• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کی تاریخ کا افسوسناک واقعہ

تحریر:سیّد اقبال حیدر۔۔فرینکفرٹ
شہباز شریف نے کہا کہ میں اقتدار میں آ کر ذرداری کا پیٹ پھاڑ دونگا اس کو سڑکوں پر گھسیٹوں گا،عمران خان نے اقتدار سے پہلے سرے عام بجلی کے بل جلائے،اور اب دوروز پہلے آرمی چیف اور وزراء کی موجودگی میں نوجوانوں کو کرپٹ سیاستدانوں کے تعاقب کی ترغیب دے ڈالی،بلاول بھٹو نے اپنے والد کی سنگین بیماری کی وجہ سے عدالتی رعایت ملتے ہی بیان داغ دیا،زرداری باہر آرہے ہیں صدر زرداری شکاری ہیں اب وہ کھلاڑی کا شکار کریں گے پاکستانی عوام کے قائدین عوام کو جس تشدد کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے تھے ،سادہ لوح عوام ہی نہیں معاشرے کے پڑھے لکھے افرادڈاکٹر،وکیلوں نے وہ تشدد کی راہ اپنا لی ہے،مبارکباد۔وکیل ڈاکٹر تنازع جو پچھلے کئی روز سے چل رہا تھاڈرامائی شکل اختیار کر گیا۔لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ کر دیا گیاوکلاء باقاعدہ تیاری کے ساتھ ہسپتال پر حملہ آور ہوئے،بہت بڑی ریلی کی شکل میں انڈین ایکشن فلم کے ڈائیلاگ بولتے ہوئے کہ،ڈاکٹر وکیلوں کا یہ سمندر دیکھو،گھس کے ماریں گے،آج تمہارا بائی پاس ہوگا،آج تمہیں سٹنٹ ملیں گے،ڈاکٹر آج تمھاری موت ہے، ڈاکٹر توتو گیو۔۔ یہ نعرے لگاتے ہوئے ہسپتال کی طرف یلغار کر ڈالی۔ ادارۂ برائے امراض قلب کے وارڈز میں گھس گئے، مریضوں ہی نہیں بلکہ ان کی دیکھ بھال کرنے والے عزیزواقارب کی بھی زندگی اجیرن ہوگئی، دل کے مریض علاج کے لئے گڑگڑاتے رہے مگر وکیلوں کے تشدد کے خوف سے ڈاکٹر جان بچاتے ادھر ادھر بھاگتے نظر آئے،تین سالہ بچی ثمینہ کے منہ سے لگی آکسیجن کا ماسک ہٹا دیا گیا،بچی نے دم توڑ دیا،ایک اور مریض محمد انور طبی مدد نہ ملنے کی وجہ سے ہسپتال کی چاردیواری میں مر گیا،مریض وکلاء سے رحم کی بھیک مانگتے رہے،وکیل وہیل چیئرز پر بیٹھے افراد کو دائیں بائیں دھکیلتے ہوئے وارڈز میں دندناتے ڈاکٹروں کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے،ہسپتال کے شیشے اورفرنیچر کوتوڑپھوڑ دیا۔کئی وکیلوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے ،یاد رہے بار کونسل کے آئندہ دنوں میں الیکشن ہونے والے ہیں وکلاء نے اس پُرتشدد رویے سے اپنی وکلاء برادری کے’’پاورپلے‘‘ کا مظاہرہ کر کے دکھایا تاکہ زیادہ غنڈہ گردی کرنے والوں کو آنے والے وکلاء کے الیکشن میں ووٹ ملیں۔اس سے پہلے بھی لاہور ہی کی کچہری میں کالے رنگ کے کوٹ میں ملبوس ایک خاتون وکیل کو ایک شہری کو مادر زادننگی غلیظ گالیاں دیتے ہوئے سنا اور اس کا کلپ سوشل میڈیا پر سنا گیامگر ریاستی ادارے سوئے رہے،اب وکلاء کہیں گے کالے کوٹ میں وکیل نہیں دہشت گرد شامل ہوئے ،اب پی ٹی آئی کہے گی ن لیگ کے ورکر تھے، PPP والے وکیلوں کو صحت غسل دیتے ہوئے اپنے مخالفین کا نام لے دینگے اور پھر آہستہ آہستہ مرنے والوں کے عزیزاس خبرکو بھول جائینگے۔ وکلا نے پولیس ،میڈیا کے افراد حتیٰ کے صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان کی بھی دھلائی کر ڈالی، انھیں وکیلوں نے ماضی میں جج حضرات کو کورٹ میں تالہ لگا کر بند کیا،انھیں وکیلوں نے کمرہ عدالت میں جج حضرات پر ہاتھ اٹھایامگر اس کے نتیجہ میں نہ ریاست حرکت میں آئی اور نہ ہی اعلیٰ عدلیہ کے ذمہ داروں کو اپنی صفوں میں’’ سیسلین مافیا‘‘ کے تشدد پسند عناصر نظر آئے ۔پچھلے دنوں پشاور سے آئے سینئر وکلا کے وفد سے چیف جسٹس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ تحریک بحالی ٔ عدلیہ شروع ہوئی تھی جس کے نتیجے میں عدلیہ آزاد ہوئی تھی بڑی عزت ملی اب دوسری تحریک شروع کرنا ہوگی’’تحریک بحالی ٔ عزت وکلاء ‘‘کیونکہ وکلاء بڑی تیزی سے اپنی عزت گنوا رہے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب جن وکیلوں کو افتخار چوہدری صاحب نے اپنے اقتدار کے لئے بے لگام کیا تھا انھوں نے آپ کے پُردرد پیغام کو پیروں تلے روندھ ڈالا ہے ،کیا عدلیہ کی جھولی میں ساری دفعات سیاستدانوں،غریب عوام کے لئے ہیں ۔انصاف کا آغاز اپنے گھر سے شروع کیجیے ورنہ دوسرے ملکی امور بجلی،پانی،زلزلہ،کرپشن ،دہشت گردی اور بارڈر کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ وکیلوں، ڈاکٹروں کو لگام ڈالنے کی ذمہ داری بھی پاک فوج کو ہی دے ڈالیں۔
تازہ ترین