ہر شہر پر اس کی ایک اپنی فضا طاری ہوتی ہے اور اس کے ماحول میں اس شہر کی اپنی مخصوص خوش بو بسی ہوتی ہے۔میرا یہ مشاہدہ اَن گنت مقامات پر صادق آتا ہوگا مگر شہر ملتان کی تو بات ہی جدا ہے۔
جوں ہی ملتان میں قدم رکھتا ہوں،محسوس ہوتا ہے پورے شہر کو ایک پر اسرار سی چادر نے ڈھانپ رکھا ہے۔
آج کی خلقت نے ملتان کو بڑا ہی جدید شہر بنا دیا ہے لیکن علاقے میں قدامت کی خو بو ایسی رچی ہوئی ہے کہ کوئی کھنڈر، کوئی پرانا مزار، بے حد قدیم مندر اور سکندر کے زمانے کا قلعہ نظر آئے یا نہ آئے، لگتا یوں ہی ہے کہ صدیوں بعد شہر ابھی ابھی جاگا ہے۔
اس جاگنے پر کیا کیا یاد آیا، سنیے۔ایک شام پہلے میں ملتان پہنچا تو وہ شام ہر شام ہی جیسی تھی۔ احباب مجھے لینے ہوائی اڈے پر آئے تو ان کی گرم جوشی دیکھ کر یہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ ملتان کی فضا میں خلافِ معمول خنکی بڑھ رہی ہے۔ سب مل کر کھانے پر بیٹھے تو اگلے روز کے منصوبے بننے لگے۔
کسی شاعر کی بیٹی کی شادی تھی، احباب نے کہا کہ خالص ملتانی انداز کی شادی ہوگی، ضرور چلئے گا۔ خود میرے ذہن میں تھا کہ چل کر جھنڈیر کی لائبریری دیکھ لی جائے کہ وہ بھی کپاس کے کھیتوں کے بیچ ایک عجوبے کی طرح کھڑی ہے۔ ادھر نیلی بار کے بے حد زرخیز علاقے کے احباب کا اصرار تھا کہ ان کی سرزمین نہ دیکھی تو کچھ بھی نہ دیکھا۔
اسی قسم کے ارادے باندھتے باندھتے رات ہوگئی اور سب اپنے اپنے ٹھکانوں کو لوٹ گئے۔ آدھی رات کے بعد کسی وقت وہ ہوا جو ملتان میں نہیں ہوا کرتا۔ کہیں سے سردی کی دیوانی لہر ملتان کی طرف آ نکلی او راپنے ساتھ پانی سے بھری بدلیاں لیتی آئی۔اس وقت بارش کی رم جھم سے آنکھ کھلی اور کچھ دیر بعد گہری نیند آگئی جو ایسے موسم کی سوغات ہوا کرتی ہے۔
دن نکل آیا لیکن موسم نے شہر کو اپنی بانہوں میں لیا ہوا تھا۔ میرے میزبان قیصر عباس میرے ہوٹل آگئے اور آتے ہی پوچھا کہ ناشتے کا کیا اہتمام کیا جائے۔ میرا جوا ب سن کر انہیں حیرت ہوئی۔میں نے وہی فرمائش کی جو ایسے موسم میں ہر با ذوق کو کرنی چاہئے۔
میں نے کہا ’بہت گرم حلوہ پوری کھائیں گے، کوئٹہ کی بھاپیں اڑاتی دودھ پتی چائے پئیں گے اور راستے میں گرم پکوڑے کھاتے جائیں گے‘۔تو اس طرح میں نے ملتا ن کی وہ پچھلی گلیاں دیکھیں جہاں اس قسم کی نعمتیں ملا کرتی ہیں۔قیصر عباس کے بارے میں بتاتا چلوں کہ بیک وقت کیا کیا ہیں، ادیب ہیں، صحافی ہیں، کالم نگار ہیں، پہاڑوں، جھیلوں اور وادیوں کے عاشق ہیں اور سفر نامے لکھ لکھ کر گھر میں کتابوں کا ایک پہاڑ بنا لیا ہے۔
اوپر سے قانون داں ہیں اور وکالت ان کا پیشہ ہے۔ اس روز جب ناشتے کا مرحلہ طے ہوگیا تو قیصر عباس نے پوچھاٖ:اب کیا دیکھیں گے، انہیں یقین تھا کہ میں اولیاء کی زیارت گاہوں پر چلنے کی فرمائش کروں گا لیکن مجھے ہندوؤں کے زمانے کے اس بت کو یا اس کے آثار کو دیکھنے کا بہت ہی اشتیاق تھا جس کے قدیم ملتا ن ہی کے نہیں ،ہندوستان بھر کے ہندو دیوانگی کی حد تک معتقد تھے اور کتنے ہی لوگ بت کے قدموں میں خود کو قربان کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
پرانی کتابوں میں اس بت کے حلیے اور شکل و شباہت کی کافی تفصیل ملتی ہے لیکن جو بیان میرے ذہن میں اٹک کر رہ گیا وہ یہ تھا کہ بت پالتی مارے بیٹھا ہوا ہے اور اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر اس طرح ٹکائے ہوئے ہیں گویا بیچ کی انگلی چار کی گنتی پر رکھی ہوئی ہے۔میں نے فرمائش کی کہ اس بت کے پاؤں کے انگوٹھے کا ناخن ہی بچا ہو تو وہ دکھاؤ۔
قیصر نے بڑا سا سر ہلا دیا۔تصور کیجئے ملتان وہ شہر ہے جو موہنجودڑو، ہڑپہ اور ٹیکسلا کے زمانے میں بھی آباد تھا اور اس وقت سے آج تک کبھی نہ اجڑا نہ ویران ہوا۔اس شہر میں تو اتنے آثار قدیمہ ہونے چاہئے تھے کہ شمار کرنا مشکل ہوجائے لیکن یوں نہیں ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ میں قدیم ملتان کے گلی کوچوں میں پھرا ہوں، قدیم تو رہے ایک طرف، لوگوں نے آزادی سے پہلے کی نشانیوں کو بھی مٹا ڈالا ہے۔ سنا ہے ایک بار یونیسکو نے پیشکش کی تھی کہ قدیم اندرونِ شہر کی آبادی کو متبادل جگہ دے کر اس پورے علاقے کو قومی ورثہ قرار دے دیا جائے۔ سر پھروں نے یہ تجویز دیوانے کی بڑ قرار دے دی۔
بہرحال ملتان کے موسم کے مزاج نہیں مل رہے تھے تب بھی شہر کی ایک ادبی تنظیم نے جو سخن ور فورم کے نام سے جانی جاتی ہے ،آرٹس کونسل کے چھوٹے ہال میں اپنی ادبی بیٹھک جمائی۔
اہل علم جمع ہوئے، ڈاکٹر انوار احمد بڑے شوق سے آئے اور میرا تعارف کچھ اس اندازسے کرایا گویا کہیں کسی آڑ سے میرا مشاہدہ کرتے رہے ہوں۔
کتنی سچی با ت کہی کہ عابدی صاحب جہاں بھی جاتے ہیں، نوجوان انکے گرد حلقہ کرلیتے ہیں۔ میرے اور نوجوانوں کے درمیان جو ڈور بندھی ہے اسے ڈاکٹر صاحب نے خوب پہچانا۔
نوجوانوں کی بات چلی تو اس ادبی بیٹھک کے بعد مجھے ایک اور نوجوان سے ملنے جانا تھا اور وہ تھیں ملتان کی خواتین کی یونیورسٹی کی نہایت ذہین اور دانشور استاد ڈاکٹر شاہدہ رسول ۔
شاہدہ بینائی سے محروم ہیں لیکن قدرت نے انہیں ذہانت دیکر سارے خسارے پورے کردیے ہیں مگر مسئلہ یہ تھا کہ کسی کو ان کا پتا معلوم نہ تھا۔
بیٹھک کے کم سے کم چار شرکا نے راستہ ڈھونڈنے میں مدد کی پیشکش کی، اس طرح اہل علم و دانش سے بھری ہوئی کار ان کی گلی کی طرف روانہ ہوئی اور ایک بار تو یوں لگا جیسے ادبی بیٹھک اٹھ کر شاہدہ کے گھر پہنچ گئی ہے۔
شاہدہ نے بڑی پذیرائی کی ،خوب گفتگو ہوئی جس کے دوران یہ بھید کھلا کہ شاہدہ رسول عمدہ نظم بھی کہتی ہیں۔ گزرتا ہوا ہر خوشگوار لمحہ ہمارے لئے وقت کی سوغات بن جاتا ہے۔