وادیٔ سندھ 5ہزار سال پرانی تہذیب کی حامل دھرتی ہے، جہاں پر ایک سے بڑھ کر ایک نابغہ روزگار شخصیت گزری ہیں۔ اس دھرتی کو صوفیاء و اولیائے کرام کی دھرتی بھی کہا جاتا ہے۔ماضی کے جھرونکوں میں جھانک کر دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ کیسی کیسی بلند پایہ شخصیات نے سندھ کو اپنا مسکن بنایا اور یہاں کے لوگوں کو امن و آشتی، صبر و تحمل، پیار و محبت، بھائی چارے اور ہم آہنگی کا درس دیا۔ ایسی ہی ایک شخصیت نواب میر یعقوب رضوی کی ہے جوکہ بکھر کے مشہور رضوی نقوی سادات خاندان کے امیر، سید محمد مکی کی اولادوں میں سے تھے۔
ان کا شجرہ نسب اس طرح ہے، سید میر یعقوب رضوی بن سید میران ثانی بن سید یعقوب بن سید ابو اسحاق بن سید ابو الخیر بن سید بڈھل بن سید نعمت اللہ بن سید رکن الدین بن سید سعد الدین (جنہوں نے روہڑی شہر کی بنیاد رکھی)بن سید میران اول بن سید خواجہ خلق الصدق بن سید تاج الدین بن سید صدر الدین محمد خطیب بن امیر سید محمد مکی شاہ ہے۔ روایت میں ہے کہ امیر سید محمد مکی شاہ نے 658 ہجری میں سکھر شہر کی بنیاد رکھی۔
ان کی تربت، ڈی سی آفس سکھر اور ماڈرن اسکول کے قریب ہے اور آج بھی روزانہ سیکڑوں معتقدین ان کےمزار پر حاضری دے کر فیض حاصل کرتے ہیں۔ نواب میر یعقوب رضوی 24 صفر 1026 ہجری ،3مارچ1617ء میں سیدمحلہ (سائیندی محلہ)میں سید میر میران ثانی کے گھر پیدا ہوئے، ان کی علمی قابلیت کے بارے میں مولانا دین محمد وفائی تذکرہ مشاہیر سندھ میں لکھتے ہیں کہ میر سید یعقوب ولد سید میران اولاد سید محمد مکی رحمۃ اللہ بانی بکھر وسکھر، میر یعقوب ایک بڑے عالم و فاضل اور صاحب قلم تھے۔
اپنی قابلیت کے طفیل شاہ جہاں اور عالمگیر کے زمانے میں بڑےبڑے سرکاری مراتب پر فائز رہے۔ میر صاحب کو اورنگزیب بادشاہ نے 23ذوالقعد 1069ھ، 12اگست1659ء کو شاہانہ خلعت سے سرفراز کیا اور انہیں 9ذوالحج 1069ہجری 28اگست 1659ء کو سرکاری ہنبل، کوہ، کماعون اور سری نگر کشمیر کی داروکی کے عہدے پر فائز کیا۔
اس کے علاوہ انہیں پانچ صد اور ایک سو سواروں کا منصب بھی عطا کیا گیا۔ میر صاحب اسی عہدے پر پورے8سال اور 2ماہ فائز رہے۔اس دوران سیہون میں امن و امان کی صورت حال انتہائی دگرگوں تھی اور عوام خود کو غیر محفوظ تصور کرتے تھے۔مغل بادشاہ کے لیے سیہون میں امن وامان کا قیام نہایت اہم مسئلہ تھا اس لئے اورنگزیب نے سندھ میں سیہون سرکار کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے میر یعقوب رضوی کو سیہون کی فوجداری کے فرائض تفویض کیے۔ اور نگزیب نے انہیں ہفت صد، پانچ سو سوار شاندار سروپا خلعت ایک ہاتھی اور عمدہ گھوڑا عنایت کیا اور ان کے ساتھ سیہون کی فوجداری کا پروانہ بھی عطا کیا۔
جس کے بعد میر صاحب شاہ جہاں آباد (دہلی) سے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ سندھ کی جانب روانہ ہوئے۔ پہلے کچھ وقت لاہور میں قیام کیا جہاں سے 17ربیع الثانی 1078ہجری 6اکتوبر1668ع کو بکھر پہنچے اور یکم جمادی الاول 19اکتوبر1667کو سیہون پہنچ کرفوجدار کا عہدہ سنبھالا۔ میر صاحب نے سیہون میں فوجدار مقرر ہونے کے بعد وہاں کے عوام کی خراب اور ابتر حالات کو بہتر بنانے میں مشغول ہوگئے اور انتظامی حالات کو کافی بہتر بنایا، وہاں کے عوام جو امن وامان کی خراب صورتحال کے باعث دوسرے علاقوں میں نقل مکانی کرگئے تھے،صورت حال بہتر ہونے کے بعد دوبارہ اپنے وطن واپس آگئے، ان کی آبادکاری کی گئی۔
سیہون میں لوٹ مار، چوری ، قتل اور اغوا کی وارداتوں کا سختی سے نوٹس لے کر سماج دشمن عناصر کی سرکوبی کی اور امن وامان کی صورتحال کو بحال کرالیا۔آمد و رفت اور تجارت کو بھی فروغ حاص ہوامیر یعقوب علی خان رضوی 16 رجب 1084 ھ 27اکتوبر 1673کو سیہون کے فوجداری عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
وہ اس عہدے پر چھ سال چار ماہ فائز رہے اوریکم شعبان 1084 ہجری 11نومبر1673ع کو واپس سیہون سے روہڑی پہنچے اس کے بعد روہڑی میں ایک سال گزارا اور18شعبان 1085 ھ 16نومبر 1684 کو دہلی روانہ ہوئے اور 12ربیع الثانی1087 ہجری 3جولائی 1686 کو عالمگیر کے دربارمیں حاضر ہوئے ۔ انہیں دربار میں اورنگزیب کی جانب سے سروپا فاخرہ خاص ایک ہاتھی، سونے کی زنجیر، جھالدار پالکی سمیت20لاکھ درہم نقد، ہفت صدی منصب 500 سواراور2عمدہ گھوڑوں کے ہمراہ بکھر کی فوجداری ، امین اور دیوان کی سند عطا کی گئی۔ میر صاحب 28صفر1088 ہجری 31مئی 1677 ع کو بکھر پہنچے۔ان کی بکھر کی فوجداری کے بارے میں میاں بیگ محمد لکھتے ہیں، میر یعقوب رضوی کے دور میں (پرگنن) کا بندوبست بہت اچھا دیکھنے میں آیا اور مظلوموں کی داد رسی ،موقع پر ہی کی جاتی تھی۔
اہل خرقہ نچلے طبقات اور رعایا بہت خوش تھی۔ سرمایہ داروں سے جذیے کی رقم زیادہ لی جاتی تھی۔ میر صاحب نے اپنے بکھر کے نوابی کے دور میں کبھی بکھرکےقلعے میں رہائش اختیار نہیں کی تھی لیکن روہڑی اسٹیشن کے قریب 15ایکڑ رقبےپر قلعہ شاہ آباد بنوا کر اس میں رہائش اختیار کی ۔اس سے قبل ان کا خاندان روہڑی شہر میں رہتا تھا۔
میر یعقوب رضوی نے اپنے فرزند کی ولادت کی خوشی میں حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر خوبصورت کٹہرے پر ایک عالیشان سائبان لگوایا جس پر فارسی میں اشعار بھی لکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ سیہون میں 1083ء میں عیدہ گاہ مسجد تعمیر کرائی، خود روہڑی کے قلعہ شاہ آباد میں اپنے اہل و عیال کی رہائش کے لئے سبز محل اور لال محل تعمیر کرائے ان کے چاروں کونوں پر دیگر الگ الگ چار محل تعمیر کرائے، قلعے کی دو دیواریں تھیں، جو کہ 25 فٹ اونچی تھی، اس کے علاوہ ایک مسجد تعمیر کرائی جوکہ آج تک موجودہے۔
1089 ہجری قلعہ میں سبز محل اور لال محل کے درمیان ایک باغ تعمیر کرایا اوراورنگزیب مسجد قلعہ کے قریب تعمیر کرائی۔ میر صاحب نے پانچ شادیاں کیں جس سے انہیں پانچ بیٹیاں اور 2فرزند تھے جن میں سے ایک بیٹی اور بیٹا صغیر انتقال کرگئے جبکہ ان کے پگدار بیٹے میر صادق علی خان رضوی تھے۔
میر یعقوب رضوی 65 سال کی عمر میں 22ربیع الاول 1091ہجری 22 اپریل 1680 میں دار فانی سے کوچ کرگئے۔ وہ آخری قت تک بکھر کی گورنری کے عہدے پر فائز رہے انہیں قلعہ شاہ آباد میں دفن کیا گیا۔ نواب سید یعقوب رضوی کے گھرانے میں بڑے عالم، ادیب اور شاعر پیدا ہوئے۔