• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ الفاظ آج بھی میرا تعاقب اور وہ بازگشت حیران کرتی ہے، جس نے کسی حد تک میرا تصور ہی بدل ڈالا ’’ آصف علی زرداری ایک آئرن لیڈی کا ہم سفر رہا ہے، اور یقیناً اِس نے اُس رفاقت سے بہت سیکھا ہوگا۔ توقع ہے یہ بہتر صدر ہوگا !‘‘ یہ سب مجھے جنرل (ر) حمید گل نے اُس وقت کہا جب زرداری صاحب صدر پاکستان بننے جارہے تھے۔

حمید گل کا مکتب ِ فکر پیپلزپارٹی کے برعکس تھا، اور بےنظیر نے اکتوبر 2007 سانحہ کارساز کی تحریری درخواست میں جنرل صاحب کا بھی نام شامل کیا جسے بعد میں جنرل صاحب کے رابطے اور صفائی کے بعد بی بی نے نکال دیا۔ 

پھر 2015 کے ایک انٹرویو میں صاف کہا کہ میں بی بی کو سمجھ نہ سکا سو اس کے خلاف 1988 میں اسلامی جمہوری اتحاد بنایا بعدازاں تحریک عدم اعتماد پیش کرانے میں سہولت فراہم کی جبکہ بے نظیر بھٹو محب وطن اور بااصول تھیں، میرا یہ خدشہ بھی غلط ثابت ہوا کہ وہ اقتدار میں آکر باپ کا بدلا لیں گی!

میں اکثر یہ سوچتا ہوں، دھبے سیاسی ہوں یا معاشی آسانی سے نہیں جاتے، ایک مائنڈ سیٹ رہتا ہے جو بات کا بتنگڑ بنائے رکھتا ہے۔ یہ سازِ سلاسل کی بازگشت بھی عجیب شے ہے جو بنا دیتی یا بچھا دیتی ہے ! وادئ سیاست میں اس ساز کی نغمگی قائد اعظم کے علاوہ تمام بڑے سیاسی قائدین کے گرد گھومتی رہی۔

 1970 کی دہائی میں یہ بھٹو پر عاشق رہی اور خالق حقیقی سے ملا کر دم لیا۔ اس سے قبل ایوب خان کی آمریت میں فاطمہ جناح کا ساتھ دینے والے اور ریفرنڈم مخالف زیر عتاب رہے جو مقتدر کے مقدر کے سنگ نہ تھے۔ 

اس کے بعد عوامی نمائندوں کو بھی احساس ہوگیا سیاسی لاٹری نکلتی کیسے ہے اور مقدر کا سکندر بنا کیسے جاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق نوحہ گر ہیں کہ پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو 3 سال 10 ماہ اور 21 دن تک سربراہِ حکومت رہے۔ اور آج تک کوئی وزیراعظم آئینی مدت پوری نہیں کرسکا۔ 

ہمارے ہاں عوام کی تین بنیادی ضرورتوں پر سب سے کم تحقیق ہوئی،ا گر ہوئی تو شائع نہ ہوسکی، کچھ شائع ہوئی بھی تو تسلیم ہونے کی قسمت نہ پا سکی۔ ان تین بنیادی حقوق میں جمہوریت کے استحکام کو فراموش کرنا، تعلیم کو دوام نہ ملنا اور امور صحت کو نظرانداز کرنا ہے۔ 

جس معاشرے میں دلیل یا اپنا مثبت کردار پیش کرنے کے بجائے دوسرے کے کام میں کیڑے نکالنے کا رواج جڑ پکڑ جائے سمجھ لیجئے کہ وہاں یہ 3 بنیادی اشیاء ہیں نہ نئی نسلوں کا حق ادا کیا جارہا۔ گویا یہ الزام تراشیاں یا دشنام طرازیاں وقتی فوائد کے حصول کا شارٹ کٹ تو ہوسکتی ہیں لانگ ٹرم کامیابیوں کا فارمولا بہرحال نہیں۔ 

سیاست وہ سائنس ہے جو تو تکار یا پھکڑ بازی کی شاہراہ پر چل کر منزل نہیں پاسکتی اور نہ قوم کو کچھ دے سکتی ہے۔ جوش خطابت یا شعلہ بیانی اور دریدہ دہنی کسی سیاسی و حکومتی یا ثقافتی تبدیلی کا عندیہ ہوسکتی ہیں نہ گزرگاہ۔ ان معاملات کو اگر نہ سمجھا گیا تو دائروں کا سفر تھکن کے سوا کچھ بھی نہیں۔

ایوب خان ریفرنڈم 1960 آئین فریم کرنے کی پاداش میں ہوا، ضیاء الحق ریفرنڈم 1984 اسلامک ریفرنڈم تھا اور مشرف ریفرنڈم 2002 اصلاحاتی تھا مگر ان تینوں سے قوم نے کیا کھویا کیا پایا؟ لفظوں کی جادوگری اور اقتدار کی ہوس کے سوا ان تینوں ریفرنڈمز سے نکلا ہی کیا؟ قوم کو اسلامی اقدار مل گئیں یا اصلاحات اور آئین؟

وقت آج پھر اس درپے ہے، کہ پکار اٹھے یہ زرداری احتساب ہو یا نواز احتساب یہ سب سیاسی انتقام کا شاخسانہ محسوس ہوتا ہے۔ کاش کوئی ’’مائنڈ سیٹ ‘‘ احتساب بھی ہو۔ قوم کو قطعی طور پر کسی کرپشن سے پیار نہیں لیکن ماہ و سال گزر جانے کے باوجود کوئی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی بھی تو کرے؟ مہینوں کی تفتیش تشویش کا سوا کچھ نہیں ہوتی۔ 

اب، کوئی ان دو عشروں کی سیاست کا جائزہ لے تو سیاسی و جمہوری طور پر یہ لگے گا کہ آصف علی زرداری ایک ڈیسنٹ صدر، مصلحت پسند لیڈر اور صلح جو ڈیموکریٹ ہے، زرداری دور میں خامیوں کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ بعد والی حکومتوں سے کم رہا ( 2013 میں 2 بلین ڈالرز مگر 2018 میں 20 بلین ڈالرز کے قریب تر)، ایکسپورٹ نسبتاً زیادہ (2013 میں 27 بلین ڈالرز رہی مگر 2018 میں 15 تا 20) رہی۔ 

بجلی مہنگی ہونے کے باوجود سستی دی گئی حالانکہ عالمی سطح پر پٹرول، کوکنگ آئل اور ڈالرز تاریخی طور پر آسمان سے باتیں کررہے تھے، اور دہشت گردی کی شدید لہر تھی۔ ان کی پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے وہ آئین دیا جو حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوا۔ ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھی، پھر بے نظیر بھٹو نے قربانی، جدوجہد اور جمہوری رویے کی بنیاد رکھی مگر باپ بیٹی کو ’’شہادت‘‘ کے علاوہ ہم نے کیا دیا؟ 

جنہوں نے ٹین پرسنٹ کا مائنڈ سیٹ دیا زرداری صاحب نے بطور صدر پارلیمنٹ کو تقویت بخش کر اور آئین کو مقدم جان کر انہیں تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کا راستہ دیا۔ بی بی کو جنہوں نے سیکورٹی رسک کہا بی بی انہی کو میثاق جمہوریت سے پاکستان لے کر آئی حالانکہ وہ نہ آنے کا معاہدہ کرکے گئے تھے۔

عجب یہ بھی کہ مخالف مکتب ِ فکر نے مرد حر تک کہا تاہم جن نیازمند پتھروں کو زرداری ہی نے عطا کی تھیں دھڑکنیں جب بولنے لگے تو انہی پر برس پڑے۔ دیکھنا یہ بھی ہے حالیہ رہائی کہیں کسی کی بدخوابی تو نہ ہوگی؟ کبھی کبھی لگتا ہے اس قحط الرجال میں یہ ’’سوتیلا‘‘ ہی بڑا لیڈر ہے ! 

یہ عہد حاضر کی بدخواہیاں و بدحواسیاں گر اسی مہلک مائنڈ سیٹ کے ساتھ ایوانوں اور بالاخانوں میں آباد رہیں تو زرداری کا کچھ بگڑے نہ بگڑے، مگر تبدیلی کا تشخص اور اگلی نسلوں کا اعتماد ضرور بگڑ جائے گا !

تازہ ترین