنا فارغ وقت کبھی فیس بک استعمال کرنے میں، تو کبھی اسٹیٹس لگانے میں، کبھی ٹک ٹاک پر ویڈیوز اَپ لوڈ کرنے میں ضائع کر دیتے ہیں۔ اپنے شوق کی تسکین ضرور کریں مگر اپنے قیمتی وقت کو کارآمد بنانے کے لئے سماجی و فلاحی کاموں کے ذریعے انسانیت کی خدمت کریں۔ اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی پیدا کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ وہ کون سی سرگرمیاں ہیں، جنہیں انجام دے کر آپ اس کرہ ارض کو بہتر بناسکتے ہیں؟
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ نوجوان نسل فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کریں۔ یتیم بچوں کو تعلیم و تربیت فراہم کریں، غریب نادار بچوں کو مفت کتابیں فراہم کریں، کسی بیمار کے لئے ادویات، عطیہ خون کا بندوبست کریں، غریب گھرانوں کی گزر اوقات بہتر بنانے کے لئے ان کی رہنمائی کریں، مقامی مساجد میں پنکھے، واٹر کولر وغیرہ عطیہ کریں، کسی اسکول، ڈسپنسری یا مسجد کی تعمیر میں حصّہ لیں، تعلیم بالغاں کے لئے کام کریں، اسپتالوں میں موجود مریض بھی توجہ کے طلبگار ہوتے ہیں، اپنے فارغ وقت میں سے کچھ وقت ان کے لئے بھی نکال سکتے ہیں، ہمارے معاشرے میں ضعیف العمر افراد کا ایک ایسا طبقہ بھی ہے، جو معاشی طور پر بدحال ہیں اور کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
ایسے افراد بھی ہمدردی اور توجہ کے مستحق ہیں۔ اولڈ ہومز میں جاکر تنہائی کا شکار اور معاشرے کے ستائے بزرگوں کی دلجوئی کریں، خاص طور پر اپنے خاندان کے بزرگوں کے ساتھ کچھ وقت ضرور گزاریں ان کی گفتگو سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہو گا اور ان کی دعائیں ملیں گی۔ ان کے تجربوں سے آپ کو یقینی طور پر فائدہ ہو گا۔ اس کے علاوہ اپنی گلی محلے کی صفائی پر نظر رکھیں۔ اپنے محلے پڑوس کے نوجوانوں کو ساتھ لے کر خود ہی اپنی گلی کی صفائی کا آغاز کر سکتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ لوگوں کی صحت کا ہے۔ اسپتالوں میں جائیں تو مریضوں کی قطاریں لگی نظر آئیں گی۔ ہر بیماری پر خرچا ہوتا ہے۔ لیکن ہر فرد مہنگا علاج کرانے کی استطاعت نہیں رکھتا، لہٰذا مخیر حضرات سے چندہ لے کر مستحق مریضوں کی مدد کریں۔ اپنے گرد و پیش کے لوگوں میں جذبہ حب الوطنی بیدار کریں۔ ضرورت اس امرکی ہےکہ نوجوان طالب علم اپنے علم سے تاریک راہوں کو روشن کریں۔ کسی فلاسفر نے خوب کہا ہے کہ ’’ہمارے الفاظ ہی امید کے چراغ روشن کرتے ہیں۔
اچھے الفاظ پر کچھ خرچ نہیں ہوتا بلکہ اچھے الفاظ سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ الفاظ خوشبو کی طرح ماحول کو معطر کر دیتے ہیں۔ یہ مواقع ہمیں ترقی کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص محروم طبقے کی بھلائی کے لئے کچھ نہ کچھ کر سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی دولت یا مادی اشیاء سے دوسروں کی مدد نہیں کر سکتے تو ہم اپنے وقت، علم، ذہانت اور اپنے ٹیلنٹ سے دوسروں کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتے ہیں۔ جب آپ اپنا ذہن بنا لیں کہ آپ نے خدمت گزار بننا ہے تو آپ کے ذہن میں یقیناً مختلف خیالات آنے لگیں گے۔
ان خیالات پر آسانی سے عمل کر سکتے ہیں، جن سے آپ کی تعلیم، ملازمت یا کام متاثر نہیں ہوتا۔ اگر ہفتے میں دو تین گھنٹے بھی بھلائی کے کاموں کے لئے نکال لئے جائیں تو اس سے معاشرے میں کئی اچھی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ اگر آپ انفرادی طور پر فلاحی کام کرنے سے قاصر ہیں تو مختلف نوجوانوں پر مشتمل گروپس بنائیں۔ فارغ وقت میں سماجی اور فلاحی مسائل کے حل کے لئے مل کر کام کر سکتے ہیں۔
رضا کارانہ سرگرمیاں ملازمت کے حصول اور کیریئر میں ترقی کے لئے آسانی پیدا کرتی ہیں۔ ملازمتوں کے لئے لیڈر شپ، ٹیم ورک مؤثر ابلاغ، نیا قدم اٹھانے جیسی صلاحیتوں کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ فلاحی اور سماجی کام کرنے سے ہماری یہ خوبیاں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ وہ نوجوان بہت قابل فخر ہیں جو اپنی سی وی، اپنے پروفائل میں معاشرے کے محروم طبقے کی بھلائی اور فلاح و بہبود کے لئے اپنے کاموں کا ذکر فخریہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔
ایسے نوجوانوں کو ترجیح بنیاد پر روزگار فراہم کرنا چاہئے۔ یہ نوجوان محنتی اور باصلاحیت ہوتے ہیں، خاص طور پر، محب وطن دردِ دل رکھنے والے اور معاشی طور پر غیر مستحکم ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ کرنے کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے اگر یہ برسر روزگار ہوں گے تو معاشی طور پر دوسروں کی مدد کرنے میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔
نوجوانو! فلاحی کام کرنے سے وقار بلند اور عزت نفس میں اضافہ ہوتا ہے۔ کسی مستحق فرد کی مدد کرنے سے دلی سکون ملتا ہے۔ یہ کام صدقہ جاریہ اور غریب و نادار افراد کی دعائوں کا وسیلہ ہوتے ہیں۔ فلاحی کاموں میں حصہ لینے والوں کی صحت بہت اچھی رہتی ہے اور انسان مصروفیت کی وجہ سے چاق و چوبند رہتا ہے۔ ذہنی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے، کسی بھی قسم کے ذہنی دبائو کا شکار نہیں ہوتے ہیں۔ دوسروں کے لئے بھلائی کے کام کرنے سے ہماری اپنی ذات کو فائدہ ہو رہا ہوتا ہے۔
مثلاً اگر ہم کسی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں تو درحقیقت ہم خود بھی سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے علم میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے۔ ایک سماجی کارکن کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس کام کا آغاز کرے، اسے دل جمعی اور لگن سے مکمل انجام دے، بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ وقتی جوش کے تحت کسی کام کا آغاز تو کر لیا جاتا ہے۔ لیکن راستے کی مشکلات اور رکاوٹوں کے سبب پہلے ہی مرحلہ میں مایوس ہو کر ہمت ہار دیتے ہیں۔ کام کے آغاز سے قبل اس کے تمام تر روشن اور تاریک پہلوئوں کا جائزہ لیں، اس کے بعد جب کام کا آغاز کریں تو پھر اسے استقامت، تحمل و برداشت اور بردباری کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔
سماجی کارکن کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی کام کی انجام دہی کے لئے باہمی مشاورت کو لازم ٹھہرائے اور پھرحکمت و تدبر کے ساتھ اپنے مشن کی تکمیل کے لئے تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ غرور تکبر، نمود و نمائش، مزاج کی بے اعتدالی اور تنگ دلی سے اجتناب کرے۔ ایک سماجی کارکن کا یہ کردار ہونا چاہئے کہ وہ شادی بیاہ کی فضول سموں کے خاتمے کا آغاز اپنے گھر سے کرے تاکہ وہ مؤثر طریقے سے معاشرے میں موجود ان جاہلانہ فضول رسم و رواج کے خاتمے کے لئے جدوجہد کرے۔
معاشرے میں پھیلی بے شمار خرابیوں میں ایک بڑی خرابی رشوت اور کرپشن ہے جو آج کل اپنے عروج پر ہے نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کو کرپشن سے نجات دلانے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے اور لوگوں میں آگاہی مہم کے لئے سیمینارز اور کانفرنسوں کا انعقاد کریں۔ اگر حکومت اور نوجوان سماجی کارکنان معاشرے میں پھیلی ہوئی خرابیوں کو دور کرنے کا عزم کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا مستقبل تابناک اور روشن نہ ہو کہتے ہیں کہ عزم و حوصلہ بلند اور چٹان کی طرح ہو تو کامیابی ضرور قدم چومتی ہے۔ معروف سماجی شخصیت ایدھی صاحب مرحوم نے نوجوانوں کو عزم و حوصلے کا واضح پیغام دیا۔ وہ نوجوانوں کے لئے رول ماڈل ہیں۔
نوجوان ان کے نقش قدم پر چل کر سماجی و فلاحی خدمت خلق کے کام احسن طریقے سے بخوبی انجام دے سکتے ہیں اور پوری دنیا میں اپنا نام روشن کر سکتے ہیں۔ ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے عبدالستار ایدھی کے پوتے سعد ایدھی نے کہا کہ ’’میں نے جب سے آنکھیں کھولی ہیں، اپنے والد اور دادا کو فلاحی کام کرتے دیکھا‘‘ اکثر والدین اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر ڈاکٹر، انجینئر یا کسی بڑے عہدے پر فائز ہونے کا خواب دیکھتے ہیں مگر اپنی پوری زندگی انسانیت کی خدمت میں وقف کرنے والے عبدالستار ایدھی نے نہ صرف اپنے بیٹے فیصل ایدھی بلکہ پوتے سعد ایدھی کو بھی بچپن سے انسانیت کی خدمت کرنے کی ترغیب دی اور فلاحی کاموں کا شوق جگایا۔
ہمارے ملک میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جو انسانیت کی خدمت کے لئے سماجی اور فلاحی کام انجام دے رہیں۔ ہمارے معاشرے کا ہر فرد فلاحی کاموں میں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرے۔ اُن میں سماجی اور فلاحی شعور اجاگر کریں۔ ہر سطح پر فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود تمام نوجوانوں کے حوالے سے کام کرنے والی فلاحی تنظیموں کو یکجا کرکے ایک نئی ہمت و جذبے کے ساتھ سیاسی و سماجی شعور اجاگر کرکے ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔
ایک اچھا سماجی کارکن نوجوان اچھا سیاست دان بھی بن سکتا ہے، کیونکہ اسے عوامی مسائل کا گہرا مشاہدہ ہوتا ہے ایوان بالا میں سماجی ورکر نوجوانوں کا بڑی تعداد میں پہنچنا عام مسائل سے دوچار افراد کی نمائندگی اور ان کی آواز بن سکتا ہے۔ قوتوں، صلاحیتوں، حوصلوں، اُمنگوں، جفا کشی، بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام جوانی ہے۔