راولپنڈی(اپنے رپورٹر سے)باخبر ذرائع کے مطابق ڈی چوک دھرنا کے شرکاء نے رینجرز اہلکاروں سے چھینا گیا سارا اسلحہ ابھی تک واپس نہیں کیا ہے۔جبکہ ڈی چوک دھرنے کے شرکاء سے نمٹنے والی حکمت عملی میں راولپنڈی کی انتظامیہ کو آن بورڈ نہیں لیا گیاہے۔ضلعی انتظامیہ راولپنڈی نے ڈی چوک دھرنے کے اثرات سے نمٹنے کیلئے دفعہ144نافذ کردی ہے۔ راولپنڈی میں داخلے اور نکلنے کیلئے مخصوص19جگہوں پر چیک پوسٹیں قائم کردی گئی ہیں۔ بدھ کو اسسٹنٹ کمشنر کینٹ ڈاکٹر ستائش،اے سی صدر تسنیم علی خان،رجسٹرار سٹی خالد جاوید گورائیہ اور رجسٹرار کینٹ احمد حسن رانجھا نے جائزہ لے کر رپورٹ ڈی سی او راولپنڈی ساجدظفر ڈال کو دی ہے۔دفعہ144بدھ اور جمعرات تک جاری رہے گی۔ڈی سی او راولپنڈی ساجد ظفر ڈال نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ راولپنڈی میں گرفتار افراد کی تعداد498ہے۔جس میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے40،لاہور122،کراچی و سکھر کے90جبکہ باقی مختلف اضلاع کے ہیں۔جن کو اٹک جیل اور دیگر جگہوں پر رکھا گیا ہے۔اس وقت بھی مقامی مذہبی قیادت جن میں پیر نقیب الرحمن،علامہ ریاض حسین شاہ اور پیر حسین شاہ شامل ہیں ان سے قریبی رابطہ ہے۔ پنجاب حکومت نے راولپنڈی انتظامیہ کی لیاقت باغ اجتماع سے نمٹنے کی کوششوں کو سراہا ہے۔ادھر باخبر ذرائع نےلیاقت باغ سے ڈی چوک تک کے واقعات کے حوالے سے کہا ہے کہ حالات کو بے قابو کرنے میں نادیدہ ہاتھ ملوث ہیں جس سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔راولپنڈی کی مقامی اہلسنت قیادت نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے خاموشی اختیار کی جبکہ لوگوں کوبے قابو کرنے میں ملک دلپذیر،ثروت اعجاز قادری اور خادم حسین رضوی کس کے کہنے پرمتحرک تھے۔میٹرو ٹریک کی حفاظت رینجرز کے پاس تھی جبکہ سب سے زیادہ نقصان اور توڑ پھوڑ بھی میٹرو سٹیشنز پر ہی ہوئی ۔رحمن آباد کے قریب جب پولیس اور ریلی کے شرکاء میں تصادم شروع ہوا تو رینجرز کو صورتحال کنٹرول کرنے کیلئے طلب کیا گیا تھالیکن اس وقت میٹرو ٹریک پرتعینات رینجرز اہلکار اسلام آباد پہنچ چکے تھے۔راولپنڈی میں مظاہرین کو روکنے کیلئے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کے سوا کوئی اور طریقہ استعمال کرنے سے روک دیا گیا تھا۔لیاقت باغ سے اسلام آباد کی طرف شرکاء کی روانگی ایک بجکر38منٹ پر شروع ہوئی ، پانچ بجے کے بعد دارلحکومت میں داخل ہوئے تھے۔تین گھنٹے تک کیوں کوئی ایکشن یا حکمت عملی نہ اپنائی گئی۔ذرائع کے مطابق ڈی سی او راولپنڈی کی قیادت میں لیاقت باغ اجتماع کی انتظامیہ کیساتھ جمعہ کی صبح پہلے مذاکرات ہوئے۔جس کے بعد 12بجے دوبارہ سٹیج پر بات چیت کی گئی۔جو ناکام ہوئی اور اسلام آباد روانگی کا اعلان ہو گیا تھاجبکہ جو سرکاری وفد مذاکرات کیلئے گیا تھا اس کو واپسی پر دھکے اور پتھرائو کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔علماء کی ایک مذاکراتی کمیٹی پر اتفاق کے باوجود کیوں صورتحال خراب ہوئی ،اس کی ذمہ داری انتظامیہ پر ہے یا علماء پر ہے۔