علامہ شیخ محمد حیات سندھی بارہویں صدی ہجری کے نامور عالمِ دین، محدث، فقیہ اور مجتہد تھے۔ علم حدیث اور فقہ میں بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے۔انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ مسجد نبوی میں تدریسی خدمات انجام دینے میں گزارااور بہت سے نامور علمائے کرام پیدا کیے۔وہ سندھ کے شہر گھوٹکی کے قریب عادل پور نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام ملا فلاریو چاچڑ تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں ہی حاصل کی، اس کے بعد سندھ کے معروف علمی مرکز ٹھٹہ کا رخ کیا اور وہاں محمد معین بن محمد امین ٹھٹوی سے مزید تعلیم حاصل کی۔
ٹھٹہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد نقل مکانی کر کے حجاز منتقل ہو گئے اور مدینہ منورہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ مدینہ منورہ میں اپنے وقت کے بڑے عالم اور محدث علامہ شیخ ابو الحسن کبیر ٹھٹوی سندھی کی صحبت با برکت سےفیض یاب ہوئے اور ان سے احادیث کی تکمیل کی۔ شیخ ابو الحسن کبیر ٹھٹوی کے علاوہ شیخ عبد اللہ بن سالم بصری، شیخ ابو طاہر محمد بن ابرہیم بن حسن کردی کورانی شافعی اور شیخ کبیر ابو الاسرار حسن بن علی عجیمی حنفی سے درسی نصاب اور حدیث میں تکمیل و اجازت حاصل کی۔
مشہور ہے کہ طالبِ علمی کے ابتدائی دور میں ان کا ذہن کند تھا، جس کی شکایت انہوں نے اپنے استاد سے کی، جس پر استاد نے اپنی ٹوپی اتار کران کے سر پر رکھی، جس کے بعد ان کی ذہانت اور حافطہ کھل گیا۔ شیخ ابو الحسن کبیر ٹھٹوی سندھی کی وفات کے بعد ان کی مسند پر بیٹھے اور مسجد نبویؐ میں درس و تدریس شروع کی۔ درس و تدریس کا یہ سلسلہ ان کی وفات تک مسلسل 24 برس تک جاری رہا۔
اُن کا یہ دستور تھا کہ روزانہ نماز فجر سے قبل مسجد نبویؐ میں وعظ دیا کرتے تھے۔ ہزار ہا افراد ان کی مجلسِ وعظ میں شریک ہوتے تھے اور ان سے عرب، ہندوستان، مراکش، شام اور مصر کے سینکڑوں محدثین و علماء نے فیض حاصل کیا۔ آپ کے تلامذہ میں علامہ محمد قائم سندھی، شیخ احمد بن عبد الرحمٰن شامی، شیخ محمد سعید بن محمد امین سفر المدنی، شیخ عبد القادر بن خلیل بن عبد اللہ رومی مدنی حنفی کرک، شیخ عبد القادر بن احمد بن عبد القادر، شیخ عبد الکریم بن عبد الرحیم دالداغستانی، شیخ سید علی بن ابراہیم بن جمعۃ العیسی کیلانی حلبی حنفی، شیخ علی بن صادق الداغستانی حنفی، شیخ عبد الکریم بن احمد الشراباتی، شیخ علی بن عبد الرحمٰن استنبولی، شیخ علی بن محمد الزھری الشروانی حنفی مدنی، مفتی محمد بن عبد اللہ الخلیقی حنفی فقیہ مدنی، شیخ علیم اللہ بن عبد الرشید حنفی لاہوری (مدفون دمشق)، شیخ خیر الدین بن محمد زاہد بن حسین محمد حنفی نقشبندی (مدفون سورت)، علامہ سید محمد فاخر زائر الہٰ آبادی (سلسلہ فاخریہ کے سرخیل، مدفون برہان پور)، شیخ محمد بن عبد اللہ فیروز احسائی (مدفون بصرہ)، میر غلام علی آزاد بلگرامی، مخدوم شیخ ابو الحسن صغیر ٹھٹوی مدنی، محدث خیر الدین سورتی، شیخ عبد الرحمٰن بن جعفر شافعی الکردی (مدفون دمشق)، شیخ عبد الخالق بن ابی بکر زبیدی حنفی، امیر یمانی محمد بن اسماعیل (شارح بلوغ المرام)، شیخ ابراہیم بن مصطفی حنفی حلبی مداری (مدفون استنبول)، حضرت شیخ ولی اللہ محدث دہلوی ، محمد بن عبد الوہاب نجدی خارجی (بانی فرقہ وہابیہ نجدیہ) وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
درس، عبادات، اوردر و د ووظائف اور دیگر علمی مصروفیاتِ روز و شب کی وجہ سے آپ کو تصنیف و تالیف کا موقع بہت کم ملا لیکن اس کے باوجود متعدد کتابیں تحریر فرمائیں، جن میں شرح علی الترغیب و الترھیب للمنذری (۲ جلدیں)، شرح حلیۃ النوار، تھفۃ المحجین شرح الاربعین للنووی، مختصر الزواجر لابن حجر مکی، شرح الاربعین حدیث امن جمع الملا علی القاری، الایقاف علیٰ سبب الاختلاف، رسالہ رد بدعت تعزیہ، ارشاد النقاد الی تیسیر الاجتھاد، فتح الغفور فی النھی عن عشق المردان و النسوان، تحریم الدخان، کراھیۃ الاخضاب بالسواد، الجنۃ فی عقیدۃ اھل السنۃ، اتخاذ الماتم من الماثم، رد الرسالۃ شیخ معین السندی فی مسئلۃ الفدک وارث الانبیاء، رد قرۃ العیز علی البکاء علی الحین رضی اللہ عنہ، العطیۃ العلیۃ فی مسئلۃ الافضلۃ، رد مواھب سید البشر فی حدیث الخلفاء الائنیٰ عشر، رسالۃ فی حرمۃ اخذ الاجرۃ علی القرآن، موھب الحکم شرح الحکم الھدایۃ، موقظ الھمم شرح الحکم العطائیہ، تحفۃ الانام فی العمل بحدیث النبی علیہ الصلوۃ و السلام شامل ہیں۔
سندھ کے جید علماء میں سے علامہ محمد معین ٹھٹوی اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی ان کے ہم عصر تھے۔ علامہ محمد معین ٹھٹوی کے بعض رسالوں پر شیخ محمد حیات نے رد لکھی ہے اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی سے بعض مسائل پر مناظرے بھی رہے ہیں۔ فریقین کے اس سلسلے میں رسالے موجود ہیں۔ شیخ محمد حیات شخصی تقلید کے قائل نہیں تھے، وہ حدیث پر عمل کرنے پر زور دیا کرتے تھے، اس ضمن میں ان کا ایک رسالہ بھی موجود ہے۔
عربی، سندھی اور فارسی کے تمام سوانح نگار شیخ محمد حیات سندھی کے حنفی مسلک پر متفق ہیں۔انہوںنے اپنا سرمایہ مدینہ منورہ کے غریب اور مسافر طلباء پر صرف کیا۔ روپیہ پیسہ کچھ بھی جمع نہیں کیا۔ صوفیائے کرام کی طرح ساری زندگی توکل علی اللہ میں بسر فرمائی۔ وہ کثیر علمی ورثہ چھوڑ کر 26 صفر 1163ھ بمطابق4 فروری 1750ء بروز بدھ مدینہ منورہ میں رحلت فرما گئے۔ مسجد نبویؐ میں گنبد خضریٰ کے سائے میں آپ کی نماز جنازہ ادا ہوئی اور جنت البقیع میں تدفین کی سعادتِ عظیم حاصل کی۔