سندھ کے عظیم بزرگ اور شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒاپنے لافانی کلام میں اللہ تعالی ٰ سے یو ں دعا گو ہیں’’ اے اللہ سندھ کو ہمیشہ قائم ودائم اور خوشحال رکھنا ‘‘۔یہ بھٹ دھنی کی دعائوں کا اثر ہے کہ بزرگان دین اور اولیاء اللہ کی سرزمین سندھ کا ایک ایک شہر اورہر گائوں مختلف خصوصیات سے مالا مال ہے۔ان ہی میں تاریخی شہر میرپورخاص بھی شامل ہے ۔سرسبز کھیتوں اور لہلہاتے باغات کی آغوش میں واقع میرپورخاص شہر ،حیدرآباد سے مشرق کی جانب65کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جو بھارتی سرحد سے قریب واقع میرپورخاص ڈویژن کا ہیڈکوارٹر ہے۔
یہاں کاہو جو دڑواور شیر واہ سمیت متعدد تاریخی آثار واقع ہیں
یہ شہر قدیم تہذیب وتمدن کا گہوارہ ہے۔میرپورخاص شہرمیرعلی مراد خان تالپور’’مانکانی سرکار‘‘ نے لیتھ واہ کے کنارے جو دریائے ’’پران‘‘ کی ایک چھوٹی سی شاخ تھی 1806 میں آباد کیا تھا ،ان دنوں یہ صرف صرافہ بازاراور کاہوبازار پر مشتمل تھا جس میں کل تین سو دکانیں تھیں جب کہ دس ہزار نفوس آبادتھے ۔میرعلی مراد تالپور کے بعد ان کے بیٹے میرشیر محمد خان عرف شیر سندھ نے بھی مانکانی سرکار کا دارالحکومت میرپورخاص ہی کو رکھا حتیٰ کے انگریز اس علاقے پر قابض ہوگئے ۔انگریزوں کے قبضے کے بعد میرپورخاص کے بیشمارلوگ شہر چھوڑ کر چلے گئے تھے اس لئے انگریزوں نے عمرکوٹ کوضلع کا صدر مقام بنا دیا پھر جب میرپورخاص تک ریل کی پٹڑی بچھائی گئی اور جمرائو کینال تعمیر ہوئی تو میرپورخاص کی آبادی میںاضافہ ہونا شروع ہوگیا جس کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریز سرکار نے میرپورخاص کو دوبارہ ضلع کا صدر مقام بنا دیا۔
میرپورخاص اس وقت سندھ کا چوتھا بڑا شہر ہے ۔ اس میں مختلف قومیتیں اور قبیلے آباد ہیں ،جن میں قیام پاکستان کے بعدہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کی بڑی تعداد شامل ہے ۔یہاں کی آب وہوامعتدل ہے اور یہ شہر آموں ،سماجی تنظیموں اور امن پسند لوگوں کے حوالے سے ملک بھر میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔میرپورخاص شہرکے شمال میں قدیم تہذیبی آثار واقع ہیں انہی میں ’’کاہوجو دڑو‘‘ بھی ہے۔،1889 میں یہاں ریلوے لائن بچھانے والے جب اس مقام پر پہنچے تو انہیں بڑے بڑے مٹی کے تودے نظر آئے، انہوں نے خیال کیا کہ یہ بیکار مٹی کا ڈھیر ہے ۔
ٹھیکیدار یہاں سے مٹی اور اینٹیں نکا ل کر استعمال کرتے تھے۔ کھدائی کے دوران یہاں سے منقش اینٹیں اور دومجسمے برآمد ہوئے جس کے بارے میں تاریخ سے پتا چلتا ہے ان کاتعلق چھٹی صدی عیسوی سے بھی پہلے کا ہے ۔ یہاں سے قدیم سکے اور دیگر تاریخی اشیاء بھی برآمد ہوئی تھیں جن میں سےبیشتر میرپورخاص کے عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔،عدم توجہی کے باعث یہ تاریخی مقام تباہ ہوچکا ہے اور لوگوں نےناجائز طور سے قبضہ کرکے تعمیرات کردی ہے۔میرپورخاص سے مشرق کی جانب شیرواہ کے نزدیک تاریخی کھنڈرات پائے جاتے ہیں آٹھ ایکڑ سے زیادہ اراضی پر پھیلے ہوئے اس علاقے کو پختہ اینٹوں سے بنایا گیا تھا لیکن اس کی اینٹیں کاہو جو دڑو سے ملنے والی اینٹوں سے مختلف ہیں ،یہ علاقہ بھی زمانے کےدست برد کا شکار ہو گیا ۔
مانکانی تالپوروں کا آبائی شاہی قبرستان چٹوری میرپورخاص سے چودہ میل دور چونسٹھ ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے ۔یہاں کے مقابرخاکی پتھر سے بنائے گئے ہیں جن پر نفیس و اعلیٰ معیار کی نقش نگاری کی گئی ہے۔ اس قبرستان میں میر مسو خان تالپور ،میرجادوخان شہید ،میرراجوخان ،میرفتح خان اول ،میرالھیارثانی ،میرعلی مراد تالپور ،میرشیرمحمد خان شیر سندھ ،خان صاحب دین محمد جونیجو(سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کے والد)کامبھوخان شورو،میرمحمد بخش تالپور ،اور دیگر تاریخی ہستیاں محو خواب ہیں ،اس کے علاوہ شہر کے مختلف علاقوں میں سردار بھان سنگھ کا محل ،پرتاب بھون ،سکھوں کا گردوارہ اور دیگر قدیم عمارتیں موجود ہیں۔
میرپورخاص میں پہلی بار ریلوے ٹرین آٹھ اگست 1892 کو حیدرآباد سے شادی پلی کیلئے براستہ میرپورخاص چلنا شروع ہوئی۔،1916 تک میر پور خاص کے علاقے میں کولتارکی کوئی پختہ سڑک نہ تھی۔ آج میرپورخاص سے کراچی ،حیدرآباد ،نگر پارکر ،عمر کوٹ اور سانگھڑ سمیت سینکڑوں شہر اور دیہات پختہ سڑکوں اور شاہراہوں سے مربوط ہیں ۔میرپور خاص میں سب سے پہلے کپاس کا کارخانہ1909 میں ریلے برادرز نے لگایا ۔
یہ شہرسماجی سرگرمیوں کے حوالے سے بڑا مشہور ہے۔،ڈاکٹر ایچ ایم اے ڈریگو،چوہدری رفیق احمد ،سیٹھ ہرچند رائے ،عبدالطیف گاندھی،ذکریا احمد باوانی ،بینجمن حسین ،ڈاکٹر یار محمد جنجی،شیر محمد وسان ،وزیر علی خوجہ،غلام دستگیر کمالی ودیگرسماجی سرگرمیوں کے حوالے سےشہر کی پہچان ہیں۔ ان شخصیات میں سے کئی افراداللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔
میرپورخاص سیاسی شخصیات کے حوالے سے بھی بڑا زرخیز رہا ہے۔ رئیس غلام محمد خان بھرگڑی،رئیس جان محمد بھرگڑی ،خان بہادر غلام محمد وسان ،خان بہادر غلام حسین ،پیرغلام رسول شاہ جیلانی ،سید غلام نبی شاہ ،غلام مصطفی خان بھرگڑی ،میرآچن خان تالپور ،حاجی میر محمد بخش تالپور ،میرامام بخش تالپور ،میرعلی بخش تالپور ،میرالھبچایو خان تالپور ،میرخدا بخش تالپور ،پیرآفتاب حسین شاہ جیلانی ،سید قربان علی شاہ ،سید خادم علی شاہ ،رئیس خیر محمد بھرگڑی،میرحاجی حیات تالپور ، ودیگرکا شمار ممتاز سیاسی شخصیات کا شمار ہوتا ہے۔ سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو ،سابق وزرائے اعلیٰ سید مظفرعلی شاہ ،اور ارباب غلام رحیم کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا۔
قیام پاکستان کے بعد میرپورخاص شہر کا شعر و ادب اور فنون لطیفہ کے حوالے سے بھی بڑا مقام ہے۔ خادم اجمیری ،سیف سلطان پوری ،شاہد اکبر آبادی ،تاج قائم خانی ،وقار چشتی،پروفیسرآفاق صدیقی ،استاد اعجار جودھپوری ،ولی سروری ،مجرم لغاری ،جاذب قریشی ،احمد سعیدقائم خانی ،کرن سنگھ،مرزااختر عاسی ودیگرشہر میں منعقد ہونے والے مشاعروں کی جان ہیں۔یہاں کل پاکستان مشاعرے بھی منعقد ہوچکے ہیں جن میں فیض احمد فیض ،جوش ملیح آبادی ،ضمیر جعفری ،پروفیسر عنایت علی خان ،اطہر خان جیدی ،سحرانصاری ودیگر نامور شعرائے کرام کے علاوہ بھارت کےمعروف شاعر مجروح سلطان پوری بھی شرکت کرچکے ہیں۔ ملک کے نامور مصور مرحوم لال محمد پٹھان اورر گلوکار مسعود رانا کا بھی تعلق میرپورخاص سے تھا ۔پروفیسر مس سیدہ کاظمی ،پروفیسر عبدالباطن،پروفیسر نورمحمد، ماسٹر شمشاد علی خان،پروفیسرڈاکٹر سید رضی محمد کی تعلیم کے شعبہ میں قابل ذکر خدمات ہیں ۔سندھ کے پسماندہ علاقہ میں ڈاکٹر سید علی محمد اور ان کے صاحبزادے ڈاکٹر سید رضی محمد نے بیس سال قبل محمد میڈیکل کالج واسپتال قائم کیا تھا۔
جہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے ہزاروں طلبہ ملک کے مختلف علاقوں میں طبی شعبے میں خدما انجام دے رہے ہیں۔سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور حکومت میں میرپورخاص کو سوئی گیس فراہم کی گئی۔ اس شہر میں،سیٹیزن جیم خانہ اور آفیسرز جیم خانہ کی عمارت آج بھی قدیم طرز تعمیر کا نمونہ پیش کررہی ہے ،قیام پاکستان سے قبل میرپورخاص سے ہفت روزہ ہمدرد نکلتا تھا اورحاجی محمود ہالائی اخبار کے بانی تھے قیام پاکستان کے بعد ،ہفت روزہ سچائی،بیداری،سرتاج،عورت ،تھر ٹائمز،پیغام سندھ کا اجراء ہوا ،سندھ میں پھلوں اور سبزیوں کی تحقیقات کا سب سے بڑا مرکز یہاں قائم ہے،شہر کی آبادی چھہ لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔میرپورخاص کو بانی پاکستان قائد اعظم کی میزبانی کرنے کا بھی شرف حاصل ہے۔