بڑی تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ترقی پذیر ممالک اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ انکی سماجی و اقتصادی ترقی کا دارومدار تعلیم پر ہے۔ بالخصوص اعلیٰ تعلیم پر۔ وہ واحد اور سب سے اہم عنصر جس پر تعلیم کا معیار منحصر ہے جو تعلیم کے معیار کی نشاندہی کرتا ہے وہ ہے اساتذہ کا معیار۔ بد قسمتی سے ترقی پذیر ممالک کی جامعات کے اکثر اساتذہ مناسب قابلیت کے حامل نہیں ہیں جس کی وجہ سے تعلیم و تحقیق کا معیار نہایت پست ہے۔ تا ہم ٹیکنالوجی نے ترقی کی کئی نئی راہیں کھول دی ہیں جو کہ پچھلی دہائی میں موجود ہی نہیں تھیں۔ اب گھر بیٹھے دنیا کے اعلیٰ ترین پروفیسروں کے کورسز تک رسائی ممکن ہے۔ چاہے و کیمبرج، اکسفورڈ، ہارورڈ، MIT اسٹین فورڈ یا دوسری اعلیٰ جامعات میں ہوں۔ بس ضرورت ہے آپکے کمپیوٹر پر مناسب بینڈ وڈتھ کی۔ 2000ءسے 2002ءکے دوران جب میں وفاقی وزیر برائے ITو مواصلات تھا۔ ITکے شعبے میں بہت تیزی سے ترقی ہوئی ۔ انٹر نیٹ تک رسائی نہایت تیزی سے 29شہروں سے بڑھ کر 2000 شہروں، قصبوں اور دیہاتوں تک پہنچ گئی تھی۔ فائبر کی رسائی 40شہروں سے بڑھ کر1000شہروں اور قصبوں تک پہنچ گئی تھی۔ بینڈوڈتھMB2 لائن کے نرخ ڈالر 87,000 فی مہینہ سے گھٹ کر 2000 ڈالر اور پھر 900ڈالر فی مہینہ ہو گئی۔ ایک سیارہ (Paksat 1)خلاءمیں بھیجا گیا جس کے کچھ ٹرانسپونڈرز تعلیمی مقاصد کے استعمال کےلئے مقرر کر دیئے گئے تھے۔ جو کہ ورچیول یونیورسٹی (Virtual University of Pakistan) کے استعمال میں ہیں یہ جامعہ لاہور میں قائم کی گئی جس سے ملک بھر سے تقریباََ ایک لاکھ سے زائد طلبہ مستفید ہو رہے ہیں۔ اس طرح دنیا کی سب سے عمدہ ڈیجیٹل لائبریری کی بنیادبھی پڑی جہاں سرکاری جامعات کے ہر طالب علم کو 220 بین الاقوامی اشاعتی اداروں سے شائع کردہ65000کتب تک اور 25,000بین الاقوامی جرنلز تک مفت رسائی کی سہولت میسر تھی۔ حقیقتاً ایک خاموش انقلاب وقوع پذیر ہواہے۔ اس طرح تحقیقی جرنلزتک ملک گیر مفت رسائی تو امریکہ، یورپ اور جاپان میں بھی میسر نہیں۔ تمام سرکاری جامعات میں وڈیو کانفرنسنگ کی سہولتیں قائم کی گئیں جس کے ذریعے اعلیٰ تعلیم ہمارے دروازے تک پہنچ گئی جہاںدنیا بھر کی تمام اعلیٰ ترین جامعات سے پاکستانی طلبہ کے یے لیکچرز منعقد ہوتے ہیں اس فاصلاتی تعلیمی سرگرمی کا اہم مرکزہائر ایجوکیشن کمیشن کا نامزد کردہ لطیف ابراہیم جمال نیشنل سائنس انفارمیشن سینٹر ہے جوجامعہ کراچی میں واقع ہے۔گزشتہ تین سالوں میں امریکہ،یورپ اور آسٹریلیا کے پروفیسراس سہولت کے تحت 2000 سے زائد لیکچر پاکستانی طلباءتک پہنچا چکے ہیں۔
فاصلاتی تعلیم میں ایک اہم پیش رفت MIT Open Courseware ہے جو دنیا بھر کےلئے مفت دستیاب ہے۔ اس ویب سائٹ کے ذریعے MIT کے اساتذہ دو ہزار سے زائد مختلف شعبوں میں انڈر گریجویٹ اور ماسٹرز کے کورسز فراہم کرتے ہیں۔ تقریباََ 215ممالک سے 20 لاکھ طلبہ سالانہ اس ویب سائٹ کو استعمال کرتے ہیں اور ان کورسز سے مستفید ہوتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اب تک دس کروڑ طلبہ اس سائٹ سے مستفید ہوچکے ہیں ۔میں نے HECکے چیئرمین کی حیثیت سے پاکستان میں MIT کورس وئیر کی ویب سائٹ پاکستان میں تشکیل دی تھی، تا کہ ان کورسز کی رسائی بآسانی ہو سکے۔ اسی قسم کے بڑے پیمانے پر اوپن آن لائن کورسز (MOOCs) اسٹن فورڈ اور دیگر جامعات نے بھی متعارف کرائے ہیں۔اسی نوعیت کی ایک اور ویب سائٹ"Udacity" ہے جسے Stanford کے ایک پروفیسر نے گزشتہ سال متعارف کرایا تھا جس میں تقریباََ 160,000طلبہ نے مصنوعی ذہانت (artificial intelligence)کےلئے رجسٹریشن کرائی تھی۔ اسی طرح تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے والا فاصلاتی تعلیمی اقدام "Coursera" بھی Stanford کے دو کمپیوٹر سائنس کے پروفیسروں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، جس میں دنیا بھر سے تقریباََ 2لاکھ طلبہ مختلف شعبوں میں رجسٹر ہو چکے ہیں۔ ہاروڈ یونیورسٹی نے بھی اسی نقشِ قدم پر چلتے ہوئے MIT کے اشتراک سے آن لائن کورس کا پروگرام "edx" شروع کیا ہے اور یہ کورسز ترقی پذیر ممالک کے لئے مفت مہیا کئے جائیں گے۔ Apple iTunesuکے ذریعے بھی دنیا کی ممتاز جامعات بشمول کیمبرج، آکسفورڈ وغیرہ تک رسائی بآسانی ممکن ہے۔ جہاں پر مفت وڈیو لیکچرز دستیاب ہیں۔کیلی فورنیا میں قائم "The Khan Acadmy" کئی سالوں سے اسکول اور کالج کی سطح پر تعلیمی مواد فراہم کر رہی ہے۔ جس میں سے بیشتر مواد این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کا ایک گروپ اُردو میںترجمہ کرتا ہے۔
حال میں ایک میٹا سرچ انجن (Meta Search Engine)بین الاقوامی ادارہ برائے کیمیائی و حیاتیاتی سائنسز لطیف ابراہیم جمال نیشنل سائنس انفارمیشن سینٹرجوجامعہ کراچی میں HEC کا نامزد کردہ وڈیو کانفرنسنگ اور فاصلاتی تعلیم کا اہم مرکز ہے تشکیل دیا گیا ہے جس کے ذریعے ان تمام کورسز اور مواد تک جلد رسائی ممکن ہو جائے گی۔ اور ایسا انتظام کیا جا رہا ہے کہ یہ تمام مواد ماہرینِ تعلیم و طلبہ کے لئے انٹر نیٹ اور ٹیلی وژن پر بالکل مفت دستیاب ہوں۔ تعلیمی ٹیلی وژن کا جلد ہی افتتاح متوقع ہے۔ یہ قدم بھی پاکستان میں تعلیم کے فروغ میں اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ میں اس اہم پروگرام کی قیادت کرہا ہوں، جس کے ذریعے معیاری تعلیمگھر گھر آپکے دروازے تک مہیا ہو گی اور 19سال سے کم عمر کے تقریبا ایک کروڑ نوجوان اس سے ا ستفادہ حاصل کرسکیں گے۔
اس موجودہ ابتر حالت سے باہر نکلنے کے لئے ہمیں کورسز میں تبدیلی لانی ہو گی ان کورسز کو علم پر مبنی معیشت کی بنیاد پر تشکیل دینا ہو گا۔ جیسا کہ چین، کوریا اور بہت سے دیگر ممالک نے کیاہے۔ صرف اسی طرح غیر ملکی امداد کے طوق سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے، اور دوسرے ممالک کے ساتھ پروقار طریقے سے کھڑا رہا جا سکتا ہے۔ میری قیادت میں سماجی و اقتصادی ترقی حاصل کرنے کے لئے ٹیکنالوجی کے استعمال سے زرعی اور صنعتی ترقی پر 15سالہ واضع اور مفصل منصوبے کا مسودہ تیار کیا گیا تھا جوانجینئرنگ، زراعت، کپڑے کی صنعت، دواسازی، ٹیلی مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی وغیرہ جیسے کلیدی شعبوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کی تیاری میںبڑے پیمانے پر ہزاروں صنعتی ماہرین، ماہر تعلیم، ہمارے تارکینِ وطن سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں کے ماہرین سے مشاورت شامل ہے۔ اس 300صفحات پر مشتمل دستاویز کا عنوان
"Technology based Vision and Strategy for Pakstan's Socio-Economic Development" ہے جو کہ 30اگست 2007کو کابینہ نے منظور کیا اور وزارتی سطح کی کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ اس پر عملدرآمد کیا جا سکے۔ بدقسمتی سے 2008ءمیں نئی حکومت نے برسرِ اقتدار آتے ہی دوسری ترجیحات پر عملدرآمد شروع کر دیا اور یہ دستاویز سرکاری فائلوں کے ڈھیر تلے دب گیا۔ امید ہے کہ نئی حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد اسکی طرف رخ کرے گی۔اور اس پر عملدرآمد پر غور کرے گی۔
گزشتہ دو سالوں میں پنجاب میں رونما ہونے والی شاندار کامیابیوں میں سے ایک کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا، وہ ہے لاہور اور پنجاب کے دیگر حصوں سے ڈینگی بخار کا تقریباََ مکمل خاتمہ اور یہ سب ڈاکٹر عمر سیف، چیئرمین، پنجاب سافٹ وئیر ایکسپورٹ بورڈ، اور انکے ساتھیوں کی شاندار ذہانت کی بدولت ممکن ہوا۔ جنھوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے ان موذی مچھروں کی جائے افزائش کا پتہ لگایاکہ یہ چھوٹے چھوٹے پانی کے جوہڑوں میں انڈے دیتے ہیں ان جوہڑوں کو ختم کر دیا جائے تو ان مچھروں سے مکمل طور پر نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس مقصد کے پایہ تکمیل کےلئے انہیں وزیرِ اعلیٰ پنجاب ، میاں شہباز شریف کی بھر پور حمایت حاصل تھی۔ اس وقت قوم انکے اس بہترین قدم کی قرضدار ہے جو وہ شکریہ کے ذریعے ادا کر سکتی ہے۔ اسی ٹیکنالوجی کے استعمال سے اور بھی کئی امراض کا پاکستان بھر سے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اور یہی جدید ٹیکنالوجی کی طاقت کی وضاحت ہے۔
ترقی حاصل کرنے کے چار بنیادی ستون ہیں۔ تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، جدت طرازی، فوری انصاف کی فراہمی، تاہم یہ سب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ایک ایماندار، تکنیکی تعلیم یافتہ اور روشن بصارت کی حکومت قائم نہ ہو جائے۔ دنیا کے سب سے معروف سائنسی جرنل نے 2008ءمیں اپنے اداریئے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ سائنس و ٹیکنالوجی کےلئے کئے گئے اقدامات کے ریکارڈ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ نئی حکومت کو اعلیٰ تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کا کام جاری رکھنا چاہیے ورنہ ” ملک دوبارہ پتھر کے زمانے © © میں چلا جائے گا جیسا کہ جنرل مشرف کے دور سے پہلے تھا“۔ صد افسوس ایسا ہی ہوا ہے۔ تا ہم پاکستان کی سیاسی فضاءتبدیل ہورہی ہے اور نئی امید کی کرن جاگ رہی ہے شاید اب ہم اپنے آپ کو اس ابتر حالت سے باہر نکال سکیں جس کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔