جمہوریت کی متفقہ اور تسلیم شدہ عالمی تعریف کے مطابق عوام کی حکومت ، عوام کے لئے ،عوام کے ذریعے ہی قائم ہو تی ہے ۔ ایک ووٹنگ والے دن کو چھوڑ کر پاکستان کے نظا م ِ حکومت میں عوام کتنا شریک ہو تے ہیں ؟ عوام خوب جانتے ہیں ۔
پاکستانی ریاست کے اقتدار میں عوام کی شرکت کے لئے ریاستی ادارے کس قدر سنجیدہ ہیں ؟ اس کا ثبوت آئین کے آرٹیکل 32میں مو جو د ہے ۔جسے ہر دور میں سبو تاژ کیا گیا بلکہ آئین کے نفاذ کے ذمہ دار اداروں نے سالہا سال عوام کامنہ چڑایا ۔ مشرقی پاکستان ،جہاں آج کل پاکستان کے وفا داروں یا مکتی باہنی کے مخالفین کے لئے بنگلہ دیش کی سر زمین پر ظالمانہ ہو لو کاسٹ کا "ری پلے "کھیلا جا رہا ہے ۔ اس کی علیحدگی کے بعد بنائے جانے والے 1972کے عبوری اور 1973کے متفقہ آئین میں ریاست کے رہنما اصولوں میں عوام کو طاقتور بنانے کیلئے جو انقلابی اقدامات تجویز کئے گئے ان میں آرٹیکل 32کہتا ہے کہ ریاست لازماً مقامی حکومتوں کے ادارے بنائے ،انکی حوصلہ افزائی کرے ۔ مقامی طور پر منتخب بلدیاتی نمائندوں کیساتھ ساتھ کسانوں، ہاریوں ، محنت کشوں اور خواتین کو خصوصی نمائندگی دی جائے ۔ جس دیدہ دلیری سے اقتدار کی انجمن شراکت ِ باہمی کے مالکان اور منیجرز آئین کے اس عوام دوست آرٹیکل کی مسلسل تو ہین کر رہے ہیں وہ پاکستان بھر کے غریبوں کے لئے ہتک آمیز ،جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ سوچ کا متعفن بلکہ بدبو دار اظہار ہے ۔ اب تو وہ جگہیں جہاں غریب دوست ایجنڈا اور عوام دوست سوچ ہو نی چاہئے وہاں کا رپوریٹ کلچر فروغ پا رہا ہے۔ اچھے دنوں میں خالص سیاست کرنے والے لیڈر کو شش کرتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ ٹکٹ جمہوریت کے ان جاں نثاروں کو دئیے جائیں ،جن کی پیٹھ پر آمریتوں نے دُرّے برسائے اور جنہوں نے اپوزیشن کی دھوپ کو ننگے سر برداشت کیا ۔
کا رپوریٹ کلچر آ نے کے بعد پاکستان کی سیاست عملی طور پر دو طبقات میں تقسیم ہے ۔ پہلا طبقہ "مار "کھانے والے کارکنوں کا جبکہ دوسرا "مال "کھانے والے خونخوار مو سمی درندوں کا ۔ سیاست میں اس کلچر کے اظہار کی نئی اصطلاح یہ ہے ۔ جمہوری جدو جہد کرنا اہلیت نہیں بلکہ اصل اہلیت امیدوار کا Elect-ableہو نا ہے ۔ دھونس، مال ، دھاندلی، برادری، یا تعصب کے ووٹ رکھنے والا قابل انتخاب شخص۔ میں کھل کر پاکستان کے غریب عوام ، کارکنوں اور قوم کی خدمت کی سوچ رکھ کر سیاست کرنے والے ،نیچے سے اٹھی ہو ئی مڈل کلاس سے کہنا چاہتا ہوں ،کسی غلط فہمی میں نہ رہیں ۔ابھی بات ہو رہی ہے امید وار بن جانے والوں کی ۔ کارپوریٹ کلچر میں جس بلڈنگ کے اندر اچھی لفٹ لگ جائے وہاں لفٹ پر چڑ ھنے کا ٹکٹ لگا دیا جا تا ہے تا کہ صرف وہی لفٹ کو ہاتھ لگائیں جن میں ٹکٹ خریدنے کی جان ہو ۔ حال ہی میں ٹکٹ خریدنے کے نہیں ،اسمبلی کا فارم خریدنے کے لئے جس طرح چالیس، پچاس ہزار روپے کی ڈیمانڈ اخبارات میں چھپی ۔اس سے ثا بت ہوا کہ وہ سیاسی کارکن جو سینہ تان کر اپنے آپ کو ٹکٹ ہو لڈر یا امیدوا ر برائے ٹکٹ قومی یا صوبائی اسمبلی ہو نے کا اظہار کرتے تھے اب اس دوڑ سے بھی باہر کر دئیے گئے۔
یادش بخیر وہ فرنگی راج جس کے چہیتے جنرل ڈائر کے کرتوتوں پر مو جو دہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون معافیاں مانگتے نہیں تھکتے ۔اس میں ہندوستان کی دستار یا پگڑی کو جیسا احترام ملا ویسی ہی عام آدمی کی سیاست میں شرکت با قی بچی ہے ۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تمام انگریزی کلبوں ، ستارہ بردار یابرانڈڈ ہو ٹلوں ، بڑی بڑی عدالتوں ، بیو روکریسی کے مراکز اور ہندوستانی لیڈروں کے لئے دروازے کھولنے اور کو رنش بجا لا نے والوں کو شیروانی + پگڑی پہنائی جا تی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس امیرانہ سیاست میں عام آدمی کی محض انٹری بھی سرمائے کا تقاضہ کر رہی ہے ؟ الیکشن لڑنے والے کسی بھی قومی یا صوبائی حلقے کا خرچ لاکھوں میں ہو ہی نہیں سکتا ۔انتخاب ککھ پتی یا لکھ پتی دونوں کے لئے "نو گو "ایریا ہے ۔جہاں صرف ارب پتی کلب کے ارکان ہی کروڑوں لگا سکتے ہیں۔ قند ِ مکرر کے طور پر یہ بھی یا د رہے کہ ابھی تک پاکستان کی اقلیتوں کے حق میں آرٹیکل 226 کی رو ح کے مطابق کچھ نہیں ہو سکا ۔ اگر یہی بے رحم اسٹیٹس کو جاری رہا تو جہاں انتخابی میدان مارنے والے ڈھول بجائیں گے وہاں بے نوا اقلیتیں سینہ کو بی کرنے پر مجبور ہو ں گی ۔سینہ کو بی سے یاد آ یا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی اسٹیبلشمنٹ رونے دھونے اور آنسوٴوں کو بے حد پسند کر تی ہے چاہے وہ آنسو سسکتے مریضوں کے ہوں یا بلکتے ینگ ڈاکٹرز کے ۔ سائل کو ئی بھی ہو جب تک وہ رو رو کر پورے ماحول کو ہلکان نہ کر دے یا دھرنے کے ذریعے شہر، صوبے یا ملک کو بلاک نہ کر دے امیر ِ شہر کو نہ سنائی دیتا ہے ، نہ ہی زنجیرِ عدل کا گھنٹہ اختیار کے بہرے کانوں کا کچھ بگاڑ سکتا ہے ۔ حبیب جالب نے پتہ نہیں کس منظر اور منظر کش کو سامنے رکھ کر یہ کہا تھا
ظلمت کو جو فروغ ہے ، دیدہ وروں سے ہے
یہ کا روبارِ شب انہی سو داگروں سے ہے
فیصل آباد اور سرگودھا کے وکلاء کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہو رہا ہے ۔ اس سے پہلے ملک بھر میں مذہبی ،دینی مدرسوں کے ڈگری ہو لڈرز کیساتھ اجنبیوں سے بھی بد تررویہ ہے ۔ ان مدرسوں کے سرٹیفکیٹ اور ڈگریاں الیکشن لڑنے کے لئے تو فرنگی ڈگریوں کے برابر ۔مگر ملازمتوں میں دینی مدرسوں کے لاکھوں ڈگری ہو لڈرز کے لئے دروازے بند۔ نا انصافی ، جوابی نا انصافی کو جنم دیتی ہے ۔ بے انصاف شخصی آمریت کی اپوزیشن کے زمانے میں یا جبری رخصت کے دور میں ۔کالے کوٹ اور ٹائی کے گُن گانے والے وکلاء کو متحد ومتحرک دیکھ کر وکیل کے قصیدے پڑھنے والے ۔ زنجیروں میں جکڑی جمہوریت اور رسیوں میں بندھے ہو ئے عدل کو آزادی کیلئے وکیل کو پہلے سنگ میل قرار دینے والے اتنی اونچائی پر چڑھ گئے ہیں کہ انہیں وکیل کیڑے مکوڑے لگتے ہیں ۔چنانچہ وکیلوں کے آئینی مطالبا ت کی جدو جہد وکلاء گردی ۔ جس کا سیدھا مطلب یہ کہ ان کے نزدیک کا لے کوٹ اور ٹائی میں دہشت گرد گھومتے ہیں ۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے ۔بطور وزیر قانون جب میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے قیام کی جدو جہد کر رہا تھا تو مجھ پر کیسے کیسے شعبدہ باز حملہ آور ہو ئے ۔ اس لئے کہ کچھ لو گ ہر نئی عدالت ، انصاف کی کہیں بھی کھلنے والی تازہ کھڑکی یا عوام کی دہلیز تک عدل کی فراہمی کو اپنے پیٹ پر لات سمجھتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ فیصل آباد اور سرگودھا کے وکلاء مانگ کیا رہے ہیں؟
اس کا آسان جواب ڈھونڈنے کے لئے آئین کا آرٹیکل 198ذیلی آرٹیکل 4بہت واضح ہے ۔ لہذا ہر صوبے میں ہا ئی کورٹ کے حسب ضرورت بنچز بن سکتے ہیں۔جن کی بابت صوبے کی کابینہ ، صوبے کے چیف جسٹس سے مشورہ کر کے گورنر کے ذریعے ہا ئی کورٹس بنچ بنا سکتی ہے ۔ سرگودھا اور فیصل آباد ڈویژن میں نہ عدالتوں کی کمی ہے ۔نہ ہی فوری نئی بلڈنگ بنانے کی ضرورت ۔ اسی آئینی سہولت کا فائدہ اٹھا کر ایک کروڑ کی آبادی سے بھی کم والے صوبہ بلوچستان کے ہا ئی کورٹ نے سبی اور تر بت میں بنچ قائم کئے ۔ پشاور ہا ئی کورٹ نے ایبٹ آباد ، ڈیرہ اسماعیل خان ، مینگورہ اور بنوں میں بنچ بنائے ۔سندھ ہا ئی کورٹ نے سکھر، لاڑکانہ ، حیدر آباد میں بنچ قائم کئے ۔ مجھے لاہور ہا ئی کورٹ کے گداز دل اور پر عزم چیف جسٹس عمر عطاء بندیال سے پو ری ا مید ہے ۔وہ وکلاء کی آئینی جدو جہد کو دہشت گردی سے تعبیر کرنے والوں کے عزائم نا کام بنائیں گے ۔ہزاروں ، لاکھوں سو مو ٹو کے اس دور میں ایک سو موٹو گیارہ کروڑ آبادی کے صوبہ پنجاب کے وکلاء کے لئے لے کر عدل و مساوات کا آئینی تقاضا پورا کریں گے ۔ میں یہ بات اپنے ٹوئٹر پیغام میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ۔
جس طرح پاکستان کے غریب عوام کے لئے سرمایہ داروں ، وڈیروں ، جاگیر داروں ، امیر زادوں اور پری سا ،چہروں کے حق میں ووٹ ڈالنے کے فرض کی ادائیگی لازمی ہے ۔اسی طرح پاکستان کے غریب عوام کو الیکشن میں حصہ لینے کیلئے بغیر کسی سرکاری و غیر سر کاری فیس کے امیدوار بننے کا راستہ کھولنا ہو گا۔ لائل پورہو یا سرگودھا ۔وہاں کے لاکھوں ، کروڑوں سائل انصاف کے متلاشی عوام اور رول آف لاء و آئین کی بالا دستی کی واحد عملی ضمانت وکلاء کے آئینی مطالبات ماننا ہو ں گے ۔ کیونکہ یہ طبقات پتھروں سے سر ٹکرانے اور تشنہ لبی میں زندگی گزارنے والے نہیں ۔ جدو جہد ان کے خون اور تربیت کا حصہ ہے ۔
اب سے نہیں ہیں تشنہ لبوں کو شکایتیں
یہ میکدہ تو کب سے تہی ساغروں سے ہے
کیا عقل کیا شعور کی باتیں کریں یہاں
سر کو معاملہ تو یہاں پتھروں سے ہے
اٹھیں تو ہر غرور ِ شہی ، خاک میں ملے
قصرِ بلند بام ، خمیدہ سروں سے ہے