لندن (جنگ نیوز) آثار قدیمہ کے ماہرین نے 2009 میں برطانیہ کے قدیم ترین انسانی دماغ کا ڈھانچہ دریافت کیا تھا جو حیران کن طور پر 2 ہزار 600 سال گزر جانے کے باوجود بھی بہتر حالت میں موجود ہے۔ یہ انسانی دماغ یارک یونیورسٹی کی آثار قدیمہ پر ریسرچ کرنے والی ایک ٹیم نے دریافت کیا تھا اور وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے تھے کہ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ دماغ ب تک بہتر حالت میں کیسے موجود ہے۔ تاہم اب اس دماغ کے ٹھیک حالت میں ہونے کے پیچھے چھپا راز سامنے آ گیا۔ امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا تھا کہ دماغ کو محفوظ رکھنے میں مختلف عوامل کردار ادا کرسکتے ہیں جن میں دماغ کے پروٹین بھی شامل ہیں ۔ یہ بات بھی اہم کردار ادا کرتی ہے کہ اس شخص کو کس طرح دفن کیا گیا تھا۔ماہرین کے مطابق ہوسکتا ہے کہ مضبوطی سے جڑے دماغی پروٹین نے اس قدیم دماغ کو اب تک محفوظ رکھا ہو جبکہ ممکن ہے کہ اس فرد کی موت کس طرح ہوئی اور اسے کس انداز میں دفنایا گیا وہ بھی اسے محفوظ رکھنے کی وجہ ہو سکتی ہے ۔ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ دماغ انسانی جسم کا ایک ایسا حصہ ہے جو موت کے بعد فوری گَل جاتا ہے، اینزائم فوری طور پر دماغ کے ٹشوز کو توڑ دیتے ہیں البتہ ماہرین کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس شخص کی موت کے 3 ماہ میں ہی وہ اینزائم غیر فعال ہوچکے ہوںجس کی وجہ سے یہ آج تک سلامت ہے۔واضح رہے کہ دماغ میں تیزابی سیال کے داخلے کی وجہ سے بھی یہ اینزائم غیر فعال ہو سکتے ہیں۔ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اس شخص کو پھانسی دی گئی تھی جس کے بعد اس کا سر کاٹ دیا گیا تھا۔ اس دماغ کے دریافت ہونے کے بعد کئی ٹیسٹ کیے گئے ہیں ۔ یونیورسٹی آف بریڈفورڈ میں آرکیالوجیکل سائنسز کے شعبے میں ریسرچ فیلو ڈاکٹر سونیا اوکونور کا کہنا تھا کہ ایک انسانی دماغ کے ڈھانچے کا بچ پانا وہ بھی جب اسکے کسی ٹشو کو محفوظ نہیں رکھا گیا ہو بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔انسانی دماغ کا یہ ڈھانچہ ایک ایسے علاقے میں ملا تھا جو ایک تاریخی جگہ تھی اور وہاں ایسی عمارتیں ہیں جو کم سے کم تین سو سال قبل مسیح میں بنی تھیں۔یاد رہے کہ اس سے قبل اس مقام پر اُسی سال کی شروعات میں یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹ آف آرکیالوجی کی ایک ٹیم نے ایک قبر میں ایک ایسا انسانی ڈھانچہ دریافت کیا تھا جو شاید برطانیہ میں ٹی بی سے متاثرہ پہلا شخص تھا۔