• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سمندرپار پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں

گزشتہ دنوں وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر نے جاپان کا سرکاری دورہ کیا،اس موقعے پر انہوں نے جاپان کی کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں۔ایک ملاقات میں ان سے گفت گو کوموقع ملا،جب ان سے پوچھا کہ یہ کیا دورہ حکومت جاپان کی دعوت پر کیا ہے، اس کے کیا مقاصد ہیں اور آپ اس کے کیا نتائج اخذکر رہے ہیں؟تو انہوں نے کہا کہ،’’جی بالکل اس دورے کی دعوت جاپان کی حکومت نے دی تھی اور اس کا مقصد جاپان کے ساتھ معاشی تعلقات میں بہتری لانا ہے۔

ہم دس سال پہلے جو جاپان سے تعلقات اور قربت تھی اس کو دوبارہ سے بحال کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ہماری جاپان کے نائب وزیر اعظم، وزیر خزانہ، وزیر مملکت برائے خارجہ اور بزنس لیڈرز سے انتہائی خوشگوارماحول میں حوصلہ افزا ء ملاقاتیں ہوئی ہیں، جس سے افہام وتفہیم کی فضاء قائم ہوئی ہے اور تعلقات بہتری کی طرف جائیں گے‘‘۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ،جاپان کی طرف سے ماضی میں معاشی ترقی اور دیگر پروجیکٹس کی مد میں فنڈز اور امداد دی جاتی رہی ہے، لیکن اب ایسا سلسلہ دیکھنے میں نہیں آتا اس کی کیا وجہ ہے؟انہوں نے کہاکہ گرانٹ ،ایڈ تو جاپان سے ابھی بھی تقریباً 30ملین ڈالر سالانہ مل رہی ہے۔

Loansکی تعدادمیں کمی آئی ہے اور اس سلسلے میں میری جاپانی وزیر خزانہ سے بات ہوئی ہے کہ اب پاکستان کی اکنامک ریٹنگ میں بھی بہتری آئی ہے،آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف سے بھی ہماری پالیسیوں کو سراہا گیا ہے اور ہمارے خسارے میں بھی کمی آئی ہے تو میں نے ان کو یہ بات باور کرائی ہے کہ دوبارہ اُسی سلسلے کو بحال ہونا چاہئے جس پر ان کی طرف سے مثبت اشارے ملے ہیں‘‘۔FATF میں پاکستان کے گرے لسٹ میں ہونے کے حوالے سے جاپان کا کیا مؤقف ہے؟اور اس میں بہتری کے لئے پاکستان کیا کر رہا ہے؟

اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا’’ FATFکے معاملے پر ہم جاپانی سفیر اور ان کی ٹیم سے ہمیشہ رابطے میں رہتے ہیں اور ہم نے جو FATFکے لئے جو ابھی رپورٹ جمع کرائی ہے وہ ابھی تک کی سب سے مؤثر رپورٹ ہے اور انشاء اللہ 2020میں اس میں کافی بہتری کی امید ہے‘‘۔اس سوال کے جواب میں کہ JICA کے ذرائع کے مطابق پاکستان کا اکنامک افئیرز ڈویژن، پروجیکٹس لے کر آتا ہے جس کی بنیاد پر جاپان کی طرف سے امداد ہوتی ہے،لیکن کیا ایسا ہوتا ہے کہ مذکورہ ادارے کی طرف سے پروجیکٹس ہی سامنے نہیں آتے جس کی وجہ سے امدا د نہیں مل پاتی؟

ان کا کہنا تھا کہ ’’نہیں ایسا نہیں ہے، مختلف منسٹریز سے پروجیکٹس طلب کئے جاتے ہیں اور JICAخود بھی براہ راست پروجیکٹس کی پیشکش کرتی ہے اور ہم نے کچھ عرصے پہلے اپنی طرف سے پیش کیے گئے پروجیکٹس کی تفصیلات جاپان کو فراہم کی ہیں اور اب ہم ان کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں،کبھی کبھی منسٹریز کی طرف سے تعطل آتا ہے لیکن فوری بات چیت کر کے سارے مسائل حل کر لئے جاتے ہیں‘‘۔جاپان کا ایک پروجیکٹ،کراچی سرکلر ریلوے پچھلے دس سال سے تعطل کا شکار ہے اور جاپان کو شکایت ہے کہ پاکستان نے یہ پروجیکٹ چین کے حوالے کرنا چاہا لیکن انکار کی صورت میں دوبارہ جاپان کی طرف آئے ہیں تو اس پروجیکٹ کی کیا موجود ہ صورتحال ہے؟

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ’’پروجیکٹس کی انتظامی اور بحالی کی صورتحال کو مد نظر رکھ کر ہی اسے چلایا جاتا ہے اور اس میں یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ اس کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہوگی کیا وفاق کو اس کے انتظامی امور سنبھالنا ہوں گے اور رعایتی قرضوں پر ملنے والے پروجیکٹس کے بارے میں یہ اندازہ بھی لگانا ہوتا ہے کہ ہم اس کو مستقبل میں قابل عمل بنا بھی پائیں گے یا نہیں۔ابھی ہم نے کراچی کے لئے مختلف پروجیکٹس پر منظوری لی ہے اور امید ہے کہ اس پر جلد کام شروع کردیا جائے گا‘‘۔

اس سوال کے جواب میں پاکستان میں الیکٹر ک گاڑیوں کے حوالے سے پالیسی بنائی جا رہی ہے تو ایسا ممکن نہیں کہ پاکستان میں الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کی امپورٹ کے حوالے سے کوئی پالیسی بنا دی جائے؟ان کا کہنا تھا کہ منسٹری آف کامرس اس حوالے سے اسٹڈی کر رہی ہے اور اس پر کام کیا جارہا ہے‘‘۔ایران اور امریکا میں جاری کشیدگی کا پاکستان کی معاشی حالت پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟انہوں نے کہا کہ،’’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم دوسری کسی ملک کی جنگ نہیں لڑیں گے اور نہ ہی اپنی زمین کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دیں گےاور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطی کے حالات پہلے ہی بہت خراب ہیں اس میں مزید کسی خرابی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اوراس سے پاکستان کو ہی نہیں پوری دنیا کو نقصان پہنچتا ہے اور امید ہے کہ دونوں ممالک ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے اور معاملات کو حل کریں گے‘‘۔

جب ہم نے ان سے پوچھا’’جاپان اور پاکستان کے مثالی تعلقات رہے ہیں لیکن حالیہ تناظر میں جاپان کے بھارتی بلاک میں ہونے اور پاکستان کے چینی بلاک میں ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی سرد مہری نظر آتی ہے؟حماد اظہر کا کہنا تھا کہ’’جاپان کے دورے میں ہونے والی ملاقاتوں سے اندازہ ہوا ہے کہ جاپان ان میں مزید بہتری چاہتا ہے اور پاکستان بھی اس چیز کا خواہشمند ہے کہ اس کے تمام ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے،آپ دیکھیں کہ جاپان اور چین کے بھی آپس میں بہت گہرے معاشی تعلقات ہیں تو پاکستان اور چین کے تعلقات ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور ہم جاپان سے تعلقات بہتر کرنے کے لئے ہی دورہ جاپان پر آئے ہیں‘‘۔

جاپان نے حال ہی میں پاکستان سےافرادی قوت کے لئے معاہد ہ کیا ہے اس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے حوالے سے کیا فوائد ہوسکتے ہیں؟حماد اظہرکا کہنا تھاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہماری معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، جاپان میں زائد العمر افراد کی بہتات کی وجہ سے لیبر کی کمی ہے جبکہ پاکستان میں کم عمر افراد زیادہ ہیں اور یہ جب باہر جاتے ہیں توکما کر بھی بھیجتے ہیں اوران کے لئے کاروبار کی نئی راہیں کھلتی ہیں اور معیشت بھی بہتر ہوتی ہے۔

تازہ ترین