• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نعیم احمد

پیارے بچو ! آپ میں سے اکثر بچوں نے کچھوا تو دیکھا ہوگا، جس کے اوپر سخت سا خول خول ہوتا ہے ۔آج ہم آپ کے اس کے بارے میں تفصیل سے بتا تے ہیں۔ کچھو ادراصل خشکی اور پانی دونوں جگہ رہنے والا اور یہ لمبی عمر پانے والا جانور ہے ،جس کی اوسط طبعی عمر ڈیڑھ سو سال ریکارڈ کی گئی ہے۔کچھوے ہر قسم کی غذا کھا جاتے ہیں جو انہیں میسر آجائے۔ کچھوے کی غذا میں 37فیصد گھاس پھونس، پودے اور تیس فیصد مچھلیاں شامل ہیں۔ کچھوا تو طبعی طور پر نہایت سست اور کاہل ہوتا ہے۔ وہ شکار کی تلاش میں مارا مارا پھرنا پسند نہیں کرتا۔

جس کی اوسط عمر ڈیڑھ سو سال ریکارڈ کی گئی ہے

اس میں قوت برداشت اور صبر کا مادہ غیرمعمولی ہے۔ کئی ایسے حیران کن واقعات بھی مشاہدے میں آئے ہیں کہ کچھوؤں کی بڑی تعداد کسی خشک جھیل کی تہ میں مہینوں تک دفن رہنے کے بعد زندہ نکل آئی۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جنوب مغربی امریکہ کے صحراؤں میں پانی سے کوسوں میلوں دور رہ کر بھی کچھوے صحیح سلامت اور پھلتے پھولتے رہتے ہیں۔ اگر وہ سرد علاقوں میں ہوں اور برف کے اندر جم جائیں تب بھی کوئی زخم کھائے بغیر برف پگھل جانے پر زندہ نکل آتے ہیں۔

کچھوؤں کے انڈوں سے جب بچے نکلتے ہیں تو وہ فوراً ہی باہر نہیں نکلتے ،کیونکہ ان کے کئی ’’دشمن‘‘ باہر ان کی تاک میں ہوتے ہیں۔ خود ان بچوں کی حالت بھی اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ اپنے لئے غذا تلاش کریں۔ وہ اسی سخت خول میں گھسے رہتے ہیں اور ایک سال بعد بڑی آسانی سے باہر نکل آتے ہیں۔ سائنس دان کہتے ہیں کچھوؤں کے جسم میں چربی بہت ہوتی ہے۔ یہی چربی ان کے جسم میں آہستہ آہستہ تحلیل ہوتی رہتی ہے اور غذا کاکام دیتی ہے۔

کچھوے نرم زمین کے اندر انڈے دیتے ہیں لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب انڈوں سے بچے نکلنے کے دن ہوتے ہیں تو زمین کی سطح خشک ہو کر سخت ہوجاتی ہے اور بچے باہر نہیں نکل سکتے۔ پس وہ بغیر خوراک اور بغیر پانی کے بارش ہونے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ زمین کی سطح نرم ہو اور وہ باہر آسکیں۔ ساری دنیا میں کچھوے کی تین سو سے زائد قسمیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں بعض کا وزن ڈیڑھ سو پونڈ تک بھی ہے۔ لیکن سائنسدانوں کو یقین ہے کہ زمانہ قدیم میں بعض دیوہیکل کچھوؤں کا وزن تیس تیس من تک تھا۔

کچھوے کا خول ایک قسم کی زرہ بکتر ہے۔ یہ خول اتنا سخت ہوتا ہے کہ بہت زیادہ وزن بھی برداشت کرلیتا ہے۔ کچھوا حسب عادت اس خول میں کئی کئی ہفتے چھپ سکتا ہے۔ خدا نے اسے یہ صفت بھی دی ہے کہ اگر وہ چاہے تو پانی کے اندر بھی کئی کئی دن بیٹھا رہے۔ اس خول میں پانی داخل نہیں ہو سکتا۔مادہ کچھوا ایک وقت میں دو سو کے قریب انڈے دیتی ہے۔کچھوا ہلکی سے ہلکی آواز بھی باخوبی سن لیتا ہے لیکن اس کے کان نہیں ہوتے یا یوں کہیے کہ اس کے بیرونی کان نہیں ہوتے۔ 

بلکہ اس میں حرکت کی ایسی عجیب و غریب حس پائی جاتی ہے جو کانوں کا کام دیتی ہے۔ اسی طرح کچھوؤں کی بھی کوئی خاص آواز نہیں ہوتی لیکن کبھی کبھی ان کے منہ سے ایک سیٹی جیسی آواز نکلتی ہے جوتقریباً چالیس فٹ تک سنی جاسکتی ہے۔ ان کے دانت نہیں ہوتے لیکن منہ کے کنارے بلیڈ کے مانند تیز ہوتے ہیں اور ان ہی کی مدد سے وہ ہر چیز ہڑپ کر جاتے ہیں۔ کچھوا رینگنے والا جانور ہے۔ 

زمین پر آہستہ آہستہ رینگتا ہے لیکن پانی میں اس کے تیرنے کی رفتار بڑی تیز ہوتی ہے۔موسم سرما نمودار ہوتے ہی زمین کے کسی گوشہ عافیت میں چھپ جاتا ہے اور پورے چھ ماہ تک باہرنہیں نکلتا۔

تازہ ترین