• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انہوں نے سندھی عوام کو تعلیمی پستی سے نکالنے میں نمایاں کردار ادا کیا

تحریک آزادی میں سندھ کے مسلمان سیاسی رہنمائوں نے جو قربانیاں دیں وہ کسی سےڈھکی چھپی نہیں۔ یہاں کے سندھی رہنمائوں، دانشوروں نے لازوال داستانیں رقم کی ہیں۔ تحریک پاکستان کے گم نام کارکنان اس خطّہ کی پہچان ہیں۔ ان حضرات نے ملک کی آزادی کے لیے بہت سی تحریکیں بھی چلائیں۔ قومیںمال و دولت سے نہیں بلکہ ان افراد سے عظیم اور مضبوط ہوتی ہیں جو مسیحائی، غیرت و عزت کے مؤقف پر بہادری کے ساتھ ڈٹ جاتے ہیں اور پھر ہر قسم کے مسائل اور مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں۔ 

ایسے ہی ایک فرد رئیس غلام محمد خان بھرگڑی سندھ کی ان معزز ترین ہستیوں میں سے ہیں، جن کا نام آزادی کی تاریخ میں ہمیشہ جلی حروف سے لکھا جائے گا۔ وہ کانگریس میں اُس وقت شامل ہوئے جب سندھ کے مسلمان وڈیرے کانگریس کے نام سے بھی خوف کھاتے تھے۔ کانگریس میں شمولیت سے قطع نظر بعد میں وہ ہر اُس تحریک میں نظر آتے تھے جو سندھ کے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے اس صوبے میں شروع ہوئی۔ 

مسلم لیگ کی جدوجہد ہو یا تحریک خلافت ،ہجرت کابل کی تحریک یا ریشمی رُومال کی تحریک سمیت دیگر سیاسی و سماجی تحریکیں ہوں یا سیاسی تحریکیں وہ ہر تحریک میں پیش پیش نظر آتے تھے۔ جن لوگوں نے سندھ کی سیاسی اور قومی زندگی میں اہم کردار ادا کیا ہے، ان میں سب سے نمایاں نام رئیس غلام محمد خان بھرگڑی کا ہے۔ وہ جب تک حیات رہے، ان کی زندگی کا ہر لمحہ سیاسی اور قومی خدمت کے لیے وقف رہا۔

رئیس غلام محمد خان کے آباء و اجداد بلوچ قوم سے تھے اور ڈیرہ غازی خان کے رہنے والے تھے۔ ان کے جدِّ امجد رئیس علی خاں بھورگڑھ ضلع ڈیرہ غازی سے سندھ آئے تھے۔ رئیس غلام محمد بھرگڑی 15 جولائی 1878ء کو سندھ کے ضلع تھرپارکر (موجودہ میرپورخاص)، کوٹ غلام محمد، گاؤں ڈینگان بھرگڑی میں پیدا ہوئے ۔ 

رئیس غلام محمد خان بھرگڑی ولی محمد خان بھرگڑی کے دُوسرے صاحبزادے تھے۔ ان کے والد ولی محمد خان سندھ کے ایک مشہور خوشحال زمیندار تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی، جس میں قرآن شریف اور فارسی کی تعلیم شامل ہے۔ بعدازاں انہیں مشن اسکول حیدرآباد سندھ این ایچ اکیڈمی حیدرآباد اور پھر سندھ مدرسہ کراچی میں تعلیم کے لیے بھیجا گیا۔ 1890ء میں وہ علی گڑھ چلے گئے اور انہوں نے مسلم ہائی اسکول علی گڑھ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر زمینداری کے شعبے میں مصروف ہوگئے۔ 1905ء میں انگلینڈ گئے، وہ تین سال انگلینڈ میں رہے۔ 1908ء میں لنکن اِن سے بیرسٹری کی سند لے کر واپس آئے اور حیدرآباد میں وکالت شروع کی۔ رئیس غلام محمد خان بھرگڑی سندھ سے تعلق رکھنے والے پہلے مسلمان بیرسٹر تھے جو برصغیر میں بطور سیاستدان کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔ غلام محمد خان بھرگڑی سندھ کے ان اہم مسلم قائدین میں شامل تھے جن کی سرگرمیاں مرکزی دھارے کی ہندوستانی سیاست پر نمایاں طور سے اثر انداز ہوتی ہیں۔

1909ء کے اواخر میں یہ زمینداروں، جاگیرداروں کی طرف سے بمبئی کونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔ انہوں نے بمبئی کونسل میں رہ کر مسلمانان سندھ کی تعلیمی پستی کو دیکھ کر مسلمان زمینداروں کی آمدنی سے فی روپیہ ایک پیسہ فنڈ وصول کرنے کا بل پیش کیاجس کی سیٹھ ہرچند رائے نےتائید کی۔ چند مفاد پرست زمینداروں نے اس بل کی مخالفت کی چونکہ سرکار خود سندھ میں تعلیم عام کرنے کے خلاف تھی، دُوسرے وہ یہ سمجھتی تھی کہ اس بل کو پاس کرنا کانگریسیوں کی قوت کو بڑھانا تھا، اس لیے اس نے زمینداروں کی مخالفت کو بہانہ بنا کر اس بل کو کھٹائی میں ڈال دیا۔

اسی سال وہ کانگریس میں شامل ہوگئے۔ فروری 1920ء میں بمبئی آل انڈیا خلافت کانفرنس کی صدارت کے لیے ان کا انتخاب ہوا۔ اس کانفرنس میں سیٹھ چھوٹانی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا اور رئیس غلام محمدبھرگڑی نے خطبہ صدارت پڑھا۔ 31 مارچ 1923ء کو لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ہوا، جس کی صدارت رئیس بھرگڑی نے کی اور ایک عالمانہ اور بصیرت افروز خطبہ پڑھا۔ خطبے میں لائیڈجارج وزیراعظم انگلستان کی مسلم آزاد پالیسی کا ذکر تھا۔ آپ کی انتھک کوششوں سے کاشتکاروں کو مزید سہولیات اور آبپاشی نہروں اور سڑکوں کے حالات میں زبردست بہتری لانے کے علاوہ مقامی بورڈ کو زیادہ سے زیادہ گرانٹ ملی۔ آپ نے بہت سارے دیگر فلاحی کاموں کی بھی حمایت کی اور ضرورت مندوں خصوصاً غریب قانونی دعویداروں اور طلباء کی آزادی کے ساتھ مدد۔ 

وہ ساری زندگی آل انڈیا مسلم لیگ کےسرشار رُکن رہے اور اس کے تمام سالانہ اجلاسوں میں شریک ہوئے۔ آپ اصلاحات کمیٹی (آٹھواں اجلاس بمبئی، دسمبر 1915ء تا جنوری 1916ء) کے ممبر، کانگریس لیگ اسکیم 10 ویں اجلاس کلکتہ دسمبر 1917ء تا جنوری 1918ء پر تبادلہ خیال کرنے والی کمیٹی کے ممبر تھے۔ کمیٹی برائے موپلہ پریشانی 14 ویں سیشن احمد آباد دسمبر 1921ء کے ممبر بھی تھے۔ آپ نے سندھی مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے مقصد سے بمبئی ایوان صدر سے سندھ کی علیحدگی کی قرارداد جمع کرائی۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس معاملے کو ہندوستان کے تمام سیاسی فورموں تک پہنچایا۔ 

آل انڈیا نیشنل کانگریس کو 1913ء سے ہی اس مسئلے سے آگاہ کیا گیا تھا اور اب آل انڈیا مسلم سے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ دسمبر 1925ء میں اپنے سترہویں اجلاس میں مسلم لیگ نے یہ قرارداد منظور کی کہ سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے ایک علیحدہ صوبہ تشکیل دیا جائے۔ بھرگڑی نے 1925ء کے بعد، آل انڈیا موٹیز پر قراردادوں کی تجویز پیش کرتے ہوئے ایک علیحدہ صوبے کے لئے مستقل طور پر لابنگ کی۔ انہوں نے آغا خان کو بار بار رائونڈ ٹیبل کانفرنسز (1930-32ء) اور جناح کی طرف سے مسلم وفد کی رہنمائی کرنے کی ترغیب دی کہ وہ لندن میں ہونے والے تنازعات کے دوران سندھ کو بمبئی سے علیحدگی کے معاملے کو مناسب طریقے سے حل کریں۔ 

سندھ کی صحافت کی بھی انہوں نے بڑی مدد کی۔ اخبار ال امین کا پورا پورا خرچ وہ اُٹھاتے تھے۔ ’’سندھ واسی‘‘ اخبار کی بھی مدد کرتے تھے۔ غریب سندھی طالب علموں کی تعلیم کے لیے انہوں نے وظیفے دیئے۔ زمیندار ایسوسی ایشن کے بانی بھی تھے۔ سندھی ہفتہ وار’’ ال امین‘‘ کا آغاز حیدرآباد سے کیا جس کی ترمیم شیخ عبدالمجید سندھی نے کی۔ 1918ء میں سندھ میں مسلم لیگ کی شاخ سب سے پہلے انہوں نے ہی قائم کی۔ بھرگڑی ایک قابل وکیل تھے اور انہوں نے پریس قوانین کے تحت سرکاری استغاثہ کے خلاف شیخ عبدالمجید سندھی کا دفاع کیا۔ 

حیدرآباد کالج کو کامیاب بنانے میں انہوں نے سرگرمی سے حصہ لیا۔ سندھ کے عوام و خواص میں بے پناہ مقبول تھے۔ اُن کی زندگی عملی جدوجہد سے بھرپور تھی اور انہوں نے سیاسی اور معاشرتی فلاح و بہبود میں آخر دَم تک حصہ لیا۔ ان کے خاص مقربین میں مسٹر غلام علی، نور محمد وکیل، شیخ عبدالمجید سندھی، جیٹمل پرسرام، جیرام داس دولت رام وغیرہ تھے۔ اُن کے سیاسی دوستوں میں غلام علی چھاگلا، قائداعظم محمد علی جناح، راجا صاحب محمود آباد اور سیٹھ ہرچند رائے وشن داس تھے۔ ان کے بیٹے رئیس غلام مصطفیٰ خان بھرگڑی جو سندھ اسمبلی کے ممبر تھے، ون یونٹ کے سب سے بڑے مخالف تھے اور انہوں نے 1957ء میں سندھ اسمبلی اجلاس کے دوران اس بل کے خلاف ووٹ دیا۔

محمد ہاشم لغاری نے رئیس غلام محمد خان بھرگڑی کی زندگی اور کام پر کتاب تحریر کی۔ رئیس غلام محمد بھرگڑی نمونیا کے مرض میں مبتلا ہو کر 9 مارچ 1924ء کو رحمت حق سے جا ملے۔ حیدرآباد میں صف ماتم بچھ گئی۔ انہیں آبائی قبرستان ڈینگان میں مائٹانی کے مقام پر اس گنجینۂ خیر کو سپردخاک کر دیا گیا۔ ان کی خدمت کے اعتراف میں حکومت سندھ نے جیمس آباد کے قصبے اور تعلقہ کا نام تبدیل کر کے کوٹ غلام محمد بھرگڑی رکھ دیا۔ ان کی تصویر 14 اگست 1993ء کو پاکستان کے یادگاری ڈاک ٹکٹوں پر نمایاں تھی۔

تازہ ترین