مہوش لطیف
سندھ کی تہذیب ساڑھے تین ہزار سال قدیم ہے۔ اس میں جا بجا عجائبات بکھرے ہوئے ہیں۔ قدیم آثار کی صورت میں موئن جو دڑو سمیت دیگر تاریخی مقامات قدیم عالمی ورثہ میں شامل ہیں۔
کیرتھر کے طویل پہاڑی سلسلے میں مصور ی کے شاہکار نظار آتے ہیں
انہی عجائبات میں کیرتھر یا کھیرتھر کے پہاڑی سلسلہ میں قدیم دور کی نقش نگاری سے مزین چٹانیں پائی گئی ہیں۔ کھیرتھر پہاڑی سلسلہ 190 میل (300 کلومیٹر) طویل ہے اور شمال سے جنوب کی طرف سندھ میں جیکب آباد، قمبر شہداد کوٹ، دادو جامشورو اور کراچی کے اضلاع تک پھیلا ہوا ہے۔قدیم آثار کے ماہرین نے قدیم نقش نگاری کے کئی مقامات دریافت کیے گئے ہیں۔
ان میں ضلع دادو کی تحصیل جوہی میں برساتی نالے نئہ نلی کے اطراف میں حُر ڈھورو (تالاب)، زینی ڈھورو، سزومزو ڈھورو جب کہ جوہی شہر سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع دادو کی سرحدوں میں گاج نئہ کی وادی میں بے شمار قدرتی چشموں کے پانی کے تالاب ہیں جن میں شکلوئی ڈھورو، بزگر ڈھورو، میٹ ڈھورو، فیضو گھروٹی، سکی ڈھنڈھ (سوکھی جھیل) اور قربان ڈھورو قابل ذکر ہیں۔ نئہ نلی کے قریب کلری ڈھورو، پاچھل ڈھورو، نئہ تکی کے قریب خاشانی ڈھورو بھی تحصیل جوہی ضلع دادو میں ہے۔
اس طرح پہاڑوں پر قدیم نقش نگاری کے شاہ کار قمبر شہر (ضلع قمبر شہداد کوٹ) کے قریب نئہ مزنانی، نئہ ساہار اور خیجی نئہ ضلع لاڑکانہ، شہداد کوٹ، نئہ دلاں تحصیل خیرپور ناتھن شاہ ضلع دادو کے اردگرد بھی دریافت ہوئے ہیں۔قدیم نقش نگاری سے مزین چٹانیں کھیر تھر پہاڑ میں نئہ سالاری، راڈھا، سنگھرو، بری، کھینجی، جاہر، سیتا انگئی، کھندھانی، ککڑانی، ہلیلی، نئیگ، بندھنی، اوشو اور بزگر نالوں کے نزدیک بھی دریافت ہوئی ہیں۔ پہاڑوں پر قدیم نقش نگاری کے شہ پارے گڈاپ ٹاؤن کراچی کے علاقے میں ملے ہیںلیکن ضلع دادو میںاس قدیم نقش نگاری کے اعلی ٰشاہکار ملے ہیں۔
کیرتھر پہاڑی سلسلے کی چٹانوں پر فن پاروں کی صورت میں جو اشکال منقش کی گئی ہیں، ان میں بیل گاڑی، سن ٹاور، یک سنگھا (یونیکورن) جانور، سندھی آئی بیکس، بیل، گائیں، بدھ مت کے اتوپ، شیر، بھیڑیا، اونٹ،رقص کرتی ہوئی خواتین اور مرد، سواستیک، تیر کمان، ہتھیاربند شکاری، اونٹ سوار، گھڑسوار، بندوقیں، تلواریں،مختلف کام کاج کرتی ہوئی خواتین ، ُاس دور کی ’’جدید ایجاد‘‘ پہیہ ہر جگہ منقش نظر آتا ہے۔
ان فن پاروں کے علاوہ زردشت مذہب کے دخمے اور آتش کدے بھی منقش ہیں ۔سندھو اسکرپٹ اور خروشتی رسم الخط ب بھی ان چٹا نوں پر تخلیق کیا گیا ہے۔ان چٹانوں پر کی گئی نقش نگاری میں بدھ مت کے اثرات غالب نظر آتے ہیں۔
قدیم آثار کے بعض ماہرین کی رائے کے مطابق مذکورہ چٹانوں پر نش نگاری کے یہ فن پارے پتھر کے دور (Neolithic) اور سنگی و برنجی دور (Chalcolithic) میں تخلیق کیے گئے تھے جب کہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ چٹانوں پر نقاشی کا کام کانسی کے دورکے انسان کی تخلیق ہے۔ان منقش چٹانوں کا سلسلہ بدھ مت سے جڑے ہونے کا ایک ثبوت بھارت کے شہر اورنگ آباد میں اجنتا کے نام سے 300غاروں کا مجموعہ ہے جن میں اسی قسم کے شاہکار تخلیق کیے گئے ہیں۔ انیسویں صدی کے اوائل میں ایک انگریز افسر جان ا سمتھ شکار کی غرض سے اس علاقے میں پہنچا جہاں اسے جھاڑیوں اور خود رو درختوں کے درمیان کسی غار کا دہانہ نظر آیا۔
اس نے وہاں موجود ایک چرواہے کو بلایا اور اس کی مدد سے جھاڑ جھنکاڑ صاف کرتا ہوا غار کے دہانے پر پہنچا اور غار کے اندرداخل ہوگیا۔ اندر پہنچ کر اس نے دیکھا کہ غار خستہ حالت میں تھا لیکن اس کی دشواروں پر د ل کش نقش و نگاربنے ہوئے تھے۔ قدیم آثار کے ماہرین کے مطابق 30 غاروں کا یہ مجموعہ مختلف ادوار کا بنا ہواہے، جن میں سے پہلا مجموعہ قبل مسیح کاجب کہ دوسرا مجموعہ بعد از مسیح کا ہے۔
الغرض اجنتا کے ان غاروں کی نقاشی قابل دید ہے جو تیز رنگوں سے کی گئی ہے اور تصویریں ہوش ربا مناظر پیش کرتی ہیں۔ نقاشی میں ، سرخ، زرد، بھورے، کالے یا سفید استعمال کیے گئے ہیں جبکہ لاجورد اور زرد رنگ کی آمیزش سے سبز رنگ تیار کیا گيا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی بھی رنگ کو نقش و نگار بنانے کے لیے دوبارہ استعمال نہیں کیا گيا ہے۔یہ غار مہاتما بدھ کے دور کے ہیں اوران میں بودھ مت کی تعلیمات اور کہانیوں کے عکاسی کی گئی ہے۔
گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے علاقہ چلاس کے گردونواح میں بھی کیرتھر رینج کی چٹانوں کی طرح قدیم آثار دریافت ہوئے ہیں ۔پہاڑوں اور پتھروں پر اُس دور کے فن کاروں نے انتہائی فن کارانہ انداز میں خوب صورت شاہ کار تخلیق کیے ہیں جو قدیم آثا ر سے دلچسپی رکھنے والے افرادکے لیے باعث کشش ہیں۔
یہ اشکال اس بات کی دلالت کرتی ہیں کہ گلگت کے خطے کے شہر چلاس کا شمار بھی دریائے سندھ کی قدیم تہذیبوں میں ہوتا تھا۔ ان پتھروں پر شکار کے قدیم آلات، کھڑے ہو کر نشانہ لینے اور گھات لگاکر شکار کرنے کے مناظر کی عکاسی کی گئی ہے۔ ان پتھروں پر ، بیل، بھینس اور بکری کی اشکال بھی تراشی گئی ہیں۔ان تمام قدیم آثار کی دریافت انیسویں صدی میں ہوئی تھی۔